بچپن میں کبھی میں نے ایک تماشا دیکھا تھا کہ ایک سپیرے نے کس طرح اپنی ناک کے ایک نتھنے سے سانپ کو داخل کیا اور دوسرے سے باہر نکال لیا تھا۔ اُس کے جو بھی مقاصد تھے مگر اُس کی ناک اس کام میں پھول کر کُپا ہو گئی تھی اور لگتا تھا کہ شاید پھٹ ہی جائے گی… اور ایسا ہی کچھ مجھے بھی لگ رہا تھا۔ گو کہ میں نے تو ناک میں سانپ ڈالا بھی نہیں تھا۔
’’آپ کے تو قریب ہی کھڑے ہو کر اندازہ ہو رہا ہے کہ آپ خود نہیں آئیں‘ لائی گئی ہیں‘ کیا پیا تھا ؟ مچھر مار دوائی یا چوہے مار؟ یا پھر کسی میڈیکل اسٹور والے بھائی صاحب نے مہربانی فرمائی آپ پر؟‘‘ ایمرجنسی ڈیوٹی پر تعینات ڈاکٹر نے تمسخرانہ انداز میں مجھ سے پوچھا۔
’’بدتمیز…‘‘ میں نے دل میں ڈاکٹر کے بارے میں نخوت سے سوچا کیوں کہ میں نے دیکھا تھا کے کس طرح سختی سے وہ اپنے اسٹاف سے کام لے رہا تھا۔ وارڈ بوائے کو جھڑکنا‘ نرس کو سختی سے پکارنا‘ ایمرجنسی وارڈ کا اسٹاف ربوٹ کی مانند اُس کے حکم پر بھاگ دوڑ رہا تھا۔
ڈاکٹر نے میری نبض کو محسوس کرنے کے بعد سنجیدگی سے کہا ’’اب آپ نے جو کیا ہے اُس کا نتیجہ بھی آپ ہی بھگتیں گی۔‘‘ اُس نے یہ کہتے ہوئے ایک نرس کو اشارہ کیا اور وہ دوڑ کر میرے اور اُس کے درمیان میں آ گئی۔
ایک اسپرے میری ناک پر کیا گیا جس پر مجھے تو نہیں لگا کہ کچھ بھی اثر تھا مگر نرس نے اسپرے کرتے ہوئے بتایا کہ اس سے آپ کی ناک سُن ہو جائے گی۔ ابھی اسپرے مکمل ہوا بھی نہیں ہوا تھا کہ جھٹ سے دوسری نرس نے ایک بہت ہی موٹی سی شیشے کی نالی جیسا کچھ میری ناک کے ایک نتھنے میں گُھسانا شروع کر دیا‘ میں ہاتھ چلاتی رہ گئی مگر وہ لمبی شیشے کی ٹیوب میری سانس کی نالی سے ہوتی ہوئی پیٹ کے اندر داخل ہو چکی تھی۔ شیشے کی نالی سے جڑی پلاسٹک کی پتلے پائپ جیسی نالی بھی تھی جو کہ آدھی میرے پیٹ میں تھی اور آدھی باہر۔
’’نہایت اذیت ناک سزا ہے یہ تو۔‘‘ میں نے اپنے سُن ہوتے حواسوں میں سوچا۔ ’’فلموں میں تو ایسا نہیں دکھاتے۔‘‘
فلموں میں تو اگر کوئی خودکشی کرنے کے لیے زہر پیتا بھی ہے تو اُس کے والدین‘ بھائی‘ بہن جس کے لیے خودکشی کی گئی ہوتی ہے‘ وہ سب کے سب باجماعت روتے پیٹتے ہیں اور اسپتال میں جائے نماز بچھا کر خودکشی کرنے والے کے لیے دعا کرتے ہیں کہ وہ بچ جائے۔ پھر چند منٹوں کے انتظار کے بعد اُن میں سے جو خودکشی کرنے والے پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے کا ذمے دار ہوتا ہے‘ اسے اجازت دی جاتی ہے کہ کمرے میں جا کر خودکشی کرنے والے کو کچھ ایسا کہے کہ وہ سب چھوڑ چھاڑ خوش ہو کر واپس زندگی کی طرف دوڑا چلا آئے۔ پھر وہ اندر جاتا ہے‘ خودکشی کرنے والے کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر روتا ہے‘ معافی مانگتا ہے اور خودکشی کرنے والا آہستہ آہستہ آنکھیں کھول کر اُس کو معاف کر دیتا ہے … کہانی ختم۔ مگر یہاں تو ایسا کچھ نہیں ہوا۔
