بنیادی طور ’’علم‘‘ کی عمارت جن چار ستون پر قائم ہوتی ہے ان میں 1۔پڑھنا 2۔لکھنا 3۔ سمجھنا اور 4 ۔ یاد رکھنا ہے لیکن ہمارا پورا تعلیمی نظام ’’یاد رکھنے‘‘ کے ستون کو بھول کر لنگڑی عمارت کھڑی کرتا ہے۔ بچوں کو پڑھایا، لکھایا اور سمجھایا جاتا ہے لیکن امتحان ’’حافظہ‘‘ کا لیا جاتا ہے۔ جیسے کسی کار کے لازمی طور پر چار ٹائر ہوتے ہیں لیکن تعلیم کی کار کا ایک پہیہ پنکچر ہے پھر بھی یہ گاڑی گھسیٹی جا رہی ہے۔ یہ طلبہ پر بے جا توقعات کا عذاب ہے۔ اس کے باوجود جو بچے پڑھ کر یاد رکھتے ہیں اس کے اسباب مختلف ہیں جیسے اُن کا شوق، عزم، علم سے محبت، گھر والوں یا اساتذہ کا خوف۔ کسی بھی چیز کو یاد رکھنے کا مسئلہ صرف تعلیمی اداروں سے جڑا نہیں ہے بلکہ یہ مسئلہ زندگی سے جڑے ہر فرد کا ہے جو ’’قوتِ حافظہ‘‘ کے ہنر سے محروم ہے۔ اس لیے میں آج آپ کو ’’یادداشت‘‘ بڑھانے کی ایک ترکیب بتاتا ہوں جس کو آپ ’’قصرِ ذہن‘‘Mind Palace کا طریقہ کار کہہ سکتے ہیں‘ جو ایک جادوئی خیمہ ہے جہاں اَن گنت چیزیں بڑی سے بڑی مدت کے لیے رکھ سکتے ہیں۔ ویسے اس کے کئی نام ہیںجیسے Roman Room Method,، journey method۔
کہتے ہیں کہ 546 قبل ِمسیح میں ملک ِیونان میں Simonides نامی ایک دانشور تھا جو یونانی بادشاہ کا اہم وزیر بھی تھا۔ ایک دن شاہی محل کے بڑے ایوان میں دربار سجا ہوا تھا جہاں ایک عالی شان دعوت تھی جس میں حکومت کے ذمے داروں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ اتفاقاًSimonides کو کسی کام سے تھوڑی دیر کے لیے محل چھوڑ کر باہر جانا پڑا۔ ناگہانی یہ ہوئی کہ اس محل کی چھت گر گئی اور ایوان میں موجود سب لوگوں کی زندگی تمام ہوئی‘ سب کے سب موت کی نیند سوگئے۔ بعد میں دنیا یہ جاننا چاہی کہ دربار میں کون کون تھے تب اس نے اپنی یادداشت سے محل کا تصورکرتے ہوئے ہر اس شخص کے مقام کا ذکر کیا اور بتایا کہ کون کہاں بیٹھا تھا۔ سینکڑوں لوگوں کے متعلق تفصیل سن کر لوگوں نے پوچھا کہ کس طرح تمہاری یادداشت پر یقین کیا جائے؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ یاد کی روشن سطح پر ساری تفصیل ایک حاضر حوالے کے طور پر تیار ملے؟ اس نے بتایا کہ وہ ’’قصرِ ذہن‘‘ کی بنیاد پر چیزیں یاد کرتا ہے جس کی وجہ سے کسی بھی بات کو یاد رکھنا نہ صرف آسان ہو جاتا ہے بلکہ اسے بھولنا مشکل بھی ہوجاتا ہے۔ اس علم کو
Spatial Memory، space related memory
کہتے ہیں۔ اس کو ہم مقامی، مکانی یا جگہ سے جڑی ہوئے یادداشت کا علم کہہ سکتے ہیں۔
آیئے اس ترکیب کو برتتے ہیں۔ اس کے لیے آپ اپنے گھر کے ہر کمرے کو ایک ’’اسٹیشن‘‘ سمجھیں اور اسٹیشن کی چیزوں کو ترتیب وار لکھیں۔ جیسے دروازہ نمبر ایک، صوفہ نمبر دو، الماری نمبر تین۔ اس طرح جتنا ممکن ہو آپ چیزوں کی ایک فہرست بنا لیں۔ لکھتے وقت چند باتوں کا خیال رکھیں۔ Clockwise یا اس کے برعکس جائیں گے۔ نیچے سے اوپر کی طرف جائیں گے یا اس کے برعکس۔ صرف جمی ہوئی چیزوں کو ہی شمارکریں گے۔ جگہ سے ہٹنے والی چیزوں کا شمار نہیں ہوگا۔ اس اساس پر ہم گھر کے علاوہ راستے، مدرسے، مسجد، مندر، پارک یا کسی بھی زمینی جگہ‘ جس سے آپ واقف ہیں۔ ہم دیکھے بھالے راستے کبھی نہیں بھولتے بلکہ اس کے کھڈے بھی یاد رکھتے ہیں۔ ہمیں بس اسی رہ گزر پر علم، متن، فارمولے باندھنا ہوگا۔ فیچر فلم یا کارٹون فلم سے بھی استفادہ کرسکتے ہیں (جوفلم یاد رہ جائے) کیوں کہ فلم مکمل ہونے کے بعد وہ ایک مجسم تصویر بن جاتی ہے یا اپنی سائیکل، موٹر یا کارکے اہم حصوں کو نشانات بنائیں۔ منتخب چیزوں کو ہم Pegs, Markers, anchors کہیں گے۔ جب نشان زدہ چیزیں جو ایک طرح سے ہمارے لیے آگے چل کر کھونٹیاں بن جائیں گی پھر اس کی فہرست تیار کر لی جائے اور آنکھیں بند کرکے اس کو حافظہ کی بنیاد پر دہرایا جائے۔ذہنی و تصوراتی چہل قدمی سے ایک بار مقامات یا نشان زدہ چیزوں کو دہرالیں۔ اگر وہ آپ کو تھوڑی سے مشق کے بعد یاد ہوجائے تو سمجھیں کہ آپ نے ایک بہت بڑا ائرپورٹ تیار کرلیا ہے جس پر متن و معلومات کو ڈھوئے ہوئے بڑ ے بڑے جہاز اُتر سکتے ہیں۔
اس تیار ی کے بعد آپ وہ نکات کی فہرست لے لیں جو آپ کو یاد کرنا ہے۔ پھر ارتکازِ خیال سے اب اس سبق کو آپ ذہن کی زبان میں coding کریں گے تاکہ ذہن اس کو قبول کرسکے۔جدید ترین علوم کی تازہ تحقیق یہ ثابت کرچکی ہے کہ حافظے کی زبان رنگ، شکل، ناپ، مبالغہ، جنس کی شناخت و تبدیلی، جوڑ و رابطہ، حواس، انوکھا تصور، حرکت اور جذبات ہیں۔ اگر ہم اپنے نوٹس کو حافظے کی زبان میں تیار کریں گے تو یاد رہیں گے۔ اپنے گھر میں منتخب نشانات ایک مقناطیس کی طرح سلسلہ وار سبق کے نکات سے چمٹ جائیں گے۔ اس سے پہلے تو ہم نے رٹا لگاکر لفظوں کو ہوا میں چھوڑ رکھا تھا۔ لیکن اب اس کو Mind Palace کی جگہ مل گئی ہے۔ ہر بات ایک ’’کھونٹی‘‘ سے بندھی ہوئی ہے۔ پہلے تو ہم نے متن کو سیاہ قلم اور سفید کاغذ کی یک رنگی زنجیر سے قید کر رکھا تھا۔ لیکن اب رنگوں سے دھنک بنایا ہے‘ خانوں میں قید اعداد کو رہائی دلائی‘ اعداد کو نئی آواز دے کر‘ جسے پھر کسی وقت سمجھا یا جائے گا۔ جس علم کا نامMajor System ہے۔ حاصل کردہ معلومات کو ذہن کی کھلی وادیوں، ترائیوں میں اس کو مقام دینا ہوگا جہاں وہ ذہن کی زبان میں رہے گا۔ codeمیں ڈھلا ہوا علم ذہن میں ایک منظرکا روپ لے لیتا ہے۔ ’’یادداشت‘‘ ایک داخلی تجربہ بن جاتی ہے۔ اگر اس کو رٹا لگا کر باہر سے سہارے دیں گے تو یہ دھواں دھواں ہوگا لیکن اب یاد کو جگہ، ٹھکانہ مل گیا ہے‘ یادداشت کی کوالٹی یہ طے کرتی ہے کہ حافظے میں متن کا پڑائو بہتر جگہ ہے کہ نہیں؟ بکھرے ہوئے مواد کی کڑیوں میں زنجیر پہنانے سے تسلسل بنا ہے کہ نہیں۔ جس طرح قدر ت اپنی تخلیق کی پیکنگ اس کے ساخت کے اعتبار سے کرتی ہے‘ جیسے انگور اور تربوز کا الگ الگ حفاظتی لباس ہوتا ہے۔ اسی طرح موضوع کے اعتبار سے ہمیں پیکنگ کی ضرورت ہے۔ دماغ ایسا رنگ ریز ہے جو ہزاروں رنگوں کی تصویر کو یاد رکھتا ہے۔ بچپن میں اسکول کی دیوار اور جوانی میں آفس کی دیوار میں چاہے جتنی مماثلت ہو‘ وہ گڈمڈ نہیں کرے گا بلکہ اسکول کی دیوار پر کبھی کوئی یادگار شرارت لکھی ہو تو آپ کو وہ بھی یاد دلا دے گا۔ نقش نگاری کے جتنے ڈھنگ ہیں دماغ اُن میں سب سے آگے ہے۔ کڑھائی، ڈرائنگ، مصوری یا بت تراشی سب فن یادداشت کے پیچھے ہیں۔
اس ترتیب کو شیکسپیئر کے زمانے سے‘ مکالمے یاد رکھنے کے لیے برتا گیا۔ سر آرتھر کینن ڈوئل نے شرلاک ہومز کا کردار اسی اساس پر سنوارا ہے۔Dr. Yip Swee Chooi نے چینی انگریزی ڈکشنری جو 1774صفحات پر مشتمل ہے‘ اس کو حرف بہ حرف یادکیا۔ اس سلسلے میں یہ کتابیں PDFDRIVE.COM سے مفت پڑھی جاسکتی ہیں۔
Mr. Ron White جو دو بار ورلڈ میموری چمپئن رہے اُن کی کتاب ــ ’’mind palace‘‘Mr. Joshua foerکی “Moon Walking with Einstein”جیسے کئی کتابیں ہیں۔ لیکن بہتر ہے ایک ہفتہ کے لیے اس کی عملی تربیت لی جائے۔