قیصرو کسریٰ قسط(51)

281

فسطینہ کی آنکھوں میں اچانک آنسو امڈ آئے اور اُس نے گھٹی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’نہیں‘ نہیں، ایسا نہ کہیے مجھے یقین ہے کہ آپ بہت جلد واپس آئیں گے۔ میں آپ کی راہ دیکھا کروں گی‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’فسطینہ! تم سین کی بیٹی ہو اور چند سال بعد تمہیں میرے متعلق سوچتے ہوئے بھی ندامت محسوس ہوگی۔ مجھے اس وقت بھی تمہارا یہاں آنا ناقابل یقین محسوس ہوتا ہے‘‘۔
فسطینہ نے کہا۔ ’’آپ وعدہ کیجیے کہ جنگ کے میدان میں بلاوجہ کوئی خطرہ مول نہیں لیں گے‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’فسطنیہ! تمہیں میرے متعلق پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ اس دنیا میں میری زندگی کی کوئی قیمت نہیں۔ اگر تم مجھے اپنے ابا جان کی فتوحات میں شریک دیکھنا چاہتی ہو تو مجھے اُن تمام خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا جو ایک سپاہی کے حصے میں آتے ہیں۔ جنگ کے میدانوں میں میرا خون دوسروں سے زیادہ قیمتی نہیں سمجھا جائے گا‘‘۔
ہیلانہ اچانک دروازے کے سامنے نمودار ہوئی اور اُس نے خوفزدہ لہجے میں کہا۔ ’’فسطینہ تمہارے ابا جان تمہیں بلاتے ہیں‘‘۔
فسطینہ جلدی سے باہر نکلی تو اُسے مکان کے وسطی دروازے کے سامنے اپنے والدین دکھائی دیے وہ اُن کے قریب پہنچی تو سین نے بگڑ کر کہا۔ ’’فسطینہ! ہمارے گھر کے حالات دمشق کے راستے کی منزلوں سے مختلف ہیں۔ ایرج کیا خیال کرے گا؟ مجھے عاصم کے ساتھ تمہاری بے تکلفی پسند نہیں۔ تم اندر جائو!‘‘۔
فسطینہ کچھ کہے بغیر اندر چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد سین کمرے میں داخل ہوا تو وہ دونوں ہاتھوں سے منہ چھپائے سسکیاں لے رہی تھی۔
سین نے آگے بڑھ کر پیار سے اُس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’فسطینہ اب تم بچی نہیں ہو۔ مجھے ڈر تھا کہ عاصم ہمارے متعلق کیا خیال کرے گا‘‘۔
فسطینہ نے اپنی سسکیاں ضبط کرتے ہوئے سین کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’ابا جان مجھے معلوم نہ تھا کہ آپ بُرا مانیں گے ورنہ میں وہاں نہ جاتی۔ اب آپ وعدہ کیجیے کہ اُسے میری غلطی کی سزا نہیں دیں گے‘‘۔
’’پگلی کہیں کی‘‘۔ سین نے یہ کہہ کر اُسے اپنے سینے سے چمٹا لیا اور پھر اچانک باہر نکل گیا۔
تھوری دیر بعد فسطینہ گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سن کر کمرے سے باہر نکلی تو وہ بیرونی دروازے کے قریب پہنچ چکے تھے۔ اُس نے یوسیبیا کی طرف دیکھا اور ڈوبتی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’امی جان! میرے لیے یہ بات ناقابل برداشت تھی کہ وہ اس بے بسی کے عالم میں ہمارے در پر پڑا رہے۔ لیکن اگر وہ واپس نہ آیا تو میں بھی زندہ نہ رہوں گی آپ اُس کے لیے دعا کریں‘‘۔
ماں نے بے اختیار اُسے سینے سے لگالیا اور کہا۔ ’’بیٹی! تم جانتی ہو کہ وہ مجھے ایک بیٹے کی طرح عزیز ہے‘‘۔
O
