ابھی میری آنکھ کھلی ہی تھی کہ سوچا صبح کی سیر کرلی جائے۔ میں ادھر ادھر اڑتی پھر رہی تھی کہ سمیرا بستر پر لیٹی نظر آگئی۔
’’اف! محترمہ ابھی تک سور ہی ہیں۔ چلو، تھوڑا ہم بھی آرام کر لیں‘‘۔ ابھی میں اس کے نرم گال پر بیٹھی ہی تھی کہ اس نے مجھے ہٹا دیا۔ ’’اونھ! اپنے آپ کو کیا سمجھتی ہے!‘‘ اتنے میں سمیرا کی امی نے آواز دی، ’’سمیرا، ناشتا کر لو۔‘‘ چلو بھئی ذرا ناشتا ہی کر لیا جائے۔ یہ سوچ کر میں اس کے گال پر سے اڑی اور ڈائننگ ٹبیل پر بیٹھ گئی۔
’’اوہو! آج تو انڈا فرائی کیا گیا ہے۔ کتنا خوب صورت لگ رہا ہے یہ انڈا جس کی زردی پھٹ گئی ہے۔‘‘ ابھی میں اندے کی طرف بڑھی ہی تھی کہ سمیرا بھی آگئی اور ہم دونوں نے مل کر ناشتا کیا۔ کتنی اچھی ہے سمیرا جو مجھے روز اپنے ساتھ ناشتا کرنے دیتی ہے۔ ابھی میں چائے کی پیالی کی طرف بڑھی ہی تھی کہ لڑکھڑا کر اندر گر گئی۔ ’’اف! کتنی ٹھنڈک ہو رہی تھی پیالی میں! کتنی احمق ہے یہ لڑکی جو اتنی ٹھنڈی جائے پیتی ہے! چلو چھوڑو۔ فائدہ تو ہوا نا! جان تو بچی‘‘۔ سمیرا نے چمچہ ڈال کر مجھے باہر نکالا اور جلدی جلدی چائے پی کر اسکول چلی گئی۔ میرا تو پیٹ بھر گیا تھا۔ ادھر ادھر گھومنے کے بعد مجھے نیند آگئی۔ اور جب آنکھ کھلی تو بھوک ستانے لگی۔ ادھر ادھر جو پڑا ملا کھا لیا۔ کیوں کہ یہاں تو قدم قدم پر ہر چیز مل جاتی تھی۔ یہاں صفائی جو نہیں ہوتی تھی اور یہی بات مجھے بہت پسند تھی۔
اگلے روز میں نےسوچا کہ سمیرا کے پڑوس میں چلا جائے جہاں اس کی دوست تہمینہ رہتی ہے۔ جب میں تہمینہ کے گھر میں داخل ہوئی تو سخت کوفت ہوئی۔ اتنا صاف ستھرا گھر تھا کہ میرا دل گھبرانے لگا۔ میں فوراً دوسرے کمرے میں داخل ہو گئی۔ یہاں سب بیٹھے ناشتا کر رہے تھے۔
’’چلو ناشتا کر لیا جائے! ویسے حیرت کی بات ہے کہ یہاں سب مل کر ناشتا کرتے ہیں۔ اور کتنی عجیب سی لگ رہی تھی صاف ستھری میز اور اوپر سے یہاں تو انڈے بھی بالکل ثابت تھے۔ چائے تو دیکھ کر میر دل دہل گیا۔ اتنی بھاپ جو اٹھ رہی تھی، جب کہ سمیرا کے گھر میں تو…‘‘
میں نے تہمینہ کے ابو کے ساتھ ناشتا کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے مجھے بھگا دیا۔ ایک ایک کرکے سب نے ہی بھگا دیا۔ میں نے سوچا کہ سب کتنے بداخلاق لوگ ہیں۔ کسی کو کھانےہی نہیں دیتے۔ کتنا فرق ہے دونوں میں۔ سمیرا کتنی اچھی ہے کہ مجھے اپنے ساتھ ناشتا کرنے دیتی ہے اور ایک یہ ہے جو بھگا دیتی ہے۔ جاہل!
اتنے میں مَیں نے سنا کہ تہمینہ کے ابو کہہ رہے تھے:
’’بیگم! گھر میں اسپرے کروالیں۔ آج کل مکھیاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ ان سے بہت سی بیماریاں پھیلتی ہیں، کیوں کہ یہ کھانوں پر بیٹھتی ہیں۔‘‘
اس سے آگے مجھ میں کچھ سننے کی ہمت نہ تھی کیوں کہ یہ لوگ میرے دشمن تھے اور میرے خاندان کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ جاہل لوگ!