تھڑے کی سیاست

321

ملکی سطح پر ہونے والے عام انتخابات ہوں یا بلدیاتی معرکہ.. یا پھر کسی ایک حلقے میں ہونے والا ضمنی انتخاب! ایک طرف اگر ملک کی تمام سیاسی جماعتیں انتخابی دنگل میں حصہ لینے کے لیے سرگرم ہوجاتی ہیں تو دوسری جانب شہر بھر میں مختلف محلوں میں بنے سیاسی تھڑوں کی رونقیں بھی بحال ہونے لگتی ہیں۔ ایسا ہی ایک تھڑا ہمارے محلے میں بھی ہے۔ ویسے تو یہاں سارا سال ہی لوگوں کی بیٹھک لگی رہتی ہے لیکن انتخابات سے قبل یہاں ہونے والی ”کچہریوں“ کا اپنا ہی مزہ ہے۔ ظاہر ہے جس جگہ مختلف سیاسی نظریات رکھنے والے اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کی جائز و ناجائز حمایت کریں، وہاں کے بڑھتے ہوئے سیاسی درجہ حرارت کو بھلا کون روک سکتا ہے! اب لانڈھی حلقہ 240 سے منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی اقبال محمد علی کے انتقال کے باعث خالی ہونے والی نشست پر ہونے والے ضمنی انتخاب کو ہی لے لیجیے، جہاں ہر آنے والے دن کے ساتھ انتخابی گہماگہمی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ گزشتہ رات ابرار ہماری جانب آتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھ کر اشارے کررہا تھا، قریب آتے ہی بولا:
”مجھے تو ہر طرف پتنگیں ہی اڑتی دکھائی دے رہی ہیں، ہمیشہ کی طرح اِس مرتبہ بھی پتنگ کی اڑان اونچی ہی ہوگی، کراچی کل بھی متحدہ کا گڑھ تھا اور آج بھی یہاں کے لوگ پتنگ سے ہی رومانس کرتے ہیں، جب جب قوم کی رائے معلوم کی گئی لوگوں نے ہمیشہ پہلے سے زیادہ ایم کیو ایم کو سپورٹ کیا، اِس مرتبہ بھی ہمیں آزادی سے الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دی جارہی، ہمارے کارکن علاقوں میں نہیں آسکتے، جبکہ دوسری جماعتیں کھل کر کام کررہی ہیں، ایک مخصوص جماعت میں زبردستی بھرتی کروائی جارہی ہے، سارے جرائم پیشہ افراد لگائی گئی لانڈری میں دھل کر صاف ستھرے ہوچکے ہیں، نہ جانے ایسا کون سا سرف ایجاد ہوگیا ہے جو سارے ہی داغ دھبے صاف کردیتا ہے! ہمارے خلاف اس قسم کے ہتھکنڈوں کا استعمال کیا جانا کوئی نئی بات نہیں، ہم نے پہلے بھی قربانیاں دی ہیں اور اب بھی دے رہے ہیں، 16 جون کو ساری قوم باہر نکلے گی اور اپنی پارٹی کو ہی کامیاب کروائے گی، پتنگ کے نشان پر ٹھپے لگیں گے، سب کی ضمانتیں ضبط ہوجائیں گی، پہلے بھی یہ نشست ہماری تھی، اِس بار بھی کامیابی پتنگ کی ہی ہوگی۔ یہ ظہیر بیٹھا ہے، اس سے پوچھ لو کہ اسے کس طرح دباؤ ڈال کر دوسری پارٹی میں جانے پر مجبور کیا گیا، مرتا کیا نہ کرتا نہ چاہتے ہوئے بھی پی ایس پی میں جانا پڑا، لیکن دل سے یہ آج بھی متحدہ کا ہی کارکن ہے۔“
ابرار کی باتیں سن کر ظہیر کو تو جیسے 220 وولٹ کا جھٹکا لگ گیا ہو، کہنے لگا:
”نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں، ابرار کو یہی غلط فہمی ہے۔ میں کئی مرتبہ سمجھا چکا ہوں، اب دوٹوک الفاظ میں جواب دے رہا ہوں کہ میں اپنی مرضی اور خوشی سے پی ایس پی میں گیا ہوں، پہلے رات بھر ڈیوٹیاں دینی پڑتی تھیں، دن میں چین تھا اور نہ ہی رات میں سکون… جنگی قیدیوں والی زندگی گزارنے پر مجبور تھے، اپنے علاقے میں رہ کر اپنے ہی گھر چوروں کی طرح آیا جایا کرتے تھے۔ ماں باپ، بہن بھائی، یہاں تک کہ اپنی اولاد سے بھی آزادی سے نہیں مل سکتے تھے، ہر لمحہ موت کا خوف طاری رہتا تھا… جبکہ آج اپنے بچوں کے ساتھ اپنے گھر میں سکون سے سوتا ہوں، اُس وقت بس یہی پالیسی تھی کہ کارکنوں کو ٹینشن میں رکھا جائے تاکہ جائز ناجائز کام کروائے جاسکیں، بہت ہوگیا قوم قوم کا ڈراما… تیس سال مختلف حکومتوں کے مزے لوٹنے کے بعد پھر سے وہی حقوق دلانے اور ”اپنا ووٹ اپنوں کے لیے“ کے نعرے لگائے جارہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ جب سے مصطفیٰ کمال نے پی ایس پی بنائی ہے ہم جیسے لوگوں کو تحفظ ملا ہے۔ ہمیں تمام قومیتوں سے لڑایا گیا، جبکہ میرے رہنما نے تمام قومیتوں کے درمیان محبتیں پیدا کیں، آج اورنگی ٹاؤن والے کٹی پہاڑی جاسکتے ہیں، اسی طرح لیاری والے ناظم آباد، جبکہ لانڈھی والے کورنگی جاسکتے ہیں۔ ہماری پالیسیوں کے باعث نفرتیں ختم ہورہی ہیں۔ یہ سارا کریڈٹ ہمارے ہی لیڈر کو جاتا ہے۔ اب کراچی بدل گیا ہے۔ پہلے متبادل نہیں تھا، اب پی ایس پی ہے۔ ڈولفن امن کا نشان ہے۔ یہ ہمارے لیڈر کا کمال ہے کہ شہر پُرامن ہے، لوگ ہماری امن پسندی کے باعث ہی ہمیں ووٹ دیں گے۔ اب ٹھپے لگانے کا دور گیا، اس لیے 16جون کا سورج ہماری کامیابی کی نوید لے کر طلوع ہوگا۔“
خانوؔ بھلا کس طرح خاموش رہ سکتا تھا، اس نے بھی اپنی تقریر شروع کردی:
”یہ چھوٹی موٹی پارٹیاں ہیں، ان سے ہمارا کیا مقابلہ! ہم کراچی سمیت پورے ملک کی جماعت ہیں۔ سیاست کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔ ایک ہی پارٹی تقسیم در تقسیم ہورہی ہے، نام بدلنے سے کیا فرق پڑتا ہے! سیاسی شعور کیا ہے ہم سے پوچھو، کیونکہ ملک میں عوامی سیاست کا آغاز ہی ذوالفقار علی بھٹو سے ہوا ہے۔ بھٹو نے غریبوں کی پارٹی بنائی۔ پیپلز پارٹی کے قیام سے پہلے مسلم لیگ سمیت ایک آدھ اور پارٹی ہوا کرتی تھی جو کہ زیادہ فعال نہ تھی۔ رہی بات مسلم لیگ کی، تو وہ ایک مخصوص طبقے کی پارٹی سمجھی جاتی تھی جس پہ نوابوں اور جاگیرداروں کی اجارہ داری تھی جو آج تک قائم ہے، غریبوں کے لیے کوئی آواز اٹھانے والا نہ تھا۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو ہی تھے جنہوں نے جمہوری نظریات رکھنے والی جماعت کی بنیاد رکھی، جس نے مزدور کو آواز دی، کسان کی بات کی، جس سے عام آدمی سیاسی عمل میں شامل ہوا۔ اس طرح پاکستان میں باقاعدہ سیاست کا آغاز ہوا۔ سیاست کو ڈرائنگ روم سے نکال کر گلی، محلے، اور تھڑوں تک لانا بھٹو صاحب کا ہی کارنامہ ہے۔ انہوں نے پاکستان میں ایسا سیاسی کلچر متعارف کروایا جس کی بنیاد پر ایک مزدور سڑک پر آکر سرمایہ دار کو للکارنے لگا، ایک کسان جاگیردار سے اپنا حق مانگنے لگا، سب سے اہم بات تو یہ کہ ہماری جماعت نے ہی اس ملک کو آئین دیا، یہ وہ پارٹی ہے جس نے انتہائی نامساعد حالات میں بھی چار انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے علاوہ ہمارے لیڈر کا خاندان ہی وہ واحد خاندان ہے جس نے جمہوریت کی بقاء کی خاطر چار قیمتی جانوں کا نذرانہ دیا، جبکہ پارٹی کے متعدد رہنماؤں نے قید و بند کی صعوبتیں تک کاٹیں، اسٹیل مل، پورٹ قاسم سمیت بڑے بڑے منصوبے لگائے، ملک کو ایٹمی طاقت بنایا۔ ہم نظریاتی لوگ ہیں، اس لیے عوام تیر کو ہی ووٹ دیں گے، تم دیکھنا،16جون جیالوں کا دن ہوگا، حلقہ 240 میں یہی نعرہ گونجے گا ”زندہ ہے، بھٹو زندہ ہے۔“
”خانو کی باتیں سن کر رشید تو جیسے پھٹ پڑا، انتہائی جذباتی انداز اختیار کرتے ہوئے کہنے لگا:
”ابے چپ کر، بہت ہوگیا، یہ منجن کہیں اور جا کر بیچ۔ آدھے گھنٹے سے تیری ہی سنے جارہے ہیں۔ کس کو سنا رہا ہے یہ فضول باتیں! ابے کون نہیں جانتا کہ تیرے لیڈروں پر کرپشن، اقربا پروری، لوٹ مار جیسے سنگین الزامات ہیں، اس کے باوجود زندہ ہے زندہ ہے کا راگ آلاپ رہا ہے۔ یہی کچھ سن سن کر ہمارے کان پک گئے ہیں۔ اس نشست پر انتخاب ہورہا ہے اس لیے عوامی خدمت یاد آرہی ہے۔ اگر اتنے ہی خدمت گزار ہو تو میرے ساتھ اندرون سندھ چلو اور دیکھو وہاں کی حالت کیا ہے؟ خاک اڑتی ہوئی ملے گی۔ دیکھو کہ کس طرح لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں نے عوام کو زبردستی اپنا غلام بنا رکھا ہے، تعلیم ہے اور نہ صحت کی کوئی سہولت.. غریب کے پیروں میں چپل تک نہیں۔ صوبہ سندھ میں زیادہ تر تمہارا ہی اقتدار رہا ہے۔ سندھ کارڈ جیسے کھوکھلے نعرے اور سندھ کی ترقی کے سبز باغ دکھا کر غریبوں سے ووٹ لینا تمہارا وتیرہ بن چکا ہے، سندھ کے حقوق کے نام پر کھربوں کی کرپشن تمہاری جماعت کے لوگوں نے ہی کی ہے، کل کے کنگلے آج ارب پتی بنے ہوئے ہیں۔ جمہوریت کی بات تمہاری زبان سے اچھی نہیں لگتی، اس لیے اپنا بھاشن اپنے پاس ہی رکھو، اور سنو.. عمران خان ہی وہ واحد لیڈر ہے جو اس ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے، ہماری چار سالہ کارکردگی عوام کے سامنے ہے۔ عمران بڑا لیڈر ہے تبھی تو ساری جماعتیں اس کے خلاف ہوگئی ہیں۔ یہ واحد لیڈر ہے جس نے امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی، اس کی غلامی قبول کی، نہ اصولوں پر سودے بازی کی، بلکہ اپنے اقتدار کی پروا کیے بغیر جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے آزاد خارجہ پالیسی بنانے کی بات کی، جس کے نتیجے میں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔ لیکن کوئی بات نہیں، یوتھ ہمارے ساتھ ہے، سمجھ لو جس تبدیلی کا سفر خان صاحب نے شروع کیا تھا وہ آکر رہے گی، سب کا احتساب ہوگا، ایک ایک پیسہ وصول کیا جائے گا۔ جہاں تک اس حلقے سے انتخاب لڑنے کا معاملہ ہے تو سنو، سارے پاکستان میں بلاّ ہی کامیابی کا نشان ہے، اور یہ بات لکھ لو کہ آنے والے عام انتخابات میں سارے عوام بَلّے کو ووٹ دے کر روایتی اور خاندانی سیاست کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کردیں گے۔“
