عمران خان کی کیا بات کی جائے۔ ان کے ’ـاسلامی ٹچ ‘نے تو ساری سیاسی محفل لوٹ لی ہے۔کمال کی اننگز جاری ہے۔اے آر وائی کیمپ کے چینلز دیکھ لیں، لگ پتا جائےگا۔عوام کا ایسا جذبہ ۔ اوہ میرے خدایا۔ اب ایک سیکولر آدمی مزے سے دعویٰ عشق رسول ﷺ کر کے ، امریکا کی بھی بینڈ بجا رہاہے۔ عوام پاگل ہوئے جا رہے ہیں ایسی بے باک لیڈر شپ کے پیچھے۔نمائش چورنگی پر آنسو گیس کے درمیان سڑک پر ایک ماہ کی بیٹی اور ایک سال کے بچےمطلب دو معصوم بچوں کو لیکر ، شادمان ٹاؤن کے مڈل کلاس علاقے سے آنے والی وہ خاتون یہ فرما رہی تھی کہ ’آج ڈرگئے تو نسلوں کو پے کرنا پڑے گا، مجھے تو پاکستان کے حالات میں کربلا یاد آگئی‘‘۔کسی نے پوسٹ کے نیچے کمنٹ کیا کہ’بہن آپکو حقیقی آزادی کی نہیں مرکز بہبود آبادی کی ضرورت ہے۔‘اسی طرح محسن سیال نے بھی ایک وڈیو شیئر کی جس میں میاں بیوی اپنے دو گود کے بچوں کو لیکر شیلنگ کے درمیان پہنچے ہوئے تھے اور بڑے فخر سے ایک سوال کے جواب پر کسی ماسک کے نہ لینے کا ذکر کر رہے تھے ۔سوال یہ نہیں تھاکہ یہ لوگ عقل مند ہیں یا بے وقوف ، سوال یہ تھا کہ اتنے مذہبی جذبے کے ساتھ چند تقاریر سن کر یہ لوگ کیسے نکل آئے ؟اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ مذہبی جذبات کو مکمل سیاسی تحرک کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا اور جلوسوں میں مخلوط ماحول ، موسیقی و ناچ گانے دیکھ کر صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ اِن بے چاروں میں مذہبی شعور کہیں نہیں تھا۔ سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ انہی بچوں اور خواتین کو فوکس کرایا جاتا رہا تاکہ مزید لوگوں کو نکالاجا سکے۔بہرحال میں تو صرف ایک آیت بیان کروںگا کہ ’ہر قوم کے لیے مہلت کی ایک مدّت مقرر ہے، پھر جب کسی قوم کی مدّت آن پوری ہوتی ہے تو ایک گھڑی بھر کی تاخیر و تقدیم نہیں ہوتی۔‘سورۃ اعراف 34میں اللہ تعالی ٰ نے اصول بیان فرمایا ۔
بات یہیں تک نہیں ہے ۔یہ تو سلسلہ چلتا رہے گا۔اب چلتے ہیں اشتہاری ثقافت پر۔یہ وہ ثقافت ہے جو اشتہارکاری سے فروغ پاتی ہے ، اسکو میڈیا کے ذریعہ سے بھی کہہ سکتے ہیںکہ میڈیا میں اشتہار کاری کا مقصد حرص و ہوس کے ماحول میں صرف کنزیومر کی بڑھوتری ہوتاہے۔ انسان کے اندر کی خواہشات کو زبردستی ، کبھی آسانی کے نام پر تو کبھی سہولت کے نام پرتو کبھی کسی اور عنوان سے ضرورت بناکر کھڑا کر دیتا ہے تاکہ سرمایہ کار کا مال بکتا رہے۔یہ پوری ترتیب ہے۔اس نظام کا بنیادی ہدف خاندان کے ادار ے کی ہر سطح پر تباہی ہے،بلکہ خاندان ہی نہیں ہر وہ اقداری معیار یا پیمانہ جو انسان کو کسی شکل میں بھی وحی پر مبنی تعلیمات واحکامات کے تابع رکھے ۔جب انسان کا رشتہ وحی پر مبنی تعلیمات سے کٹتاہے تبھی تو وہ ’مرضی‘ و ’آزادی‘ کے پیراڈائم میں داخل ہوتا ہے ، یہیں سے تو وہ اپنی لگام شیطان کے ہاتھ میں دیتا ہے جو اسے اپنی جانب سرپٹ دوڑاتا لے جاتا ہے ۔ذرا غور کریں تو سارا میڈیا ، مطلب دنیا بھر کا میڈیااسی مشن کے گرد ہی کھڑا ہے۔
