کسی کے دو بیٹے تھے۔ اُس نے بڑے بیٹے سے پوچھا ’’گریجویشن کے بعد کیا کرنے کا ارادہ ہے؟‘‘
بیٹے نے جواب دیا ’’سرکاری نوکری تلاش کروں گا کیوں کہ یہ خاصی پُرسکون ہوتی ہے۔ زیادہ کام بھی نہیں کرنا پڑتا اور کوئی بہت بڑا چیلنج بھی درپیش نہیں ہوتا۔ نہ کام پر جانے کی جلدی نہ آنے کی۔‘‘
چھوٹے بیٹے نے جواب دیا ’’میں لگی بندھی زندگی بسر نہیں کرنا چاہتا۔ مجھے مشکلات کا سامنا کرنا پسند ہے۔ میں خود کو آزمانے کو ترجیح دوں گا۔ میری خواہش ہے کہ زندگی اِس طور گزرے کہ قدم قدم پر کچھ نیا کرنے کو ملے اور دنیا کو اندازہ ہو کہ میں کیا کرسکتا ہوں۔ میں اپنے لیے روڈ میپ خود بنانا چاہتا ہوں۔ لکھتے وقت ہم کاما، ڈیش اور فُل اسٹاپ استعمال کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ سرکاری نوکری کو فُل اسٹاپ سمجھتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ زندگی کسی بھی معاملے میں فُل اسٹاپ لگانے کی قائل نہیں۔ محنت کی بھی کوئی حد نہیں اور ترقی کی بھی کوئی حد نہیں۔ براہِ کرم مجھے کسی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش نہ کیجیے گا۔ میں اپنا سانچا خود طے کروں گا۔‘‘
چھوٹے بیٹے کا جواب سُن کر اُس شخص کا دل باغ باغ ہوگیا۔ بیشتر نوجوان خود کچھ سوچنے اور کرنے کے بجائے والد کے کاروبار کو سنبھالنے یا اُنہی کے شعبے میں اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے پر اکتفا کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بس یہی زندگی ہے۔ چیلنجز کا سامنا کرنے کی سوچ اور اس حوالے سے کی جانے والی تیاری ہی جوانی اور نوجوانوں کا اصلی شناختی کارڈ ہے! جو نوجوان اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اُنہی جیسا بننے کی کوشش کرے اُسے بہادر کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟
ایک صاحب ٹرین میں سفر کر رہے تھے۔ اُن کے برابر میں ایک نوجوان بیٹھا تھا۔ اُن صاحب نے نوجوان سے سلام دعا کی اور نام پوچھا۔ جب نوجوان نے نام بتایا تو اُنہیں یاد آیا کہ اِس نوجوان کے والد تو سیاست دان ہیں۔ اُنہوں نے نوجوان سے کہا ’’تمہیں تو کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی کیوں کہ تم سیڑھیوں کے ذریعے چڑھنے کو کیوں ترجیح دوگے جب کہ والد تمہارے لیے خودکار زینے کا اہتمام کرسکتے ہیں یعنی تم جو کچھ بھی بننا چاہوگے وہ بنا ہی دیں گے۔‘‘
نوجوان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ’’آپ کی سوچ فطری طور پر درست ہے مگر بالکل غلط ہے۔ میں ایک خاص گھر میں پیدا ضرور ہوا ہوں مگر اپنے طور پر کچھ بننا چاہتا ہوں۔ اس کے لیے میں نے ذہنی تیاری بھی کی ہے۔ میری کوشش ہوگی کہ جو کچھ بھی کروں اپنے بل پر کروں۔ ہر نوجوان میں غیر معمولی صلاحیت و سکت پائی جاتی ہے۔ اگر وہ اپنے وجود کو بروئے کار لانا چاہے تو بہت کچھ کرسکتا ہے۔ سوال صرف چاہنے کا ہے، لگن کا ہے۔
کامیابی کی طرف بڑھنے کے کئی راستے ہیں۔ کوئی کچھ بھی کہے اور کہتا ہی ہے، آپ کو پروا نہیں کرنی۔ آپ نے جو راہ چُنی ہے اُس پر بڑھتے جانا ہے۔ جو چلتا رہتا ہے وہ منزل تک پہنچ ہی جاتا ہے۔
طاقت ہی زندگی ہے۔ طاقت کا نہ ہونا موت ہے۔ طاقت زندگی کا تواتر ہے اور طاقت کا نہ ہونا سراسر بوجھ ہے۔ وہ لوگ زیادہ کامیاب رہتے ہیں جو خاصی چھوٹی عمر سے مثبت اور توانا خیالات کو اپنے ذہن میں ابھرنے دیتے ہیں اور پھر متوجہ ہوکر پروان چڑھاتے ہیں۔