محفل خاصی گرم ہوتی جارہی تھی، نوجوان ایک دوسرے کو اپنی پارٹی کی کارکردگی بتا کر قائل کرنے کی کوشش میں مصروف تھے، ماحول دیکھ کر ایسا لگتا جیسے قومی اسمبلی کا اجلاس ہو، پولنگ کا دن قریب ہو اور سب اپنی اپنی رائے دینے میں مصروف ہوں… ایسے میں اصغر کیسے چپ رہ سکتا تھا! لمبی انگڑائی لیتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں بولا:
”بہت شور مچا رکھا ہے تم نے…باتیں تو ایسے کررہے ہو جیسے سیاسیات میں ایم اے کررکھا ہو۔ کل تک زبانیں پیٹ میں گری ہوئی تھیں، آج بڑھ چڑھ کر سیاسی تجزیے دے رہے ہو۔ یہ جو سڑک کنارے بیٹھ کر باتیں بگھار رہے ہو یہ آزادی ہماری حکومت کی وجہ سے ہے۔ یہ نوازشریف کا ہی جگرا تھا جس نے دہشت گردوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کا مقابلہ کیا، ایسی پالیسیاں بنائیں جن کے تحت سیکورٹی اداروں کو اختیارات ملے، دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز کیا، تب ہی یہاں امن آیا۔ ہماری ہی حکومت نے چندہ، بھتہ، اغوا برائے تاوان جیسے جرائم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ ہماری جماعت کی کارکردگی سب سے بہتر ہے۔ نیشنل گرڈ میں ہزاروں میگاواٹ بجلی کا اضافہ کرکے ملک کو بجلی کے بحران سے نکالا۔ موٹر وے، اورنج ٹرین، سی پیک منصوبہ، ملک کے ہر بڑے شہر میں بین الاقوامی معیار کے ائیرپورٹس کی تعمیر سے لے کر تعلیم اور صحت کے منصوبوں کی تکمیل ہماری ہی حکومت کے کارنامے ہیں۔ سنو، یہ میرے علم میں نہیں کہ اس ضمنی انتخاب میں ہمارا کوئی امیدوار ہے کہ نہیں، مجھے اس بحث میں نہیں پڑنا، میں تو یہ کہہ رہا ہوں کہ کم سے کم ان منصوبوں کا تو اعتراف کرو جو ساری دنیا کو نظر آتے ہیں۔ مخالفت برائے مخالفت اچھی بات نہیں، تنقید برائے اصلاح ہونی چاہیے۔ اس لیے مان لو کہ ترقی کا دوسرا نام میاں نوازشریف ہے۔“
نوازشریف کی تعریفیں سن کر عدنان سے نہ رہا گیا، کہنے لگا:
”یہ ”گو نواز گو“ کیوں ہورہا تھا؟ نیب میں ریفرنسز کس کے داخل ہیں؟ لندن کی جائدادیں کس کی ہیں؟ لکسن اورلنسن کا مالک کون ہے؟ حدیبیہ پیپر مل کیس میں کون نامزد ہے؟ پاناما میں کس کا نام آیا؟ پارلیمانی سیاست کرنے پر تاحیات پابندی کس پر لگائی گئی ہے؟ بیماری کا بہانہ بنا کر لندن کے عشرت کدوں میں رہنے والا شخص کون ہے؟ سب چور ہیں، سب کو حساب دینا پڑے گا، قوم کی لوٹی ہوئی دولت ہم واپس لائیں گے۔ گو کہ ہماری جماعت اس نشست پر انتخاب نہیں لڑرہی، لیکن اپنی بات لوگوں تک پہنچا رہی ہے۔ میرے کہنے کا مطلب ہے ”چہرے نہیں نظام بدلو“، ”غریبوں کے صبح وشام بدلو“۔ یہ ہماری جماعت کا اعلان ہے، آور ہمارے ساتھ مل کر اس گلے سڑے نظام اور ان فرسودہ قوانین کا خاتمہ کروائو جن کی وجہ سے لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ ہمارا وعدہ ہے کہ ہم اقتدار میں آکر دینِ اسلام کو اپنے تمام شعبہ ہائے زندگی جس میں سیاست، معیشت، عدالت، معاشرت اور تعلیم و صحت وغیرہ شامل ہیں، عملاً نافذ کریں گے۔ نوجوانوں کے لیے باعزت روزگار اور غریبوں کے لیے گزارہ الاؤنس کا بندوبست کیا جائے گا، امن وامان کو یقینی بنائیں گے، رشوت اور سفارش کے کلچر کو ختم کردیں گے، اسلامی نظام معیشت کو نافذ کرکے بلاسود بینکاری کو فروغ دیں گے، اس کے علاؤہ اسراف کا خاتمہ، سادگی کو فروغ دینا، وسائل کی تقسیم کو یقینی بنانا، معاشی ترقی اور خوشحالی کا حصول، ہر شہری کے لیے خوراک، مکان اور علاج کی ضمانت، یکساں تعلیمی نظام کا نفاذ، دریائوں اور نالوں پر پن بجلی کے منصوبوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ریاستی وسائل میں اضافہ کرنا، ملک سے تھانہ کلچر اور پٹواری کلچر جس کے ذریعے غریب عوام کو دبایا جاتا ہے، کا خاتمہ کرکے اسے وہ جدید اسلامی فلاحی ریاست بنادیں گے جس کا خواب بانیانِ پاکستان نے دیکھا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب جب ہماری جماعت کو موقع ملا ہمارے دور میں ریکارڈ ترقی ہوئی۔ اس ایک حلقے کی بات چھوڑو، پورے شہر کی صورت حال پر بات کرلیتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ بابائے کراچی میئر عبدالستار افغانی کے دور میں مثالی کام ہوئے، خاص کر شہر میں پانی کے منصوبے قابلِ تعریف ہیں۔ اور نعمت اللہ خان کا زمانہ کون بھول سکتا ہے! ہماری جماعت کے ترقیاتی منصوبوں نے کراچی کا نقشہ بدل دیا، سارے شہر میں پلوں، سڑکوں اور انڈرپاسز کا جال بچھا دیا، لوگوں کو سفری سہولیات دیں۔ آج کراچی کا شہری پانی کی بوند بوند کو ترس رہا ہے، بدترین سیاسی مخالف بھی ہماری جماعت پر ایک دھیلے کی کرپشن کا الزام نہیں لگا سکتا۔ ہمارے ہاتھ صاف ہیں، ہم نے ہمیشہ بے لوث خدمت کی ہے، اصولوں اور ایشور پر سیاست کی ہے۔“
عدنان کی باتوں کی کسی نے بھی مخالفت نہ کی۔ ہر شخص اس بات سے واقف تھا کہ اُس کی جماعت پر کرپشن یا اختیارات کے ناجائز استعمال کا کوئی الزام تک نہیں، اس جماعت کے اکابرین کو ہر شخص بڑی عزت سے دیکھتا ہے۔
رات تھڑے پر لگنے والی کچہری تو ختم ہوگئی، لیکن دورانِ بحث اٹھنے والے سوالات ایک عام ووٹر کو یہ پیغام دے گئے کہ آپ کے ووٹ کا صحیح حق دار وہ ہے کہ جس کا ماضی اور حال عوام کے سامنے کھلی کتاب کی طرح ہو۔ اگر ہم اپنے ووٹ سے ایمان دار اور محب وطن افراد کو منتخب کریں تو پاکستان کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں جانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ خیر تھڑے پر لگنے والی اسمبلی میں ہر دوسرا شخص اپنے تئیں کامیابی کا دعویٰ کررہا تھا، اب دیکھنا یہ ہے کہ 16جون کو ہونے والے اس ضمنی الیکشن میں اس حلقے کے عوام کس کو کامیاب کرواتے ہیں۔

حصہ