یہ میری محرومی کی داستان ہے، میں الٰہ دین پارک کیسے بنا اور کیسے اس انجام کو پہنچا۔ کراچی میرا شہر تھا۔ میں اس کی بنجر زمیں کا ایک حصہ تھا۔ یہ بنجر زمین سفاری پارک کا حصہ تھی۔ 1994 میں ایک سیاسی حکومت نے سوچا کہ اس پر ایک پارک بننا چاہیے۔ 52ایکڑ رقبہ کے اس پارک کی تعمیر اور قیام کے لیے ٹھیکہ ایک پرائیوٹ کمپنی کو دے دیا گیا۔ اس نے لینڈ کے اصولوں کو جو وہ جانتا تھا اور جو کاغذات میں چیزیں لکھی ہوئی آتی تھیں‘ اس کے مطابق اس نے اس تعمیر کا کام شروع کردیا۔ جو مجھے ابتدائی TOR دیا گیا۔ اس میں یہ بات بتائی گئی کہ آپ پانچ فیصد کمرشل ایریا بنا سکتے ہیں۔ یہ جو پانچ فیصد کمرشل ایریا تھا وہ پہلے دن سے میرے خاتمے تک متنازع رہا اور جو بلآخر مجھے لے ڈوبا۔
مجھ پر 25 سال تک یہی الزام رہا کہ میں ایک ایمنٹی پلاٹ ہوں اور مجھے کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ میں یہ سمجھانے سے قاصر رہا کہ ایک امیوزمنٹ پارک میں ساری دنیا میں جو بھی چیزیں ہوتی ہیں وہ کمرشل ہی ہوتی ہیں، چاہے وہ داخلہ فیس ہو، چاہے وہ پارکنگ ہو یا اس میں ریسٹورینٹ ہوں، دکانیں ہوں، جھولے ہوں، سوئمنگ پول ہوں، کلب ہوں، کوئی بھی چیز تجارتی مقاصدکے بغیر چل نہیں سکتی۔
کمرشل فیس بھی جو طے کی گئی تھی، وہ بہت کم تھی، جتنا میں لوگوں سے پیسے لیتا تھا، اس سے مزید کم کرنا ممکن نہیں تھا۔ ہر آدمی یہ سمجھنے سے قاصر رہا کہ میں کس سطح پر عوامی خدمت انجام دے رہا ہوں، میں نے اس شہر میں ایک صاف ستھرے پارک کی حیثیت سے کام کیا۔ میں بہترین کلب تھا، جس میں، میں نے بہترین اسپورٹس کی سہولیات فراہم کیں۔ میں نے مڈل کلا س اور لوئر مڈل کلاس، اورنگی، کورنگی ، نئی کراچی ، سرجانی ، ملیر،گلشن اقبال، ناظم آباد اور کراچی کے وہ علاقے جہاں یہ سہولیات دستیاب نہیں تھیں‘ میں نے ان وہاں کے شہریوں کو یہ سہولیات فراہم کیں۔ مجھے بنانے والوں نے ہر وقت نئے نئے ایگریمنٹ بنا بنا کر مجھے کپڑے پہنائے اور اس کے تحت کوشش کی کہ مختلف حکومتوں کی نگاہ کے اندر مجھے قانونی شکل دے سکیں۔ ہر بار قانونی شکل کے بعد مجھے ایک نئی مشکل اور تنازع سے دوچار ہونا پڑا۔ مجھے قانونی جواز فراہم کرنے والوں نے اپنی من مانی کے ساتھ ساتھ اپنے مفاد کو بھی مقدم رکھا اور اپنا مفاد نہیں چھوڑا۔ اس طرح مجھے اس شہر میں بُری طرح بدنام کر دیا گیا۔ اتنا بدنام کیا گیا، اتنا بدنام کیا گیا کہ جہاں میری آواز جاتی وہاں مجھ پر غیر قانونی ہونے کا الزام لگایا جاتا۔ مجھ پر یہ داغ لگا کر ہی ان لوگوں کو سکون ملا جو میری تباہی چاہتے تھے۔
