’’رانیہ… رانیہ…!‘‘ امی کوئی ہزارویں بار اُس کو پکار رہی تھیں۔
’’آتی ہوں امی جی! دو منٹ میں۔‘‘ ہر بار کی طرح موبائل سے نظریں ہٹائے بغیر وہ اونچی آواز میں جواب دے کر پھر سے اسکرین میں منہمک ہوگئی۔
اُس کی نگاہوں کا محور فیس بک پر کوئی لائیو ٹاک شو تھا جسے وہ پچھلے تین گھنٹے سے مسلسل دیکھ رہی تھی۔
بار بار رانیہ کو بلاتے امی نے اب عاجز سی ہو کر خود ہی کافی کا جار اتارنے کا فیصلہ کیا جو باورچی خانے کے کیبنٹ میں بہت اوپر رکھا تھا جسے رانیہ لمبا قید ہونے کی وجہ سے باآسانی اتار سکتی تھی۔
بہت مشقت سے امی نے اسٹول لا کر کیبنٹ کے نیچے رکھا اور احتیاط سے کافی کا جار لے کر وہ اترنے ہی والی تھیں کہ اُن کا پیر پھسل گیا اور دل دہلا دینے والی چیخ کے ساتھ جار اُن کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین بوس ہوگیا۔ صدہا شکر کہ وہ گرنے سے بال بال بچ گئیں۔
چیخ کی آواز سن کر رانیہ بھاگتی ہوئی آئی ’’کیا ہوا امی جی…سب خیریت ہے…؟‘‘ اُس کے اِس سوال پر یقیناً امی کے دل میں لاکھوں کلماتِ سخت سست آئے ہوں گے لیکن وہ اپنی فطری نرم طبیعت اور غصے پر قابو پانے کی صلاحیت کی وجہ سے خاموش رہیں۔
’’اوہو… جار گرگیا… لائیں میں کانچ اٹھا لوں۔‘‘ اس کا دل اب بھی ٹاک شو میں ہی الجھا تھا سو ازراہِ تکلف پوچھا۔
’’نہیں بیٹا! میں کر لوں گی۔‘‘ اُن کے لہجے میں کسی قدر ناراضی تھی۔
’’اچھا چلیں ٹھیک ہے۔‘‘ رانیہ نے دل ہی دل میں شکر کا کلمہ ادا کیا کہ اُسے یہ کام نہیں کرنا پڑا ورنہ ٹاک شو پورا ہی نکل جاتا۔‘‘
امی جھاڑو سے کانچ کے ٹکڑے اٹھانے لگیں۔ وہ بھاگتے ہوئے واپس گئی اور موبائل اٹھا لیا۔
’’ارے انٹرنیٹ پیکج ہی ختم ہوگیا۔‘‘ نیٹ پیکج ختم ہونے کا ٹیکسٹ میسج اُسے منہ چڑا رہا تھا۔ بے زاری اور کلفت سے اُس نے موبائل پرے اچھالا اور کشن گود میں رکھ کر بیٹھ گئی۔ اچانک اس کی نظر وال کلاک پر پڑی اورحیرت کے مارے وہ اچھل پڑی۔
’’اوہ… آٹھ بج بھی گئے! عصر اور مغرب کا وقت نکل گیا۔‘‘ عجیب سی کیفیت نے اس کے پورے وجود کو گھیر لیا۔
’’ابھی تو عصر کی اذان ہوئی تھی اور میں بس ایک نظر فیس بک دیکھنے بیٹھی تھی‘ پتا نہیں کیسے اتنا وقت گزر گیا؟‘‘ مایوسی سے اس نے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا تھا۔
…٭…
پرانے وقتوں میں گلی محلوں میں بندر کا تماشا دکھانے والے آیا کرتے تھے اور بچے‘ جوان سب ہی بہت شوق سے ڈگڈگی کی تال پر بندر کو اُچھلتا کودتا دیکھتے تھے۔ بندر کے گلے میں موٹے موٹے موتیوں کے بہت سے ہار ہوتے تھے جو کہ انسانوں کی طرح کپڑے بھی پہنے ہوتے تھے۔ بندر کو نچانے والا شخص یعنی مداری بھی مخصوص لباس پہنے ہوئے ہوتا تھا۔ زرد رنگ کی ڈھیلی ڈھالی میل سے اٹی ہوئی شلوار قمیض جس کا گریبان کھلا ہوتا تھا اور گلے میں بندر ہی کی طرح بہت سی مالائیں ڈال رکھی ہوتی تھیں‘ ان کے ایک ہاتھ میں ڈگڈگی اور دوسرے ہاتھ میں عصا یا لمبی لکڑی ہوتی تھی۔
