(تیسری اور آخری قسط)
سالک صاحب، حکیم فقیر محمد چشتی کا ذکر کرتے ہیں۔ پھبتی اور ضلع جگت میں ان کی مثال دور دور نہ تھی۔ بات سے بات پیدا کرتے اور جس کو پھبتیوں کا نشانہ بنا لیتے وہ خدا کی مانگتا۔ ایک دن ان کے مطب میں نجّو نامی طوائف بیٹھی تھی۔ سالک صاحب پہنچے تو حکیم صاحب نے اس سے کہا ’’یہ تمہارے شہر کے بہت بڑے شاعر اور ادیب سالک صاحب ہیں۔ آداب بجا لا ئو۔‘‘
وہ سروقد اٹھ کھڑی ہوئی اور جھک کر آداب بجا لائی۔ پھر مجھ سے کہا ’’یہ لاہور کی مشہورطوائف نجّو ہیں۔ آپ اس کوچے سے نابلد سہی، لیکن نام تو سنا ہی ہوگا۔‘‘
سالک صاحب نے کہا ’’جی ہاں نام تو سنا ہے لیکن نجّو بھلا کیا نام ہوا؟‘‘
فرمانے لگے ’’لوگ نجّو نجّو کہہ کر پکارتے ہیں پورا نام تو نجات المومنین ہے۔‘‘
سالک صاحب نے لکھا ہے حکیم صاحب میںبڑ ی خوبیاں تھیںآپ کی وضع داری ابنائے زمانہ میں بے نظیر تھی۔ انگریز بھی آپ سے علاج کرا لیا کرتے تھے۔ ایمپریس روڈ پر ایک انگریز رہتا تھا، وہ بہت سے ڈاکٹروں سے علاج کرا چکا تھا۔ ایک دن اس کے خانساماں نے کہا ہمارے حکیم جی سے علاج کرائو۔ پہلے تو انگریز نہ مانا آخر کہنے لگا اچھا حکیم کو بلائو۔
حکیم جی نے نبض پر ہاتھ رکھا اور چھوٹتے ہی کہہ دیاکہ آپ تو Impotent (نامرد) ہوچکے ہیں۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور پوچھنے لگا آپ کوکس نے بتایا؟
حکیم صاحب نے کہا نبض سے صاف معلوم ہو رہا ہے۔ حکیم صاحب نے نسخے لکھے‘ انہوںنے پوری پابندی سے تین مہینے علاج کرایا اور حکیم کی خدمت میں خاصی رقم پیش کی۔ دو مہینے بعد سنا کہ وہ اپنے اینگلو انڈین ہمسائے کی لڑکی کو اغوا کر کے لے گیا ہے۔ سالک صاحب نے حکیم صاحب سے کہا ’’حضرت گو قانون آپ کوکچھ نہ کہے لیکن اس اغوا میں اعانت مجرمانہ کا ارتکاب آپ سے بھی ہوا ہے۔‘‘
اپنی کتاب ’’یارانِ کہن‘‘ میںایک خاکہ مولانا شوکت علی کا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ان میںان کی بے پناہ ظرافت بہت ممتاز تھی۔ ان کی ہر بات اور ہر حرکت میں قہقہوں کا سامان موجود تھا۔ ایک دن کسی نے پوچھا آپ کے بڑے بھائی ذوالفقار علی خان کا تخلص گوہر اور مولانا محمد علی کا جوہر ہے، آپ کا کیا تخلص ہے؟
بے تکلف کہا کہ ’’شوہر۔‘‘
مولاناشوکت عربی نہیںجانتے تھے۔ ایک دن چند نوجوان سر ہوگئے کہ آپ عربی تو جانتے نہیں عربی میں باتیںکیسے کر لیتے ہیں۔ کہنے لگے ’’واہ عربی کیوں نہیں جانتے‘ ہم خوب عربی جانتے ہیں‘‘۔
کسی لڑکے نے پوچھا، اچھا تویہ بتا ئیے کہ گھٹنے کو عربی میںکیا کہتے ہیں؟ بے تامل جواب دیا ’’گھٹنا تو عرب میں ہوتا ہی نہیں۔‘‘ لڑکے مارے قہقہوںکے لوٹ پوٹ ہوگئے۔
مولانا ابوالکلام جیل الٰہ آباد کی اسیری کے حالات سنا رہے تھے،کہنے لگے میری کوٹھڑی کے عین سامنے ایک کوٹھڑی میںکوئی چینی قیدی تھا۔ افسوس ہے بیگانگیٔ زبان کی وجہ سے ہم آپس میں بات چیت نہ کرسکتے تھے اور صرف ایک دوسرے کا منہ ہی تک کر رہ جاتے تھے۔