یہ مت سمجھیے گا کہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ ہے ، میں نے عرض کیا کہ دنیا بھر میں جہاں بھی انسانوں کے درمیان وحی، مذہب (خواہ کوئی بھی ہو)، خاندان، قبیلہ کی روایات ہونگی ، یہ ان کو مسل کر، روند کرختم کرے گا۔ایسا کرے گاتب ہی اسکو مطلوبہ مقاصد مل سکیں گے۔اس لیے میڈیا کے ذریعے مال کی فروخت اور مطلوبہ ذہن سازی کی جاتی ہے۔یہ جو لفظ ریٹنگ ہے وہ بھی دراصل اسی سے جڑے ایک پیمانے کا نام ہے تاکہ کس کا مال کون زیادہ فروخت کراسکتا ہے۔اس کی کوئی اقدار نہیں ہوتیں۔ یہ سب چلتا رہا اور ہم سب ہضم کرتے رہے۔ہاں درمیان میں کچھ کچھ اعتراض ضرور اٹھائے، جیسا بسکٹ کے اشتہار میں ڈانس کرنے پر یا خواتین کے ہاکی و کرکٹ کھیل کے مناظر پر۔مگر یہ کام جن کا تھا، انہوں نے نہیں کیا تو شیطان کے قدم آگے ہی بڑھتے رہے۔ پورا سوشل میڈیا بھی تو اسی پر ہی تو چل رہا ہے ناں۔ یو ٹیوب، فیس بک ، سب کسی نہ کسی شکل میں اشتہار کاری یا گاہگ و اس کے ڈیٹا کی مد سے ہی کما رہے ہیں۔ایسے منظر نامے میں جب بظاہر بات سامان کی فروخت کے سادہ سے لبادے میں دکھائی دے رہی ہو، وہاں معاشروں کے اندر موجود روایات کو تیزدھار آلے سے کاٹنے کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔ اس لیے کہ سارے تانے بانے شیطان سے ملتے ہیں، تو شیطان کبھی بھی اپنے بنیادی کام اور اس وعدے سے جو اللہ سے اس نے کیا تھا ، نہیں چوکتا یا بھولتا۔ یہ تو ہم انسان ہیں جو اپنے رب سے کیے تمام وعدے بھول جاتے ہیںاور اس کی توفیق ہو تو کچھ خاص ’جھٹکے ‘ملنے پر پلٹتےہیں۔میں سوشل میڈیا پر مستقل ایسے جھٹکوں کی آمد اور اثرات سے اپنے تئیں حجت اتمام کرتا ہوں، تاکہ میں جس کا مکلف ہوں ، اس کی جوابدہی کر سکوں۔
ایسا ہی ایک تازہ جھٹکا ، پاکستان کی معروف موبائل فون کمپنی نے دیا ہے ۔ان کا 2 منٹ اڑتیس سیکنڈ کا نیا وڈیو اشتہار ، سوشل میڈیا اور قومی میڈیا پر 19مئی کو نشر ہو چکا ہے ۔اس کا عنوان ہے ۔’آواز اٹھاؤ۔ فرق مٹاؤ‘۔ موبائل فون کمپنیاں پاکستان میں ایک جامع ایجنڈے کے ساتھ آئیں ، آپ جانتے ہوں گے کے ان کے تمام اشتہارات میں رات رات بھر گفتگو کے پیکیجز کو خاص مقام تھا، یہ رات رات بھر وہ بات کرنے کے لیے نوجوان نسل کو دین سے دور، بے راہ روی کی جانب لانے کے لیے اُبھارتے تھے ،صرف اس لیے کہ ان کے پیکجز فروخت ہو سکیں۔پہلے تو سم تھی پھر سم لگانے کے لیے فون، پھر پیکیج، پھر اسمارٹ فون، پھر انٹرنیٹ 3جی ، 4جی، بات آگے ہی گئی ۔ یہی نہیں ، ان کمپنیوں نے موبائل فون کو ایک ناگزیرضرورت بنا کر پاکستان کے معاشرتی بگاڑ میں پورا کردار ادا کیا۔ٹیکنالوجی کے دوش پر سوار چھ انچ کی اسکرین اور ایک وائی فائی پاس ورڈ میں چھپی لبرل اقدار نے اسلامی معاشروں کی روایات و اقدار کو اس حد تک مسخ کردیا کہ اب لڑکیاں گھر چھوڑ کر بھاگ جاتی ہیں۔ انہیں ان کے والدین دشمن لگنے لگتے ہیں، ایک آن لائن وڈیو گیم کھیلنے والا دور دراز کے شہر میں بیٹھاانجان لڑکا ان کو اپنی سچی محبت نظر آنے لگتا ہے ۔اچھا یہ صرف 2 کیسز نہیں ہیں ، یہ صرف وہ 2کیسز ہیں جو میڈیا پر آگئے، جو والدین ہمت و سکت نہیں رکھتے تھے یا (مبینہ طور پرجنہیں مختلف مکتب فکر کا مسئلہ نہیں تھا )وہ توحکمت کے ساتھ معاملے کو پی گئے یا دولہے میاںکوقبول کرلیا۔مگر اب یہ اور اس طرح کی دیگر کمپنیاں ایک اور بڑے استعماری ایجنڈے کے ساتھ اُتری ہیں۔
اچھا تازہ اشتہار پر تو کچھ بات ہوجائے ۔ دیکھنے میں تو شاید آپ کو اب زیادہ کوئی مسئلہ نہیں محسوس ہوگا۔ہوتا یہ ہے کہ ایک خواجہ سرا(حنا) ایک پینٹ کی بالٹی لیکر کسی دیوار پر یہ پینٹ کرتا ہے کہ ’آواز اٹھاؤ۔ فرق مٹاؤ‘اور اپنے موبائل سے فوٹو کھینچ کر سوشل میڈیا کی نظر کر دیتا ہے اسکے بعد ایک ایک کرکے لوگ آنا شروع ہوجاتے ہیں ، پھر اسی مقام پر دیوار کے پاس پینٹ لیکر پہنچتے ہیں اور اپنے حصہ کا پینٹ کرتے ہیں ۔ اس خواجہ سرا کو خوب سراہتے ہیں اور ایک ٹرالی پر چڑھا کر بلند مقام پرپہنچا دیتے ہیں۔اس میں منصوبہ بندی کے تحت مسلم، غیر مسلم، مرد خواتین، بچے ، بچیاں، بوڑھے ، جوان سب کو دکھایا جاتا ہے۔ پیچھے وائس اوور میں یہ الفاظ چلتے ہیں کہ ’’لوگ کہتے ہیں -کہ آواز صرف ایک ہو تو شور میں غائب ہو جاتی ہے۔ایک بندہ کچھ نہیں کر سکتا۔اکیلے کیا کر پاؤ گے۔ایک اسٹیٹس لگانے سے کیا ہوجائے گا۔لیکن ہم جس کو ایک ایک آواز سمجھتے ہیں وہ الگ الگ نہیں ۔بلکہ ایک ہی آواز ہے ۔اور جب اس آواز کی گونج اٹھتی ہے تودنیا صرف اس کو سنتی نہیں ۔۔اُس پر چلتی بھی ہے ۔۔فرق مٹاؤ۔۔تو کرو اپنی آواز کو سپر فار چینج ۔آخر میں نعرہ لگتا ہے آواز اٹھاؤ۔۔ تو سب جواب دیتے ہیں کہ فرق مٹاؤ۔۔سپر نہیں تو فور جی نہیں۔۔جیز سپر فور جی ۔۔‘ یہ اشتہار کی مکمل کاپی تھی ۔
کہنے کو تو کسی کی یہی سمجھ آئے گا کہ اس اشتہار سے خواجہ سرا کو پروموٹ کیا جا رہا ہے کہ ان کے ساتھ کوئی متعصبانہ یا فرق والا رویہ نہ رکھا جائے ۔میں نے کراچی میں خواجہ سراؤں کے رہنما ’بندیا رانا‘ سے بات کی ۔ اس اشتہار کی تیاری میں ان کی ہی مدد لی گئی تھی۔میں نے ان سے پوچھاکہ آپ کے کیامسائل ہیں؟انہوں نے بتایا کہ خواجہ سرا ؤں کے لیے بے روزگاری، کام کا نہ ملنا، تعلیم کا نہ ہونا،صحت کی سہولیات نہ ہونا، اسکل سینٹر نہیں،پولیس میں ، دیگر اداروں میں کوٹہ نہیں۔ معاشرتی مسائل کہ گھر والے نظریں پھیر لیتے ہیں۔ڈاکٹر وں کے پاس جائیں تو وہ مذاق اڑاتے ہیں،گویا تعلیم ، صحت ، روزگار و عزت انکے بنیادی مسائل تھے۔ ویسے سندھ کے بلدیاتی نظام میں امسال ٹاؤن و شہر کی سطح پر خواجہ سراؤں کی نمائندگی شامل کر دی گئی ہے جس سے امید ہے کہ وہ کچھ مسائل کو ریاستی وسائل کی بنیاد پر حل کرا سکیں۔میں نے ذرا مسائل پر غور کیا تو دیکھا کہ یہ مسائل تو پاکستان میں سب کے ہی ساتھ ہیں۔ تعلیم، صحت، روزگار۔یہ ٹھیک ہے کہ خواجہ سرا افراد کے ساتھ ان مسائل کی شکل قدرے الگ ہے۔