گلیوں میں جیسے ہی ان کی آمد ہوتی ایک شور بلند ہو جاتا، ہر گھر سے بچے دروازے میں جمع ہوجاتے‘ ساتھ ہی اُن کی مائیں بھی اپنے ڈوپٹے سنبھالتی ہاتھ میں کچھ سکے یا نوٹ پکڑے ان کے پیچھے چلی آتی تھیں۔ جب کہ کچھ گھروں کی چھتوں پر سے بھی بچے اور لڑکیاں جھانکنے لگتی تھیں۔ بندر جب ڈگڈگی کی آواز پر تماشا دکھا کر فارغ ہو جاتا تو لوہے کا پیالہ لے کر تماش دیکھنے والوں کے پاس جاتا جس پر تماش بین حسبِ استطاعت روپے یا سکے ڈال دیتے۔ بندر کا مالک چھتوں سے جھانکنے والوں کی طرف بھی پیالہ بڑھاتا تھا لیکن وہ چند نظر آتے سر فوراً غائب ہوجاتے تھے۔
آج کے دور میں بھی چھ چھ مہینوں بعد پرانی گلیوں اور محلوں میں اکثر یہ لوگ ڈگڈگی بجاتے بندر کو اپنے کندھے پر چڑھائے نظر آتے ہیں لیکن اُنہیں پذیرائی تو درکنار وہ توجہ بھی نصیب نہیں ہوتی جو گلیوں میں گھومنے والی بلیوں کو نصیب ہوتی ہے۔ آج کا انسان اپنے لیے جدید تماشے اور جدید تماش بین منتخب کرچکا ہے۔ دورِ جدید کے بچوں اور نوجوانوں نے ایسا تماشا اپنے لیے پسند کرلیا ہے جس میں ڈگڈگی کی تال پر وہ خود اچھلتے کودتے ہیں۔ انسان نے ڈگڈگی اُس اسکرین کو بنایا ہوا ہے جو انہیں جادوئی طریقے سے بندر کی طرح نچاتی ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ انسان اپنے بندر صفت بن جانے کو ناپسند نہیں کر رہا بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی نئے تماشے کے ساتھ وابستگی بڑھتی جارہی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اِس تماشے نے انہیں ’’عاجلہ‘‘ میں الجھا رکھا ہے اور ’’آخرہ‘‘ سے غافل کردیا ہے۔
…٭…
’’رانیہ…! نماز پڑھ لو‘ عصر کا وقت جلدی ختم ہو جاتا ہے۔‘‘ امی آج بھی اُسے بیسویں بار نماز کے لیے بول رہی تھیں۔
’’پڑھتی ہوں امی جی!‘‘ رانیہ نے موبائل ہاتھ میں تھامے نظریں اسکرین سے ہٹائے بغیر جواب دیا۔
امی نے افسوس سے اسے دیکھا۔
’’ کبھی نورِ الٰہی سے چہرے چمکتے تھے اور اب اسکرینوں کی مصنوعی روشنیوں نے چہرے اور دلوں سے نور بھی ختم کردیا ہے۔‘‘ وہ دکھی دل سے سوچتے رانیہ کے پاس آئیں اور نرمی سے موبائل اس کے ہاتھوں سے لیا۔
’’کیا دیکھ رہی ہو بیٹا؟‘‘
’’بندر کا تماشا دیکھ رہی ہوں امی!‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ اچک کر امی کے ہاتھ سے موبائل لینے کی کوشش کرنے لگی۔
’’دیکھ نہیں رہی خود بندر بنتی جارہی ہو۔‘‘ موبائل انہوں نے سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور بولیں ’’جاؤ نماز پڑھو۔‘‘
’’میں کیسے بندر بنتی جارہی ہوں‘ پتا نہیں کیا‘ کیا کہتی رہتی ہیں؟‘‘ کندھے اچکا کر اُس نے دوبارہ موبائل اٹھایا اور اسکرین میں گم ہوگئی۔