’’زبانِ یار من چینی،و من چینی نمی دانم‘‘ چینی کو یہ معلوم نہ تھا کہ میںکس جرم میں ماخوذ ہوں۔ غالباً سوچتا رہتا ہوگا۔ آخر اس دن اس سے رہا نہ گیا۔ مجھے مخاطب کر کے میرے سامنے ہاتھ لہرانے لگا یعنی یہاںکیسے آئے؟ میںکیا جواب دیتا۔ جب خاموش رہا تو اس نے پوچھا ’اوپیم‘ یعنی افیم کے معاملے میںپکڑے گئے ہو؟ میںنے نفی میںسر ہلا دیا تو اس نے اپنے ہاتھ کو اپنے گلے پر چھری کی طرح پھیرا یعنی پوچھا کسی کوقتل کیا ہے؟ میں نے پھر سر ہلایا آخر اس نے پوچھا ’گاندھی‘ میں نے اثبات میںسر ہلایا تو وہ بالکل مطمئن ہوگیا، گویا گاندھی بھی ناجائز افیم اور قتل کی طرح جرائم میںشامل ہے۔
معروف شاعروںسے متعلق چند لطیفے کشور ناہید نے اپنی کتاب ’’شناسائیاں رسوائیاں‘‘ میں بیان کیے ہیں۔ وہ لکھتی ہیں:
ایک دفعہ گوجرانوالہ کے ایک کالج مشاعرے میں مجھے (کشور ناہید) اور عابد علی (عابد صاحب) کو بلایا گیا۔ عابد صاحب نے آخر میں چارشعر یہ کہہ کر سنائے کہ ابھی راستے میں موزوںہوئے ہیں۔ جیسے ہی عابد صاحب نے وہ چار شعر ختم کیے‘ مجمع میں سے ایک لڑکا اٹھا اور بولا ’’اس غزل کے باقی شعر مجھے یاد ہیں، میںسنائے دیتا ہوں۔‘‘
ایک مشاعرے کے ہجوم کی فقرہ بازی کمال کی اس وقت تھی جب منیر نیازی 35 دن کے بعد اپنی بیوی کا چالیسواںکرکے36 ویںدن نئی شادی کرچکے تھے اور مشاعرے میں نظم پڑھ رہے تھے’’ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں‘‘ انہوںنے نظم شروع کی تو پیچھے سے آواز آئی ’’شادی کرنے میں تو دیر نہیںکی۔‘‘
دوسرا قصہ یوںہے ’’اب تو جہاز ہر جگہ جانے لگے ہیں، گاڑیاں بھی بہت ہو گئی ہیں۔ پہلے مشاعرے کے لیے ویگن کر لی جاتی تھی۔ سب لوگ ٹی ہائوس جمع ہو جاتے اور وہاںسے بھر کے متعلقہ جگہ کے لیے روانہ ہو جاتے۔ ایک دفعہ فیصل آباد جانا تھا۔ منیر نیازی سیر ہو کر آئے تھے اس لیے ہر آدھے گھنٹے بعد ویگن رکوا کر نیچے اترتے تھے۔ جب یہ مرحلہ تین چاردفعہ ہو چکا تو خفیف سے ہو کر منیر نیازی نے پوچھا ’’ابھی کتنا فاصلہ باقی ہے؟‘‘
قتیل شفائی نے کہا ’’بس آپ دو دفعہ اور اتریں گے۔‘‘
اب تک ہم نے جو کچھ لکھا ہے اُس کا حوالہ بھی دیا ہے۔ لیکن ایک دو واقعہ درج کرتا ہوں جو اس خاکسار کے سامنے پیش آئے۔
غالباً 1982کی بات ہے، دبئی میں ایک بڑا مشاعرہ ایک بڑے ہوٹل میں منعقدہوا۔ تمام مہمان شاعروں کو مشاعرہ شروع ہونے سے قبل اسٹیج کے ساتھ بٹھایا گیا۔ نیازی صاحب نے ہال کے باہر ایک کرسی منگوا کر انتظارکرنا مناسب سمجھا۔ منتظمین نے اندر چلنے کا کہا تو فرمایا جب وقت آئے گا تو اندر آ جائیں گے۔ یہ خاکسار ایک کارکن تھا۔ منتظمین نے مجھے کہا کہ ذرا ان کے ساتھ رہنا۔ صاحب خوب سیر ہوکر آئے تھے تو ڈر تھا کہ اس عالم میں بدمزگی نہ پیدا ہو جائے۔ جب لوگ شرکت کے لیے آتے تو کچھ لوگ انہیںپہچان کر سلام دعا کر لیتے۔ نیازی صاحب سب سے کہتے ’’پاکستان جانا تو میرے والد کی قبر پر فاتحہ ضرور پڑھنا۔‘‘ چند افراد نے ذرا ہٹ کر مجھ سے پوچھاکہ ان کے والدکی قبر کہاں ہے۔ ہمارا جواب تھا کہ ان سے ہی پوچھو۔ لیکن ان کی حالت دیکھتے ہوئے کسی نے یہ زحمت نہیںکی۔