لبنان کی گل پوش وادیوں میں خون کی ندیاں بہانے کے بعد ایرانی لشکر نے فلسطین کا رُخ کیا اور اردن اور گلیلی کے علاقوں میں تباہی مچادی۔
اب ایران اور روم کی جنگ آگ اور صلیب کے ایک فیصلہ کن معرکے میں تبدیل ہوچکی تھی۔ مقامی عیسائی اس یقین کے ساتھ اپنے رومی آقائوں کے دوش بدوش لڑ رہے تھے کہ قدرت نوشیرواں کی طرح اُس کے پوتے کو بھی بیت المقدس سے دور رکھنے میں اُن کی مدد کرے گی۔ جو لوگ ایرانیوں کی پیش قدمی سے دہشت زدہ ہو کر اسکندریہ کی طرف ہجرت کررہے تھے اُن کی جگہ شام اور لبنان س بھاگنے والے وہ پادری اور راہب لے رہے تھے جن کے گرجوں اور خانقاہوں کو ایرانیوں نے آتش کدوں میں تبدیل کردیا تھا۔ یہ لوگ عوام کو مفتوحہ شہروں اور بستیوں کے لوگوں کی مظلومیت کی داستانیں سناتے تھے۔ اور اُن کے مردہ حوصلوں میں جان ڈالنے کے لیے دین مسیح کی فتح و نصرت اور آتش پرست ایرانیوں کی تباہی اور بربادی کی بشارتیں دیتے تھے۔ چناں چہ ایرانی اپنی عسکری برتری کے باوجود قدم قدم پر شدید مزاحمت سے دوچار ہورہے تھے۔ گرجوں اور خانقاہوں میں اب روحانی برکات کی بجائے تلواریں تقسیم ہوتی تھیں اور ہزاروں راہب زندگی اور موت سے بے پروا ہو کر میدان میں آچکے تھے‘‘۔
لیکن ان تمام باتوں کے باوجود ایران کی لاتعداد فوج ارض مقدس کے شہروں اور بستیوں کو تباہ و ویران کرتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی۔ اس جنگ میں فلسطین کے یہودی جو عیسائیوں کے ازلی دشمن تھے۔ من حیث القوم ایرانیوں کے حلیف بن چکے تھے۔ پرویز اُن کے نزدیک کوئی بیرونی حملہ آور نہ تھا بلکہ ایک ایسا مربی اور سرپرست تھا جسے قدرت نے انہیں نصرانیوں کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے بھیجا تھا۔ جب فاتح لشکر کسی قصبے یا شہر میں داخل ہوتا تھا تو جنگی قیدیوں اور نہتے عوام کو ٹھکانے لگانے کا کام اِس کینہ پرور قوم کے رضا کاروں کو سونپ دیا جاتا تھا جو برسوں سے اپنے جذبہ انتقام کی تسکین کے لیے کسی موقع کا انتظار کررہی تھی۔ ایرانی لشکر میں خونخوار یہودیوں کی تعداد ساٹھ ہزار تک پہنچ چکی تھی۔
اردن اور گلیلی کے علاقے فتح کرنے کے بعد پرویز کی فوجیں یروشلم کے گرد گھیرا ڈال رہی تھیں۔ مفتوحہ علاقوں سے جانیں بچا کر بھاگنے والے انسانوں کے بعض قافلے غزہ اور اسکندریہ کا رُخ کررہے تھے اور بعض یروشلم میں پناہ لے رہے تھے۔
ایرانیوں، یہودیوں اور عراقِ عرب کے جنگجو قبائل کی متحدہ قوت کے سامنے پے در پے شکستیں کھانے کے باوجود یروشلم کے ناقابل تسخیر ہونے کے متعلق عیسائیوں کا یقین متزلزل نہ ہوا تھا۔ چاروں طرف سے دشمن کی پیش قدمی کے باعث ان کی رسد اور کمک کے راستے مسدود ہوچکے تھے لیکن وہ مایوس نہ تھے۔ اُن کے بشپ اور راہب انہیں اس قسم کی تسلیاں دے رہے تھے کہ دشمن کا ہر قدم تباہی کی طرف اُٹھ رہا ہے۔ جب وہ یروشلم پر حملہ کرے گا تو قدرت کی ان جانی اور ان دیکھی قوتیں حرکت میں آجائیں گی۔ فلاں راہب نے دین مسیح کی نصرت کے متعلق جو خواب دیکھے ہیں وہ غلط نہیں ہوسکتے۔ فلاں بزرگ نے جو پیش گوئی کی ہے وہ درست ثابت ہوگی۔ یروشلم کے بیشتر یہودی پہلے ہی اپنے گھر بار چھوڑ کر ایران کے مفتوحہ علاقوں میں پناہ لے چکے تھے لیکن کچھ ایسے بھی تھے جنہیں فرار ہونے کا موقع نہیں ملا تھا اور وہ عیسائیوں کے ہاتھوں اپنی قوم کی بداعمالیوں کی سزا بھگت رہے تھے۔ جو عیسائی دوسرے شہروں سے فرار ہو کر یہاں پہنچے تھے وہ اپنے ساتھ یہودیوں کے بے پناہ مظالم کی ان گنت داستانیں لائے تھے اور اور اب یروشلم میں یہودیوں کے ساتھ وہی سلوک ہورہا تھا جو انہوں نے اپنے عیسائی ہمسایوں کے ساتھ روا رکھا تھا۔
گلیلی اور اردن کے چند یہودی جنہیں ایرانیوں نے جاسوسی کے لیے منتخب کیا تھا عیسائیوں کے بھیس میں یروشلم کے اندر داخل ہوچکے تھے اور مقامی لوگوں کو دہشت زدہ کرنے کے لیے طرح طرح کی افواہیں پھیلارہے تھے۔ ایک دن گلیلی کے کسی عیسائی پناہ گزین نے ایک یہودی جاسوس کو، جو نصرانی راہب کا لباس پہنے تھا، پہچان لیا۔ جاسوس نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن عیسائی کی چیخیں سن کر چند آدمیوں نے اُس کا پیچھا کیا اور اُسے پکڑ کر مشتعل ہجوم کے حوالے کردیا۔ تھوڑی دیر میں جاسوس اپنے جرم کی سزا بھگت چکا تھا اور لوگ اُس کی لاش مسخ کررہے تھے۔ اس کے بعد شام سے پہلے پہلے کئی لوگ جن میں سے اکثر بے گناہ تھے گرفتار کیے جاچکے تھے۔ عوام کو ایک اجنبی کے خلاف مشتعل اور پولیس کو پکڑ دھکڑ پر آمادہ کرنے کے لیے کسی انتہائی غیر ذمہ دار آدمی کا یہ نعرہ کافی سمجھ لیا جاتا تھا کہ فلاں شخص یہودی ہے اور پولیس اذیت رسانی کے ایسے طریقوں سے واقف تھی جو انتہائی معصوم آدمیوں کو بھی اقبالِ جرم پر مجبور کردیتے تھے۔ جب ایک بے گناہ ناقابل برداشت جسمانی اذیتوں کے باعث جرم کا اقبال کرتا تو اُسے اپنے ساتھیوں کا نام بتانے کے لیے مزید اذیتیں دی جاتیں۔ پھر اُس کی نشان دہی پر کئی اور بے گناہ آہنی شکنجوں میں جکڑ دیے جاتے۔ ایرانیوں کی فتوحات کا سیل رواں ہر آن قریب آرہا تھا اور یروشلم کے محافظوں کی یہ حالت تھی کہ کسی کو کسی پر اعتماد نہ تھا۔
یہودیوں کی طرح عیسائیوں کے اپنے دو فرقے: فسطوری اور یعقوبی جنہیں کلیسا کا باغی خیال کیا جاتا تھا، مدتوں سے ایک انتہائی متعصب اور بے رحم اکثریت کے جبروتشدد کی چکی میں پس رہے تھے۔ دائمی مصائب نے ان لوگوں کو بھی یہودیوں کی طرح کلیسا کا بدترین دشمن بنادیا تھا۔ جب تک رومی حکومت اور کلیسا کا دبدبہ قائم رہا یہ اقلیتی فرقے طوعاً و کرہاً ان کی وفاداری کا دم بھرتے رہے لیکن جب ایرانیوں کی فتح یقینی نظر آنے لگی تو یہودیوں کی طرح ان لوگوں نے بھی اپنے مستقبل کی ساری امیدیں کسریٰ سے وابستہ کردیں۔
عاصم سین کی رفاقت میں فلسطین کے کئی معرکوں میں حصہ لے چکا تھا۔ جنگ جس کے اچھے اور بُرے پہلوئوں پر گور کرتے ہوئے وہ اپنے ذہن میں ایک خلجان محسوس کیا کرتا تھا اب اُسے ایک کھیل محسوس ہوتی تھی۔ ایک ایسا کھیل جس سے اُس کی ابتدائی دلچسپی، محبت یا نفرت اور دوستی یا دشمنی کے جذبات سے خالی تھی۔ کسریٰ کی فتح یا قیصر کی شکست کے بجائے اُس کے لیے یہ مسئلہ زیادہ اہم تھا کہ سین اِس جنگ میں حصہ لے رہا ہے اور وہ اس کا دوست اور ساتھی ہے۔ لیکن رفتہ رفت وہ عصبتیں جنہیں وہ یثرب کی خاک میں دفن کر آیا تھا دوبارہ زندہ ہورہی تھیں اور سین کے دوست اُسے اپنے دوست اور سین کے دشمن اُسے اپنے دشمن محسوس ہوتے تھے۔ سین ایران کی فتح کے لیے لڑرہا تھا اور ضمیر کی دبی دبی سسکیوں کے باوجود یہ فتح عاصم کے لیے بھی ایک مقصدِ حیات بنتی جارہی تھی۔
