نعت نگاری بھی ذریعۂ نجات ہے‘ اکرم کنجاہی

168

نعت نگاری کی ابتدا پیغمبر اسلام کے دور میں ہوگئی تھی۔ آپؐ کے چچا ابو طالب کے علاوہ آپ کی پھوپھی حضرت صفیہ نے بھی آپ کی شان میں اشعار کہے تاہم صحابی ٔ رسول حضرت حسان بن ثابتؓ کے نعتیہ اشعار نے مقبولیت کا سفرطے کیا۔ اب نعت گوئی ارتقائی منزل طے کرتے ہوئے امتِ مسلمہ کی تمام زبانوں میں ایک اہم صنف سخن کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ نعت کی جامعیت اور اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ مسلمان شعرا کے ساتھ ساتھ غیر مسلم شعرا نے بھی نعت نگاری کی ہے۔ ان خیالات کااظہار معروف شاعر اورمحقق اکرم کنجاہی نے ایک نشست میںکیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ نعت نگاری اسلامی روایات کا اہم جزو ہے۔ نعت کہتے وقت بہت محتاط رہنا ہوتا ہے۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانی نژاد شاعر ادیب بشب تمنا ان دنوں کراچی آئے ہوئے ہیں انہوں نے کہا کہ نعت نگاری میں شمائل رسول اور سیرت رسول کے علاوہ امت محمدی کے مسائل اور حالاتِ زمانہ بھی کہے جا رہے ہیں کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ اسوۂ رسول کی پیروی میں دین و دنیا کی فلاح و بہبود ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ برطانیہ میں اردو بولنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے زبان کی بنیاد پر ہندوستان کے لوگ بھی ہمارے ساتھ آواز ملاتے ہیں ہم وہاں گھروں میں ادبی نشستیں منعقد کرتے ہیں پاکستان کی طرح آزادی نہیں ہے۔ اس وقت اردو دنیا کی اہم زبانوں میں شامل ہے۔ شاعر علی شاعر نے کہا کہ ہم نعتیہ مجموعوں کی تعداد میں اضافہ دیکھ رہے ہیں۔ نعتیہ ادب کی ترقی جاری ہے۔ رانا خالد محمود نے کہا کہ تمام اصنافِ سخن میں نعت لکھی جارہی ہے لیکن نعت میں غزل کاانداز بہت مقبول ہو رہا ہے۔ نعت نگاری میں تنقید کی گنجائش ہے کیوں کہ بہت سے شعرائے کرام نعت میں حمدیہ اشعار کہہ رہے ہیں جو کہ شرک ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم نعت میں گلو اور جھوٹ سے پرہیز کریں۔ اس مختصر اور خوب صورت نشست میں ہر شاعر نے ایک ایک غزل بھی سنائی اور عشائیہ پر اس تقریب کا اختتام ہوا۔

حصہ