جب کسی قدر تنہائی ملی تو ہم نے ان سے پوچھا کہ آپ نے فلم میں گانے لکھے ہیں، وہ گانے بہت مشہور ہوئے خاص کر ’’اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو‘‘۔ تواب کیوںنہیںلکھ رہے ہیں؟
ان کا جواب تھا کہ وہ گانے تو لکھ سکتے ہیں لیکن جب ڈائریکٹر اور پروڈیوسر نے ہائے اللہ اور اُوئی اللہ قسم کے گانے لکھوانے پر اصرار کیا تو انہوں نے معذرت کرلی۔ وہ معیار سے گری ہوئی شاعری کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔
یہ سارے واقعات سوائے آخر ی دو کے ہم نے اہلِ قلم کی تحریروں کے حوالے کے ساتھ لکھے ہیں۔ اس سے ہٹ کر بے شمارواقعات مختلف تحریروں میں پائے جاتے ہیں ان سب کا احاطہ مشکل ہے‘ ہم نے اسے اپنے مطالعے تک محدود رکھا ہے اور تمام کا حوالہ بھی دیا ہے۔
بہت سارے لطیفے اور دل چسپ باتیں غالب، ذوق، میر ا اور مومن وغیرہ سے بھی منسوب ہیں اور سینہ گزٹ کے ذریعے ہر خاص و عام میں مقبول ہیں لیکن انہیں مستند نہیں کہا جاسکتا۔ غالب ا ور ذوق کی چپقلش کا ذکر تو بہت ہوا ہے۔ قتیل شفائی نے ایک شعر میں اسے یوں بیان کیا ہے:
دو گھڑی کسی غالب سے مل آئیں قتیل
حضرتِ ذوق تو وابستہ ہیں دربار کے ساتھ
یہ بات اطمینان کی ہے کہ اردو میں خاکہ نگاروں اور سوانح تحریر کرنے والوں میں ایک دو کے سوا کسی نے اپنے حلقۂ احباب کی شخصیتوں پر کیچڑ نہیں اچھالی‘ ان کی کمزوریوں کو بیان نہیں کیا۔ ہم اُن ادیبوں کا نام اور ان کے خیالات کی تفصیل میں جانا نہیں چاہتے اورکون ہے جس میں کمزوریاں نہیں ہیں۔ ان احباب کے دنیا سے گزر جانے کے بعد ان کی کمزوریوںکو اجاگر کرنا کسی طرح قابلِ تقلید نہیں ہے۔ اتنا ہی سوچ لیں کہ ان کے بچے حیات ہیں اور وہ اپنے والد کی کارگزاری سامنے آنے پر کیسا محسوس کریں گے۔
ماہرالقادری کی ایک روایت تھی کہ اپنے واقف کاروں میں کسی کا انتقال ہو جائے تواپنے رسالے میں ایک تعزیتی مضمون لکھا کرتے تھے۔ اس میں کوئی حامی یا مخالف کی قید نہ تھی۔ بس ان کے حلقۂ احباب میں ہونا چاہیے۔ چار‘ چار سو صفحوں کی دو جلدوں میں شائع ہوئی ہیں۔ ان کے انتقال کے بعد طالب الہاشمی صاحب نے تیس سال کے ان کے رسالے فاران سے جمع کیے اور ان کی اشاعت کا بیڑہ اٹھایا۔ ہر مضمون میں مرحوم کی تعریف و توصیف بیان کی ہے سوائے ایک ن۔م راشد کے۔ اس میں بھی ان کی اخلاقی کمزوریوں کا ذکر نہیں ہے بلکہ مرحوم کے عقائد اور شاعری میں ان کے تجربات پر کڑی تنقید کی ہے۔ ماہر صاحب نے اس بات پر تنقید کی ہے کہ مرحوم نے اپنی میت کو دفن کرنے کے بجائے جلا دینے کی وصیت کی تھی۔ دوسرا پہلو مرحوم کی نثری شاعری کے حوالے سے تنقید ہے۔ اخلاقی پہلو کا کہیں ذکر نہیں ہے۔
یہ موضوع طویل ہوسکتا ہے تاہم ہم نے اسے صرف ادیبوں کے حوالوں تک ہی محدود رکھا‘ سنی سنائی باتوں سے دور۔ امید ہے کہ اس موضوع پر مزید تحریریں آسکتی ہیں۔ہم ان سب کا خیر مقدم کریںگے۔