سین فرصت کے اوقات میں اُسے منظم لڑائی کے طور طریقے سکھایا کرتا تھا۔ اور عاصم اپنی خداداد ذہانت کے باعث اُس کی بلند ترین توقعات پوری کررہا تھا۔ سین کو اگر عاصم کے متعلق کوئی بے اطمینان تھی تو یہ کہ لڑائی کے میدان میں اپنی انفرادیت قائم رکھنے کے لیے اُس کا شوق بسا اوقات ضبط و نظم کے تقاضوں پر غالب آجاتا تھا اپنے وطن میں عاصم نے صرف انتہائی محدود پیمانے پر وہ قبائلی لڑائیاں دیکھی تھیں جن میں فریقین کے پہلوانوں کی انفرادی شجاعت کو ایک فیصلہ کن عنصر سمجھا جاتا تھا لیکن دنیا کی دو عظیم ترین سلطنتوں کے معرکوں میں ہزاروں انسانوں کا اجتماعی نظم و ضبط انفرادی شجاعت سے زیادہ اہمیت رکھتا تھا۔
سین کو پانچ ہزار سواروں کی کمان مل چکی تھی۔ وہ پرویز کے انتہائی ہوشیار جرنیلوں میں سے تھا اور عاصم کو ان منظم جنگوں کے قواعد و ضوابط سکھانے کے لیے اُس سے بہتر اُستاد نہیں مل سکتا تھا۔ فرصت کے اوقات میں وہ عاصم کو اپنے پاس بٹھالیتا اور کوئی نقشہ کھول کر اُس کے سامنے رکھتے ہوئے کبھی اُسے کسی گزشتہ لڑائی کے پلان کی خوبیاں اور خامیاں سمجھاتا اور کبھی آئندہ کے لیے صف بندی اور حملے کی مختلف تجاویز پر بحث شروع کردیتا۔ عاصم کی فطری صلاحیتیں سین کی توقعات سے کہیں زیادہ ثابت ہوئی تھیں اور چند ہفتوں میں اُسے پچاس سواروں کی کمان مل چکی تھی۔ ان سواروں کے لیے یہ بات نئی تھی کہ اُس کا سالار ایک عرب تھا۔ اور ابتدا میں وہ یہی خیال کرتے تھے کہ اِس اجنبی کو کسی خدمت کے عوض نوازا گیا ہے۔ لیکن چند معرکوں کے بعد یہ دستہ ساری فوج میں ایک غیر معمولی شہرت و عزت حاصل کرچکا تھا اور اِس کا ہر سپاہی اپنے سالار پر فخر کرتا تھا۔ عاصم کی نگاہوں میں ان پچاس ہزار سواروں کی حیثیت اپنے قبیلے کے آدمیوں کی سی تھی اور اس کی تمام دلچسپیاں انہیں دوسروں کے مقابلے میں زیادہ معزز زیادہ بہادر، فرض شناس اور قابل اعتماد ثابت کرنے تک محدود تھیں۔ ایران کے سماج میں زیردستوں اور بالادستوں کا رشتہ بندوں اور آقائوں کا رشتہ تھا اور فوج کے اندر بھی یہی حالت تھی۔ کہ افسر، جو عام طور پر طبقہ اعلیٰ سے تعلق رکھتے تھے۔ اپنے سپاہیوں کو غلاموں کی طرح حقیر سمجھتے تھے لیکن عاصم اپنے سپاہیوں کا غمگسار دوست اور درد مند ساتھی بن چکا تھا اور اپنے دل میں اُن کے لیے وہی شفقت محسوس کرتا تھا جو ایک عرب سردار کے دل میں اپنے قبیلے کے آدمیوں کے لیے ہوسکتی تھی۔ اور یہ لوگ اُس کے اشارے پر جان دیتے تھے پھر جس طرح ایک سردار ہمیشہ اپنے قبیلے کی نگاہوں میں ممتاز رہنا پسند کرتا ہے۔ عاصم بھی اپنی ایک امتیازی شان برقرار رکھنے کے لیے کوشاں رہتا تھا۔
(جاری ہے)

حصہ