مگر بات اتنی سادہ نہیں، پیدائشی طور پر جنسی معذوری کا شکار افراد کے ساتھ ان کے والدین و معاشرہ بلاشبہ دین سے دوری کی وجہ سے غلط رویہ اختیار کرتا ہے ۔مگر یہ معاملہ تو دنیا بھر میں ہے، مغرب نے اس مسئلہ کا حل انسانی حقوق کی آڑ میں LGBTکی گھناؤنی تحریک کی صورت نکالا ہے کہ اُن کی اقدار تو پہلے ہی لبرل ہو چکی ہیں۔ اب ان میں جنسی فرق کوئی معنی نہیں رکھتا ، لیکن مسلم معاشروں میں یہ بہت حساس معاملہ ہے ۔ شیطان کی جانب سے سورۃ النسا 119میں صاف کہا تھا کہ ،’ میں انہیں حکم دوں گا اور وہ میرے حکم سے خدائی ساخت میں ردوبدل کریں گے۔‘یہ معاملہ اب یہاں تک جا پہنچا ہے ۔ اس لیے جب دین کو چھوڑ کر انسانی حقوق کے تناظر میں آپ لوگوں کو حقوق دینا شروع کریں گے تو پہلے تعلیم، پھر صحت، پھر روزگار کے حقوق کے بعد ان کے جنسی حقوق دینے میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں رہے گی۔ یہ پہلی سیڑھی ہے ، میڈیا کے ذریعہ پہلے ذہن سازی کی جائے گی ، عامتہ الناس کو پہلے سمجھاناجائے گا کہ ان کے حقوق ہیں جو ملنے چاہیے جب سب اس پر کھڑے ہوجائیں گے تو ان کو حقوق دینا شروع کیاجائے گا۔ اس حقوق کی چھتری تلے پھر ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ ملے گا، پھر اُس وقت سارے اعتراض بے کار ہوجائیں گے کیونکہ پہلی سیڑھی پر سب خاموش رہے، دوسری پر تیسری پر تو اب تو معاملہ چھت تک جا پہنچے گا۔اسی طرح سے لبرل اقدار اپنی جگہ بناتی ہیں۔پڑوسی ملک بھارت میںبعینہ اسی طرح ہوا، بھارت میں ہندو معاشرہ ، مذہبی بنیادوں پر ہم جنس پرستی کی اجازت نہیں دیتا ، وہاں بھی سیکولرائزیشن بالکل اسی انداز میں اسی اشتہار کاری و میڈیا کی مدد سے کی گئی اور قانون پاس ہو گیا۔بالکل یہی ماڈل مغرب میں اپنایا گیا ، باوجود اس کے کہ وہ لبرل معاشرہ بن چکا تھا مگر وہاں بھی ذہن سازی کے لیے یہی ترتیب رہی۔ اب یہی کامیاب تجربات مسلم ممالک میں کیے جا رہے ہیں۔
اس میں سارا کھیل ’انسانی حقوق ‘کی آڑمیں ، ’انسانیت ‘ کے مذہب کا لیبل لگا کر کیا جا رہا ہے۔ اس میں دین کو کہیں سے بھی نہیں گھسنے دیا جاتا کیوںکہ ’انسانیت‘ کو ہی سب سے بڑا متفقہ دین بناکر پیش کیا جاتا ہے ۔ اب آخری سب سے اہم بات ذہن نشین کرلیں:دین ، مذہب جو بھی ہو،وہ خالص احکامات کا نام ہے، احکامات پر عمل کرنے کا، وہ بھی بلا چوں چرا، دین کسی کو جنس کی بنیاد پر کوئی حقوق نہیں دیتا ، احکامات ہیں ،صرف احکامات وہ بھی رشتوں کے مابین ،جن کو پورا کرنا ہے ۔پوری اسلامی شریعت رشتوں کو ہی فوکس کرتی ہے کسی جنس کو نہیں۔دین نے ہر مسلمان کو دوسرے مسلمان سے کسی نہ کسی رشتے میں جوڑدیا ہے ۔ رشتوں کے لیے احکامات ہیں، حقوق نہیں ،احکامات کی پابندی صرف ’خوف خدا ‘کی بنیاد پر ہے ، کسی قانون کے ڈنڈے کی بنیاد پر نہیں۔جب دین کو زندگی سے نکال کر حقوق کو جگہ دی جائےگی تو اس جال سے نکلنا ممکن نہیں ہوگا۔