ہم میں سے کوئی بھی یہ دعوٰی نہیں کرسکتا کہ مایوسی خدا کو پسند ہوگی۔ سیدھی سی بات ہے، جو شخص یہ مانتا ہو کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے اور وہی اِس کائنات کا رب یعنی پالنے والا بھی ہے وہ کبھی مایوس ہونے کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ مایوسی اس بات کا مظہر ہے کہ خدا پر یقین پختہ نہیں۔
کوئی ایک جذبہ لیجیے۔ اُسے پورے من سے اپنائیے۔ اُسی کے خواب دیکھیے اور بیداری کی حالت میں بھی اُسی کے بارے میں سوچیے۔ آپ دیکھیں گے کہ بہت تیزی سے آپ میں بہت کچھ تبدیل ہونے لگے گا۔ جب ہم کسی چیز کو اپنے ہدف میں تبدیل کرتے ہیں تب ہماری صلاحیت و سکت سمٹ کر اُس ہدف کی طرف رواں ہوتی ہے۔ اپنے پورے وجود کو اُس جذبے اور لگن سے بھردیجیے۔ وہ جذبہ محض ذہن تک محدود نہ رہے بلکہ گوشت کے ریشوں اور ہڈیوں کے گودے میں بھی اُتر جانا چاہیے۔ دوسرے تمام معاملات ایک طرف ہٹادیجیے۔
غیر منظم اور بے قابو ذہن ہمیں ہمیشہ نیچے گھسیٹ کر خاک چٹانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ ایسا ذہن ہمیں محض نیچا ہی نہیں دکھاتا بلکہ ہمیں ختم کرنے کے بھی درپے رہتا ہے۔ منظم ذہن ہمارا بھلا کرتا ہے، ہماری ترقی کی راہ ہموار کرتا ہے، ہماری زندگی کو زیادہ خوش حال بناتا ہے۔
بنیادی سوال سوچ کا ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ جو کچھ آج تک نہیں ہوا وہ بھلا اب کیسے ہوگا وہ ہے بوڑھا۔ جوان وہ ہے جس کے ذہن میں یہ خیال پروان چڑھتا رہتا ہو کہ جو کچھ اب تک ہوتا آیا ہے وہ تو ہوگا ہی مگر اُس سے زیادہ بھی بہت کچھ ہوسکتا ہے اور اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ حقیقی جوان وہ ہے جس میں کچھ کر گزرنے اور دنیا کو کسی حد تک بدلنے کی لگن پائی جاتی ہو۔ یہ لگن ہی اُسے صلاحیت و سکت کو پروان چڑھانے کی تحریک دیتی ہے۔ بوڑھا وہ نہیں جس کی ہڈیاں کمزور ہیں، جلد بے جان ہوچلی ہے، ٹانگیں وجود کا بوجھ نہیں اٹھا پارہیں بلکہ بوڑھا تو وہ ہے جو یہ طے کرلے کہ اب کچھ نہیں ہوسکتا اور وہ تو خیر کچھ کرے گا ہی نہیں۔ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کا انتقال 92 سال کی عمر میں ہوا تھا۔ جس دن وہ دنیا سے رخصت ہوئے اُس دن کی انہوں نے جامعہ کراچی کے (غالباً) حسین ابراہیم جمال انسٹی ٹیوٹ میں ڈیوٹی دی تھی۔ ایسی مثالیں ہمارے ہاں کم ہیں کہ کسی نے بڑھاپے کو ذرا سی بھی اپنی اہمیت دیئے بغیر اپنے حصے کا کام جاری رکھا ہو۔ ڈاکٹر جمیل جالبی بھی مصروفیت و مشغولیت کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوئے۔
کوئی بھی انسان اپنے آپ کو عمومی سطح سے کس طور بلند کرسکتا ہے یہ سکھانے کے لیے بازار میں درجنوں نہیں سیکڑوں کتابیں دستیاب ہیں۔ ان کتابوں کے مطالعے سے انسان اندازہ لگا سکتا ہے کہ ہم جو زندگی بسر کر رہے ہیں وہ بالکل سطحی ہے عام آدمی کی زندگی میں ایسا کچھ بھی نہیں جس کی بنیاد پر اُسی کی زندگی کو زندگی سمجھا جائے، قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ محض حیوانی سطح پر زندہ رہنے سے انسان کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جس میں لوگ اپنے آپ کو کچھ ثابت کرنے کے لیے بے صبرے ہوئے جارہے ہیں۔ درجنوں معاشروں نے اپنے آپ کو بہت حد تک بدلا ہے اور بعض معاشروں نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنی کایا ایسی پلٹی ہے کہ دنیا حیران ہے۔ چینی معاشرے ہی کو لیجیے۔ محض چار عشروں میں چین تقریباً سپر پاور بن کر ابھرا ہے۔ 1970 کے عشرے تک چین اگرچہ مضبوط تھا مگر عالمی سیاست و معیشت میں اُس کی پوزیشن بہت کمزور تھی۔ ان چار پانچ عشروں میں چین نے اپنے آپ کو ہر شعبے میں منوایا ہے، ہر محاذ پر کچھ نہ کچھ کرکے دکھایا ہے۔
ہم میں سے کون ہے جو کچھ نہ کچھ بننے کا خواہش مند نہیں؟ مگر محض خواہش کرلینے سے کیا ہوتا ہے؟ سوال یہ ہے کہ کچھ بننے کے لیے جو کچھ درکار ہے اُس کا اہتمام بھی کیا ہے یا نہیں۔ سطحی قسم کی حرکتوں سے کوئی بھی کچھ نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ چند ایک عجیب و غریب حرکتیں کرنے سے لوگ متوجہ ہوں گے اور باصلاحیت تسلیم کریں گے تو یہ محض خام خیالی ہے۔ لوگوں کو چھاؤں کے لیے برگد کا درخت درکار ہوتا ہے، ببول کا پیڑ نہیں۔
مقصد نہ ہو تو زندگی کا درجہ بلند کرنے کی لگن پیدا نہیں ہوسکتی۔ ہمیں کی نہ کسی مقصد کے لیے جینا چاہیے۔ اور اچھا ہے کہ ہم اپنی ذات کے دائرے سے نکل کر پورے معاشرے کے لیے، اپنے لوگوں کے لیے، اپنی سرزمین کے لیے جئیں۔ جو کچھ ہم کر رہے ہیں اگر اُسے ذاتی فائدے کے ساتھ ساتھ قومی مفاد سے بھی جوڑیں تو کارکردگی کو چار چاند لگتے دیر نہ لگے۔ جب ہم چند ایک اہداف متعین کرکے جینا شروع کرتے ہیں تب زندگی میں کچھ معنویت اور چمک دمک پیدا ہوتی ہے۔ علم حاصل کیجیے تو ملک کے لیے۔ کوئی ہنر سیکھیے تو معاشرے کو کچھ دینے کے لیے۔ اگر بیرون ملک جاکر کچھ کرنے کا ارادہ ہے تو یہ سوچ کر جائیے کہ ایسا کرنے سے آپ کی قوم کا بھلا ہوگا، ملک ترقی کرے گا۔ بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر قومی خزانے کو مضبوط بنانے کا اہم ذریعہ ہیں۔ باہر جائیے تو یہ سوچ کر جائیے کہ آپ کی کارکردگی سے آپ کے ملک کو پہچانا جائے گا۔
عہدِ شباب بات بات پر مشتعل ہوکر کچھ بھی کر گزرنے کے لیے نہیں ہوتا۔ یہ عہد تو صرف اس لیے ملتا ہے کہ کچھ کر دکھایا جائے، کچھ بن کر دکھایا جائے، معاشرے کے لیے کچھ کیا جائے۔ بھرپور لگن اور سکت کے ساتھ صلاحیتوں کو بروئے لاکر ہی انسان اپنے عہدِ شباب کا حق ادا کرسکتا ہے۔ آج ہماری نئی نسل اپنی صلاحیت و سکت کو انتہائی بھونڈے طریقوں سے ضائع کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔
نئی نسل کو بہت کچھ سیکھنا ہے۔ اسکول، کالج اور جامعات کی سطح پر بھی اُنہیں علم و ہنر سے آراستہ کیا جاتا ہے تاہم اس سے ہٹ کر بھی اُنہیں بہت کچھ سیکھنا ہوتا ہے۔ بزرگوں اور کامیاب انسانوں کے حالاتِ زندگی سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ انسان مطالعے کی عادت ڈالے۔ فی زمانہ مطالعہ بہت آسان ہوگیا ہے کیونکہ اسمارٹ فون کے ذریعے کسی بھی پسندیدہ کتاب کا آسانی سے مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ کوئی ایسا کرنا چاہتا بھی ہے یا نہیں۔ بڑوں کی زندگی سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ کامیابی یقینی بنانے کے لیے جن الجھنوں سے نمٹنا ہوتا ہے اُن الجھنوں کا ذکر کامیاب انسانوں کی سوانح میں خاصے پُرکشش انداز سے ملتا ہے۔ یہ تذکرہ ہمیں ہر بڑے چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہونے میں مدد دیتا ہے۔