میرے ایک ہاتھ میں کینولا لگا کر دو چار قسم کی دوائیاں ڈرپ کے ذریعے داخل کی جا رہی تھیں جن میں سے ایک ایسی تھی کہ جو قطرہ قطرہ نس میں سے گزر رہی تھی مگر ایک آگ سی لگاتی ہوئی انگلیوں سے لے کر کندھے تک کو لرزنے پر مجبور کر رہی تھی۔ پڑوسی مریض کے ساتھ آنے والی خاتون نے رحم دلانہ انداز میں نرس کو اس طرف توجہ دلائی ’’بے چاری کو سردی لگ رہی ہے کوئی کمبل اوڑھا دو ناں ۔‘‘
بدتمیز ڈاکٹر‘ جو اب ایمرجنسی وارڈ کے کونے میں پڑی میز کے گرد ہل رہا تھا وہیں سے چِلایا ’’کوئی ضرورت نہیں ان پر رحم کھانے کی ‘ یہ تو مرنا چاہتی تھیں‘ سردی گرمی سے ان کو کیا مطلب؟‘‘
میرے ساتھ ایک ہی فرد تھا جسے دھکے دے کر ایمرجنسی وارڈ سے باہر کر دیا تھا اور میں خود کو اس قابل نہیں پاتی تھی کے بدتمیز ڈاکٹر کا دماغ درست کر سکوں… میں نے ہونٹ بھینچ لیے اور ایک آنسو میری بائیں آنکھ سے لڑھک کر تکیے پر جذب ہو گیا۔ مگر ابھی بس کہاں ہوا تھا۔
نرس نے ایک کالا سا محلول پلاسٹک کی نالی سے میرے پیٹ میں داخل کر نا شروع کر دیا‘ وہ جیسے ہی اندر پہنچتا‘ مجھے اپنا پیٹ پھولتا محسوس ہوتا جیسے کوئی غبارے میں ہوا بھرنے لگے یہ سوچے بغیر کہ آیا پھٹ ہی نہ جائے… اُس پر ستم یہ کے ایک موٹے سے انجکشن کو نالی کے سرے پر لگایا کہ وہ جو بھی میرے پیٹ میں ڈال رہی تھی اُس کو کھینچ لے۔ میری چیخ نکلی ’’پلیز ایسا نہ کرو… پلیز۔‘‘
میری سسکیاں سُن کر بدتمیز ڈاکٹر نپے تلے سے قدم لیتا میرے بستر کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا ’’محترمہ! ابھی تو عشق کے امتحان اور بھی ہیں… آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔‘‘
نرس ڈاکٹر کا اشارہ ملتے ہی دوبارہ اُسی تندہی سے ڈالنے اور نکالنے کے عمل میں مصروف ہو گئی۔ اگر انہوں نے مجھے کوئی نیند کا یا سکون کا انجکشن دیا بھی تھا تو وہ اثر نہیںکر رہا تھا‘ کالے محلول کے بار بار ڈالنے اور کھینچنے پر اذیت شدید ہوتی جا رہی تھی۔ میں درد سے دُہری ہوئی جاتی تھی‘ ہر بار میری آہ نکل جاتی اور آنسو ٹپک جاتے۔ پڑوسی تیماردار کو بھی نکال باہر کیا گیا تھا‘ وہ خود پر قابو نہیں کر پا رہی تھیں‘ اُن کا مریض مزے سے سو رہا تھا اور اُن کو مجھ پر رحم آئے چلا جا رہا تھا۔ میں نے بڑی مشکل سے دوسرے ہاتھ سے اپنی تکلیف سے پھٹتی ہوئی ناک کو چھونے کی کوشش کی تو نرس نے جھٹک دیا۔ وہ اتنی تیزی سے کام کر رہی تھی کہ لگ رہا تھا کہ کوئی مشین چل پڑی ہے جب کہ بدتمیز ڈاکٹر بڑے اطمینان سے کھڑا میری بڑھتی ہوئی سسکیوں ا ور ہلکی‘ تیز ہوتی سانسوں کو بار بار چیک کر رہا تھا۔
رومانٹیک خودکشی کا سوچا تھا میں نے مگر کتنی بے ہودہ ہوتی ہے یہ خودکشی… لعنت ہے مجھ پر۔ میں کئی دفعہ دل میں سوچ چکی تھی مگر ابھی اس بستر سے‘ اس مشین کی طرح حرکت کرتی ہوئی نرس سے ‘ اس کالے محلول کے اندر جانے اور باہر نکالے جانے سے اور اس سفاک ڈاکٹر سے نجات کیسے ملے؟ کوئی نجات دہندہ ہے میرا؟
