ایک دفعہ کا ذکر ہےکِسی گاؤں میں ایک درخت پرچِڑیوں کا ایک چھوٹا مگر نہایت ہی خوشحال سا کنبہ رہائش پزیر تھا۔ ایک دن گھر کے سربراہ چُڑے کو بھوک لگی۔ پہنچا اپنی جورو کے پاس اور کہا کہ کھانا بناؤ۔ چڑیا بولی: سرتاج آپ اگرسامنے کھیت سے چاول کا ایک دانا لے آئیں تو میں جا کرنیچے مکان مالکن سے مسور کی دال کا ایک دانا لے آتی ہوں پھر ہمیشہ کی طرح ہم آج بھی کھچڑی بنائیں گے اور مزے لے لے کر کھائیں گے۔ تھوڑے کو بہت جانیں گے ، اَللہ کا شکر ادا کریں گے اور ہمیشہ کی طرح شام ڈھلتے ہی سکون کی نیند سو جائیں گے۔ چُڑا بولا:نہ بابا نہ! برسوں سےروز وہی ایک طرح کی کھچڑی کھا کھا کر میر ا تو پیٹ خراب ہوگیا ہے۔تمہارے میکے والوں نے تمہیں کچُھ اور پکانا نہیں سکھایا؟ کبھی تو تم کچھ بدل کر پکا لیا کرو! جاؤ تم میرے لیے آج کوئی دوسرے قسم کی مزیدار سی ڈِش بناؤ۔
چڑیا بولی: سرکار! کام کاجھ تو آپ کچھ کرتے نہیں مگر باتیں آپ کی مغلیہ خاندان کے فرمانرواؤں کی یاد دلاتی ہیں۔ حرام ہے جو آپ اپنی محنت کی کمائی کا ایک دھیلہ بھی کبھی گھر لائے ہوں۔ اِس وقت آپ کی خواہش پوری کرنے کےلیے گھر پر کسی قسم کا اَناج موجود نہیں اس لیے میں کُچھ نہیں پکا سکتی۔ اور ہاں! خبردار جو آئندہ میرے میکے کے بارے میں ایک لفظ بھی اپنی زبان سے نکالا ہو۔ ہمارے گھر میں توکھانے پکانے کے لیے نوکر چاکر ہوا کرتے تھے۔ ہائے کیا دور تھا! جب میری امّاں مجھےاپنی نیم کے درخت جیسی محبت کی ٹھنڈی چھاؤں سےکبھی باہر نکلنے نہ دیا کرتی تھیں اور ابّا پیپل کی شفقت سے بھری مضبوط شاخوں کی طرح رات دن مجھے اپنے حصار میں محفوظ رکھتے تھے! بھائی پتے بن کر مجھے زمانے کی گرم ہوا سے بچاتے اور بہنیں میری دکھ سکھ کی ساتھی ہوتیں۔ سکھیاں میرے ساتھ دن رات کھیلتیں، دل لگی کرتیں اور میری راز دار ہوتیں۔ میرا میکہ میکہ نہ تھا گویا جنت کا درخت تھا!
آہ! پتا نہیں کون سی منحوس گھڑی تھی جب ابّا امّاں نے تم جیسے ٹٹ پونجیے کے ساتھ میرا نصیب جوڑدیا۔ اور اُس دن سے آج تک ہانڈی چولہا کرتے کرتے ،بچوں کو سنبھالتے سنبھالتے اور گھر کی صفائی کرتے کرتے کمبخت موئی میری تو کمرہی جواب دے گئی ہے! چُڑا بولا:نیک بخت ! ایک تو توُ اِنسانوں کی بیویوں کی طرح کام کم اور بک بک زیادہ کرتی ہے۔ دماغ پھٹنے لگتا ہے تیری روز کی چیں چیں سے۔ اس گھونسلے میں بیٹھنے سے تو بہتر ہے چڑا کہیں باہر چلا جائے۔ میں بھی جاتا ہوں کچھ ڈھونڈ کے لاتا ہوں تاکہ آج سادہ کھچڑی کی جگہ کوئی چٹ پٹی سی بریانی بنے اور ہم اِسے مزے سے کھائیں ۔
چڑا پھِر پھُرسے اُڑ جاتا ہے اور بریانی پکانے کا سامان جمع کرنا شروع کرتا ہے۔ گوشت کے لیے جب قصاب کی دکان پہنچتا ہے اور جونہی چھیچڑوں میں پڑا ایک چھوٹا ساٹکڑا منہ میں داب کر اُڑنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہاں پہلے سےتاک میں موجود ایک بلی اُسے دبوچ لیتی ہے۔ اور جونہی کھانے کا ارادہ کرتی ہے تو چُڑا اِنتہائی لَجاجَت سے بلی سے درخواست کرتا ہے: بی بلّی! میری ننھی سی جان بخش دو کیونکہ اگر تم مجھے کھا گئیں تو میری ایک عدد معصوم بیوی بیوہ اور بہت سے چھوٹے چھوٹے بچے یتیم ہو جائیں گے۔ بلّی بچپن سے ایسی باتیں نا جانے کتنے چوہوں ، چڑیاؤں اور کبوتروں سے سُن چکی تھی۔ اُ س نےچُڑے کی التجاؤں پر رتّی برابر بھی کان نہ دَھرا اور ایک ہی بار میں سالم چڑے کو چٹ کر گئی اور ڈکار تک نہ لی۔ بیوی کو جب اِس اندوہناک حادثہ کی خبر پڑوسیوں سے ملی تو اُس بے چاری نے ایک ہچکی لی اور آناً فاناً اپنے خالق حقیقی سے جا ملی۔
سبق:
٭ گھر کا مرد اگر کام نہ کرے تو گھر میں معاشی تنگی آجاتی ہے۔
بلا وجہ کی خواہشات اور اپنی اوقات کی چادر سے باہر پیر نکالنے سے ہمیشہ نقصان ہوتا ہے۔
٭ بیوی کی جلی کٹی باتیں گھر کا سکون غارت کردیتی ہیں اور مرد کی ٹھیک سے سوچنے کی صلاحیت سَلب کر لیتی ہیں۔
٭ میاں بیوی کی کھٹ پٹ کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دونوں کے مابین محبت نہیں۔
٭ اس دنیا میں کون شکاری کِس کی گھات میں کہاں چھپا بیٹھا ہے اِس بات کا اندازہ ضرور لگالینا چاہیے ورنہ بہت بڑا نقصان بھی ہو سکتا ہے۔
٭ جس کسی کی زندگی کا انحصار کسی دوسرے کی موت پرہواُس سے رحم کی اُمید عبث ہے۔
٭ جس سے رحم کی اُمید نہ ہو اُس سے رحم کی بھیک مانگنا کارِفضول ہے۔