ہم جو کچھ بھی ہیں اُس میں ملک اور معاشرے کا اہم کردار ہے۔ کوئی بھی انسان تنِ تنہا کچھ نہیں کرسکتا۔ ٹیم ورک کی صورت ہی میں بھرپور کامیابی ممکن ہو پاتی۔ مل کر کام کرنے کی ذہنیت پروان چڑھانے سے انسان بہت کچھ کرنے کے قابل ہو پاتا ہے۔ معاشرے نے ہمیں جو کچھ دیا ہے وہ اُسے لَوٹانے کے لیے ہمیں تیار رہنا چاہیے۔ اگر یہ تیاری نمایاں ہو تو سمجھیے آپ نے معاشرے کے احسانات کا ایک حد تک بدلہ چُکادیا۔ یہ عمل جاری رہنا چاہیے۔ جو کچھ آپ دیں گے وہی پلٹ کر آپ کی طرف جائے گا۔ آپ کی اپنی محنت ایک دن آپ ہی کا بھلا کرے گی۔ منظم اور مہذب معاشرے اِسی طور پروان چڑھتے ہیں۔
آئیے، جو کچھ ہمیں معیاری زندگی بسر کرنے کے لیے کرنا ہے اور اپنے ’’اصلی شناختی کارڈ‘‘ کو پہچاننا ہے اُس پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں۔
٭ بھرپور قوتِ ارادی، تخیل اور اپنے کردار کی تشکیل کے ساتھ ساتھ تہذیب و تطہیر کی بھی تیاری۔
٭ بزرگوں سے گفتگو اور مختلف امور میں مشاورت بھی کی جانی چاہیے مگر آپ کو کیا کرنا ہے اِس کا فیصلہ تو آپ کو کرنا ہے اور بہت سوچ سمجھ کر۔
٭ لگی بندھی زندگی بسر کرنے کے بجائے مختلف النوع تجربات کے ذریعے اپنی زندگی کو زیادہ سے زیادہ شاندار اور یادگار بنائیے۔ زندگی صرف ایک بار ملتی ہے۔ اِسے ساکت و جامد معمولات کی نذر نہیں کیا جاسکتا۔
٭ زندگی بے لگام ہو تو زندگی نہیں۔ نظم و ضبط اپنائیے۔ وقت کا بہترین طریق سے بروئے کار لانے کا ہنر سیکھیے۔ کوشش کیجیے کہ آپ کا وقت بھی ضائع نہ ہو اور صلاحیتیں بھی۔ اللہ نے کام کرنے جو لگن آپ کو عطا کی ہے وہ امانت ہے۔ اس امانت کا حق اُسی وقت ادا کیا جاسکتا ہے جب اِسے دوسروں کے فائدے کے لیے بروئے کار لانے پر توجہ دی جائے۔ کردار کو زیادہ سے زیادہ مضبوط اور بے داغ بنانے پر توجہ دیجیے۔ جو کچھ آپ کرتے ہیں اُس میں آپ کا کردار بھی اہم کردار ادا کرتا ہے اور پھر آپ کا کردار بھی کارکردگی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔
٭ زندگی بہت سے معاملات میں ہمارے سامنے کوئی نہ کوئی چیلنج لاتی ہے۔ راہِ فرار اختیار کرنے والے ناکام رہتے ہیں۔ ہر چیلنج کے سامنے ڈٹ جائیے، کچھ کیجیے، کچھ کر دکھائیے۔ دنیا آپ کو اُسی وقت پہچانے گی جب آپ کسی تلخ حقیقت سے جان چُھڑانے کے بجائے اس کا سامنا کرنے کو ترجیح دیں گے۔
٭ آپ کی زندگی کا مقصد صرف دولت کمانا اور شہرت بٹورنا نہیں۔ آپ کو ملک و قوم کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔ آپ جس معاشرے کا حصہ ہے اُس کا بھی تو آپ کر کچھ نہ کچھ حق ہے۔ یہ حق ادا کرنا ہی پڑتا ہے۔ جو ایسا نہیں کرتے وہ ادھورے رہ جاتے ہیں۔
٭ اعلٰی تعلیم و تربیت لازم ہے مگر اِس کے ساتھ ساتھ اعلٰی اخلاق بھی لازم ہیں۔ تعلیمی ادارے آپ کو کسی خاص شعبے میں بہتر کارکردگی کے لیے تیار کرتے ہیں یعنی ’’پروفیشنل‘‘ بناتے ہیں۔ پروفیشنل اِزم بالعموم اس بات کو سمجھا جاتا ہے کہ انسان معاشی معاملات میں کسی کو کچھ رعایت نہ دے اور جتنا وصول کرنا ہے وصول کرکے دم لے۔ اعلٰی اخلاق آپ کو سکھائیں گے کہ کسی کو کب کب اور کہاں کہاں رعایت دی جانی چاہیے اور کس طور کبھی کبھی اپنے حصے سے دست بردار ہونے میں بھی کوئی قباحت محسوس نہیں ہونی چاہیے۔ \