سولی پر بھی نیند آجاتی ہے مگر اس طرح نہیں۔ میں اپنی آنکھوں میں آتے ہوئے آنسوئوں کو جلدی سے پلکیں پٹ پٹا کر گرا دیتی۔ میرے اندر بس اب دیکھنے اور محسوس کرنے کی ہی سکت باقی تھی‘ میں اتنا ڈری ہوئی تھی کہ سونے اور غافل ہو جانے کے خیال سے ہی خوف آ رہا تھا میری آنکھیں اگر بند ہونے بھی لگتیں تو میں خود کو جھڑک کر جگا لیتی۔ کتنا وقت اسی طرح نکلا مجھے کچھ اندازہ نہیں تھا۔ مگر میرے سارے رومانس کا جنازہ نکالنے کے بعد ڈاکٹر کے کہنے پر نرس نے جس تیز رفتاری سے شیشے کی نالی میرے جسم میں داخل کی تھی اُسی تیزی سے کھینچ لی مجھے بار بار لگ رہا تھا کہ یہ شیشے کی نالی اپنے ساتھ میرا دل ‘ جگر‘ گردہ کچھ تو ضرور کھینچ لائے گی‘ وہ کہیں اٹک گئی تھی۔ نرس نے واپس اندر کی پھر کھینچی اور تیسری کوشش کے بعد نالی باہر آ گئی۔ میں روتی کیسے کہ اب تو بدتمیز ڈاکٹر میرے پلکوں کو پکڑے آنکھوں میں ٹارچ کر روشنی ڈال ڈال کر پتا نہیں کیا تلاش کر رہا تھا۔ اسی اثنا میں نرس نے میرے ہاتھ سے کینولا بھی کھینچ لیا مگر کچھ اس طرح کہ میرا پورا جسم لرز گیا جس پر ڈاکٹر یکدم بھڑک اُٹھا۔
’’ یہ کیا کر رہی ہو بہن… اس طرح نکالتے ہیں؟‘‘
غصہ تو بہت تھا مجھے اُ س ڈاکٹر پر مگر سارے ستم ڈھانے کے بعد اُس کی یہ رحم دلی مجھے ہنسا گئی۔
کینولا والے ہاتھ کو بدتمیز ڈاکٹر نے اُلٹ پلٹ کر دیکھا جس رگ سے آگ لگانے والی دوائی گزری تھی وہ نیلی پڑ چکی تھی اُس نے بڑے انہماک کے ساتھ آہستہ آہستہ سے رگ کو اسپرٹ میں ڈوبی روئی سے سہلانا شروع کردیا۔ اسپرٹ کی ٹھنڈک میری رگ پر ایسے محسوس ہوئی جیسے جلتے ہوئے پر کوئی پانی چھڑک دے۔ میں نے پھر ہلکی سی سسکی بھری۔ ڈاکٹر نے میری طرف دیکھا‘ اب اُس کے چہرے پر نرمی تھی اور آنکھوں میں نمی سی محسوس ہو رہی تھی‘ اب کی بار وہ بڑے حلیم انداز میں گویا ہوا۔
’’ابھی جو بھی آپ کے ساتھ کیا گیا وہ تین دن میں مکمل ہونا تھا مگر یہ سب کو اتنی جلدی میں کرنا آپ کے ساتھ ضروری تھا کہ ابھی چند ہی لمحوں میں آپ کے اس خودکشی کے اقدام پر پولیس والے آتے ہی ہوں گے‘ یہ اسپتال کے اوپر واضح کر دیا گیا ہے کہ خودکشی کے سارے کیسز فور اً قریبی تھانے میں درج کرا ئے جائیں‘ آپ کے یہاں داخل ہوتے ہی اسپتال انتظامیہ نے پولیس کو فون کر دیا ہو گا‘ میں نے آپ کو اُن کے آنے سے پہلے پہلے وہ تمام ٹریٹمنٹ دے دی ہے جو ضروری تھی‘ اب آپ جا سکتی ہیں پولیس آئے گی تو ہم کہہ دیں گے کہ مریض اپنی مرضی سے علاج کرائے بغیر جا چُکا ہے‘ جو دوائیاں لکھ رہا ہوں ضرور وقت پر لیجیے گا… اور اگلی بار آپ سوچ سمجھ کر خودکشی کیجیے گا کیوں کہ بچ جانے کی صورت میں موت سے زیادہ ذلت اُٹھانی پڑتی ہے۔‘‘یہ کہہ کر بدتمیز ڈاکٹر فوجیوں کی طرح ایڑھیوں پر پلٹا اور وارڈ سے غائب ہو گیا۔
میں نے دل میں سوچا کے ڈاکٹر کچھ ایسا بدتمیز بھی نہیں تھا‘ نرس نے مجھے اُسی تیز رفتاری سے تیار کر دیا تھا اور ایک گھنٹے میں ہی میری رومانٹیک سی خودکشی کا سارا معاملہ بہت ہی غیر رومانٹیک طریقے سے طے پا گیا… توبہ ہے!