شاید بدنامی ہی میرا مقدر تھی۔ لیکن مجھے کچھ چیزوں کا یقین ہے میں اس شہر میں لوگوں کی ایک محبوب تفریح گاہ تھا، ہر سال میرے پاس تقریباً تین ملین افراد آتے تھے اور تقریباً دو ملین کلب ممبر ہر سال مجھے وزٹ کرتے تھے۔ 12 سو خاندانوں کی روزی کا چراغ اللہ نے میرے توسط سے جلایا ہوا تھا۔ شہر کے بہت سارے کاروبارکا میں ایک وسیلہ تھا، روزانہ تقریباً چار ہزار کلب ممبر اسپورٹس کے لیے میرے پاس آتے تھے۔ میں نے کے ایم سی کو اوور ٹیکس کی مد میں سالانہ 50 لاکھ ریونیو دیا، جو ملک میں کسی پارک کی جانب سے دیا جانے والا سب سے بڑا ٹیکس تھا۔ میرے چار سو دکان دار بیٹے تھے، جن کی روزی کا چراغ میرے توسط سے جلتا تھا۔ 25 سال سے ان کے گھر کی معیشت میرے دم سے قائم تھی۔ میں یہاں کے ایم سی کے ان چھوٹے بڑے افسران کا بھی ذکر کروں گا، جو ہر وقت مجھے دبائو میں رکھ کر پیسے طلب کرتے تھے۔ ان کے لیے بھی میں ایک دودھ دینے والی گائے تھی۔ اب ان کے گھروں کے چولھے بھی بجھ گئے ہیں۔
16 جون 2021 کو ملک کی سب سے بڑی عدالت نے مجھے میرے انجام کو پہنچا دیا، میں اتنا برا تھا، اتنا برا تھا کہ مجھے عدالتِ عظمیٰ نے سننے کا موقع بھی نہ دیا۔ میں اتنا بڑ ا بوجھ تھا کہ مجھے نیست و نابود کرنے کا حکم 12 گھنٹے میں ہوا اور مجھ پر بلڈوزر چلا دیے گئے۔ میں اتنا منحوس اور بدقسمت ہوں کہ میری لاش اٹھانے کا بھی وقت نہیں مل سکا۔ آج بھی میری بے گور و کفن لاش راشد منہاس پر پڑی ہے۔ کے ایم سی اور دیگر ادارے میرے ملبے کے لوہے‘ سریے نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں۔
اس شہر کے لاکھوں بچے، جنہوں نے مجھ میں کبھی تفریح کے چند لمحات گزارے ہیں، ان کے اَن گنت سوالات ہیں، جن کے جواب میرے پاس نہیں ہیں، میں انہیں کوئی تسلی اور دلاسا بھی نہیں دے سکتا، میں انھیں نہیں سمجھا سکتا کہ کرپشن کیا ہوتی ہے، غیر قانونی تعمیرات کیسے ہوتی ہیں، سپریم کورٹ کیسے بڑی بڑی عمارتوں کو ایک فیصلے سے ڈھا کر کچرے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیتی ہے اور بڑے بڑے گھروں میں رہنے والے اور بڑی بڑی گاڑیوں میں آنے جانے والے انصاف کے دیوتا کیسے غریبوں کے گھروں کا مسمار کردیتے ہیں، کیسے چھوٹے چھوٹے دکان داروں کو ان کی روزی روٹی سے محروم کردیتے ہیں، بلکتے ہوئے بچے، روتی ہوئی عورتیں اور اپنی دکانوں کو مشین کے آہنی ہاتھوں سے مسمار ہوتے دیکھ کر رونے والے نوجوان، ادھیڑ عمر افراد اور مزدوری کرنے والے ملازمین کیسے خون کے آنسوئوں سے روتے ہیں۔
میری قیام گاہ کراچی کی مشہور شاہراہ راشد منہاس روڈ پر واقع ہے۔ بنیادی طور پر میں ایک امیوزمنٹ پارک کے طور پر وجود میں آیا تھا۔ میرے پاس نوجوانوں اور بچوں کی تفریح کا بھرپور انتظام موجود تھا۔ فیملی پارک ہونے کے سبب یہاں صرف فیملیز کو ہی داخلے کی اجازت تھی۔ میرے پاس ہمہ اقسام کے جھولے، سلائیڈ موجود تھے، جن کی گود میں بیٹھ کر بچے خوش ہوتے تھے۔ مجھے ( الٰہ دین پارک) کو بنتے پھلتے پھولتے اور مٹی کا ڈھیر ہوتے سب نے دیکھا ہے۔ کبھی میں پاکستان بھر میں اپنے شہر کی پہچان تھا۔ میری رونق سے سب ہی لطف اندوز ہوتے تھے۔ لیکن اب یہاں مٹی کا ڈھیر، لوہا، سریا، دھول اور دیوہیکل مشینی آہنی ہاتھ ہیں، جو روز بہ روز مجھے ریزہ ریزہ کر رہے ہیں، میں کسی کی راہ میں رکاوٹ نہ تھا، یہاں کاروبار کرنے والے قانونی دستاویز کے ساتھ لاکھوں روپے دے کر ان دکانوں کے مالک بنے تھے۔ کراچی کی اسی شاہراہ پر ایسی غیر قانونی عمارتیں بھی ہیں، جو انصاف کے دیوتاؤں کا منہ چڑا رہی ہیں، جو عین سڑک کے درمیان قائم ہیں، ٹریفک میں خلل ڈال رہی ہیں، غیر قانونی ہیں، ان کے انہدام کے احکامات پرزوں میں تبدیل ہوکر ان انصاف کے ایوان اور اس میں بیٹھنے والوں کے منہ پر طمانچہ ہیں، لیکن انصاف کے دیوتا ایسے منہ پر پڑنے والے طمانچوں کے عادی ہیں، یہاں اپنے احکام کے نفاد کراتے ہوئے ان کے پر جلنے لگتے ہیں۔
سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور انصاف دینے والے بہرے ہوتے ہیں، انہیں مظلوم کی چیخیں سنائی نہیں دیتیں۔ وہ فریق ثانی کو نہیں سنتے اور چند منٹوں میں ہزاروں خاندان کو معاشی تباہی سے دوچار کر دیتے ہیں۔ میں ایک دن میں تو نہیں بنا تھا، 25 برسوں کی کہانی ہے۔ میں گزشتہ 25 برس سے کراچی والوں کو تفریح فراہم کرنے کا ذریعہ تھا۔ میری پیدائش سے پہلے 52 ایکٹر پر محیط اس زمین کو تفریحی پارک بنانے کے لیے لیز کیا گیا تھا، اس وقت یہ اراضی صرف خالی میدان تھی۔ مجھے ایک نجی کمپنی نے شب و روز محنت کرکے مکمل تفریح گاہ میں تبدیل کیا تاکہ یہاں شہری اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ خوشی کے لمحات گزار سکیں، لیکن عدالتی فیصلے کے بعد مجھے ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا۔ عدالتی حکم کے بعد چند دنوں میں ہی اربوں روپے کی انویسٹمنٹ خاک کردی گئی۔
میری تعمیر غیر قانونی نہیں تھی۔ لیکن میری پیدائش کی تمام قانونی دستاویزات کو دیکھنے اور فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست کو رد کردیا گیا۔ میری درخواست کو سرے سے سنا ہی نہیں گیا۔ کے ایم سی نے16 جون کو عدالتی احکامات پر 25 برس سے قائم میرے جسم کے حصوں پر بلڈوزر چلا دیے، انتظامیہ نے چند گھنٹوں کے نوٹس پر 25 برس سے قائم تفریح گاہ چھوڑنے کا حکم دیا جو کہ یہاں کام کرنے والے ہزاروں افراد کو بے روز گار کرنے کا باعث بن گیا۔ روزگار چھیننے سے میرے بیٹوں کی روشن زندگی میں تاریکی چھا گئی۔ جس دن سپریم کورٹ کے حکم پر میرے جسم پر بلڈوزر سے آپریشن کیا گیا اور دکانیں مسمار کی گئیں‘ اُس دن میرے بیٹے‘ یہاں کے دکانداروں کا احتجاج، رونا اور اپنے کاروبار کو تباہ ہوتے دیکھ کر سینہ کوبی کرنے کے مناظر درد ناک بھی تھے اور افسوس ناک بھی۔ صرف پانچ فیصد کمرشل زمین کے استعمال کو غیر قانونی قرار دے کر ایک بہت بڑے منصوبے کو غارت کردینا اور مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کر دینا کہاں کا انصاف ہے؟ کراچی جہاں لوگوں کے پاس نہ تفریح کے لیے پارک ہیں، نہ کھیلنے کو میدان ، یہاں بچوں کو تفریح سے محروم کردینا کس قدر اذیت ناک ہے۔ یہ ان بچوں سے پوچھیے ، جو آج بھی میرے پاس آنے کی ضد کرتے ہیں۔