عید الفطر کے بعد عزیز و اقارب سے عید ملنے کا سلسلہ قدرے تھما ہی تھا کہ جماعت اسلامی خواتین کراچی نظم کی جانب سے عید ملن کے بلاوے نے دل باغ باغ کردیا، ہم مقصد ساتھیوں سے ملاقات کا لطف تو الگ ہی ہوتا ہے ۔ سو مئی کی کڑکتی دھوپ اور گرمی کی لہر کہیں دور رہ گئی اور ہم مسرت و محبت کے جذبات سے سرشار ادارہ نور حق جا کر اترے۔
قنات کا پردہ اٹھاتے ہی تازہ گلابوں سے مہکتی خوش گوار جھونکوں نے استقبال کیا۔ نائب ناظمہ کراچی ثنا علیم مہمانان گرامی کو خوش آمدید کہہ رہی تھیں۔ میزبانی کے فرائض محترمہ ثمرین احمد انجام دے رہی تھیں۔ جن کے بر محل شعری انتخاب نے نظامت کو مزید خوب صورت و با وقار بنا دیا تھا۔
بزرگ اراکین جماعت، جن کی شبانہ روز محنتوں سے تنظیم ثمربار ہوئی، سب ان کو اپنے درمیان پا کر بہت خوش تھے۔ سابق قیمہ پاکستان عائشہ منور صاحبہ جن کا خطاب روانی، کھری، نپی تلی بات اور جذبات کا شاہکار ہوتا تھا، حافظے کے مسائل کا شکار ہونے کے باوجود ان کی شرکت حوصلہ بڑھا رہی تھی۔ ان کا مسکراتا چہرہ بہت سی آنکھوں کو نمناک کر گیا۔ الخدمت کی روح رواں ناصرہ الیاس ‘ سندھ اور بلوچستان کی سابق ناظمہ امت الرقیب، ملک بھر میں جامعتہ المحصنات کا جال بچھانے اور قرآن کریم سے عشق رکھنے والی تحسین فاطمہ نے اپنے تجربات اور جذبات سے شرکا کو نئی تقویت کا سامان فراہم کیا۔ غرض کہ مرکز، صوبہ، شہر اور ضلعی سطح کے ذمے داران نے عید ملن کو محبت، احترام اور بے تکلفی کے حسین رنگوں سے سجا دیا۔
پروگرام کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ اریبہ جاوید کی نعت خوانی نے سماں باندھ دیا۔ عطیہ نثار نے موجودہ سیاسی صورت حال پر ایک کارکن کی بہترین فکری رہنمائی کی۔ انہوں نے کہا کہ اس موقع پر اپنے نظم پر اعتماد، تعلیمات پر یقین اور یکسوئی کو متزلزل نہ ہونے دیں۔ دورہ قرآن کئی دہائیوں سے رمضان کی ایک اہم روایت ہے، اس کی ابتدا کیسے ہوئی؟ عطیہ نثار اور عائشہ ودود نے اس پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ عقیلہ خلیل، اختر عزیز، خولہ مسعود اور دیگر اراکین نے تقریباً پینتیس سال قبل اس عظیم کام کا آغاز کیا تھا اور اب دورۂ قرآن معاشرے میں قرآن فہمی کا استعارہ بن گیا ہے ۔ یہی نہیں بلکہ جماعت اسلامی کی اس روایت کو دیگر دینی جماعتوں نے بھی اپنایا جو کہ نہایت خوش کن امر ہے۔ آج معاشرے میں قرآن کے مطالب سے جڑنے اور اسے اپنی عملی زندگی میں داخل کرنے کا جو شعور پیدا ہوا بلاشبہ اس کا سہرا جماعت اسلامی کے سر ہے۔
ثمرین احمد اور ثنا علیم نے بڑی مہارت سے شرکائے محفل کو جوڑا اور ان سے گھریلو سلیقے سے لے کر سماجی مسائل جیسے ٹوٹے دلوں اور ٹوٹے گھروں کو جوڑنے میں ہمارا کردار اور دیگر سوال کیے۔ دلچسپ، معنی خیز اور شرارتی سوالات نے مسکراہٹیں بھی بکھیریں اور مقصد کی لگن بھی بڑھائی۔ اس کے علاوہ زبان زد عام مصرع بتا کر شعر مکمل کرنے کا مطالبہ اور ایسی ہی دیگر دل چسپ سرگرمیوں نے محفل کو گل گلزار بنا دیا تھا۔
بعد اذان عصر اسما سفیر ناظمہ کراچی نے مختصر خطاب کے ساتھ رب کریم سے ایمانی طاقت، اخلاص اور استعانت طلب کرنے کے لیے ہاتھ پھیلا دیے۔
پھر ماحول مہندی، چوڑی، کنگن، جھمکے، کرن گوٹے وغیرہ سے سجی ایک مسکراتی، کھلکھلاتی عید ملن میں ڈھل گیا۔ اختتامِ محفل پر مزیدار لوازمات سے بھرے میز ہمارے منتظر تھے ، جوکہ ہماری ناظمات اضلاع شرکا کے لیے خلوص کی چاشنی میں گھول کر بنا کر لائی تھیں۔ سب باہم ملاقات بھی کرتے رہے اور چھولے، دہی بڑے، پاستا، سینڈوچ، سویاں اور دیگر لوازمات سے لطف اندوز بھی ہوتے رہے۔ یوں ہم ایک بہت بھرپور دن گزار کر نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی منزلوں کو روانہ ہوگئے۔