غزوۂ خندق کا نام اس لیے غزوہ خندق پڑا کہ اس غزوے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اور شہرِ مدینہ کے دفاع کے لیے ایک طویل خندق کا حصار قائم کیا تھا۔ اس غزوہ میں مشرکین عرب اور یہود کے مختلف قبائل نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اتحاد قائم کرکے مدینہ پر حملہ کیا تھا اس لیے اس غزوے کا نام غزوہ احزاب بھی ہے۔ ’’احزاب‘‘ حزب کی جمع ہے جس کے معنی ’’گروہ‘‘ کے ہیں۔ یہ غزوہ ماہِ شوال 5 ہجری بمطابق مارچ 627ء میں ہوا۔
غزوہ کے اسباب:
غزوہ احد میں ابو سفیان نے مسلمانوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ آئندہ سال بدر کے مقام پر نبرد آزما ہوگا چنانچہ اس سے طے شدہ منصوبے کے مطابق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک جماعت کو لے کر ذیعقدہ 4 ہجری میں بدرکے مقام پر پہنچ گئے لیکین ابو سفیان خشک سالی اور قحط کی وجہ سے اپنا وعدہ پورا نہ کرسکا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ دن بدر میں قیام کیا اور واپس مدینہ لوٹ آئے۔ لیکن ابو سفیان کے نزدیک یہ واقعہ قریش کے لیے بے عزتی کا موجب تھا۔ لہٰذا وہ اس کی تلافی آئندہ کسی موقع پر کرنا ضروری سمجھتا تھا۔ ادھر 4 ہجری میںیہود بنو نضیر کا مدینہ سے اخراج ہوا تو وہ مسلمانوں سے بدلہ لینے کی فکر میں رہنے لگے۔ چنانچہ ان کے رئیس سلام بن ابی الحقیق‘ حئی بن اخطب اور کتانہ بن ربیع بن وائل کے چند آدمیوں کی بعیت میں خیبر سے مکہ پہنچے۔
قریش اور ابو سفیان تو پہلے سے ہی تیار تھے۔ یہودیوں کی شہ پا کر وہ مدینہ پر حملہ کرنے اور بڑی فیصلہ کن جنگ کے ذریعے اس قدیم تنازع کو نمٹانے کے لیے آمادہ ہو گئے۔ اپنی اس کوشش میں کامیابی حاصل کرکے یہودیوں کے مذکورہ بالا رئیس خیبر واپس پہنچے تو انہوں نے بعض اور عرب قبائل کو بھی اپنے ساتھ ملانے کی کوششیں شروع کردیں۔ خیبر کے مشرق کی جانب ایک بڑے علاقے میں عرب کا ایک قبیلہ بنو عطفان آباد تھا۔ اس کے سرداروں سے مل کر کھجوروں کی ایک سال کی پیداوار کا لالچ دے کر انہیں اپنی ساتھ ملا لیا۔ بنو سعد قبیلہ بھی ان کے ساتھ مل گیا۔ اس طرح قریش نے بنو سلیم کو اپنے ساتھ شامل کر لیا۔ اتحادی دشمنوں کا ایک بڑا لشکر حضورؐ کے خلاف مدینہ پر حملہ آور ہونے کے لیے تیار جو گیا۔ لشکرِ کفار کی تعداد دس ہزار سے زیادہ تھی۔
آپؐ کو پہلے سے ہی اندازہ تھا کہ کفار کا لشکر چاروں طرف سے بڑھنے والا ہے۔ آپؐ نے صحابہ کرامؓ کے مشورے سے دفاعی انتظامات شروع کر دیے۔ غزوہ احد کے موقع پر شہر سے باہر نکل کر جنگ کرنے کا نتیجہ اچھا نہیں نکلا تھا اس لیے تجویز ہوئی کہ اس مرتبہ شہر کے اندر رہ کر ہی مقابلہ کیا جائے۔ عورتوں اور بچوں کو مختلف قلعوں میں بھیج دیا جائے اور مرد شہر کا دفاع کریں۔
شہر مدینہ مشرق اور مغرب کی جانب سے مراۃ اور جنوب کی طرف مشرقی مرۃ کی ایک شاخ اور جبل عبر سے گھرا ہوا ہے۔ اس زمانے میں اکثر حصے کھجور کے باغوں اور گھنے جنگلات سے ڈھکے ہوئے تھے جن سے ہو کر راستہ بنانا مشکل تھا اور فوج کشی کرنا تو قطعاً ناممکن تھا۔ شمال کی جانب جبل احد اور وادی قناۃ کی ونہ سے شہر محفوظ تھا۔ اب صرف شمالی مغربی علاقہ کھلا ہوا تھا جہاں وادی قناۃ وادی بطحان اور وادی القیق نے مل کر ایک ہموار وسیع میدان بنا دیا تھا۔
حضرت سلمان فارسیؓ نے خندق کھودنے کا مشورہ دیا اور کہا ’’ہمارے ملک میں ایسے مواقع پر خندق کھودی جاتی ہے اور اس کے پیچھے بیٹھ کر دشمن سے بچائو کیا جاتا ہے۔ اس وقت بھی یہی تدبیر عمل میں لائی جائے تو مناسب ہوگا۔‘‘ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رائے کو پسند فرمایا اور خندق کھودنے کی تیاری شروع کردی۔ بہرحال جب یہ بات طے پا گئی کہ خندق کھودی جائے تو آپؐ نے اس کے لیے نشانات قائم کیے۔ نشانات قائم کرنے کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے کھودنے کا کام صحابہ کرامؓ میں اس طرح تقسیم کر دیا کہ دس دس آدمیوں کی جماعتیں بنا کر تقریباً بیس‘ بیس گز لمبی سرنگ کھودنے کا کام اس کے سپرد کیا گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس میں شرکت کی۔ آپؐ کے ساتھ حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ بھی تھے۔ آپؐ نے عام مزدوروں کی طرح کا کیا۔ کئی کئی وقت کے فاقے برداشت کیے۔ اس پر مشقت کام کو صرف تین ہفتوں میں پورا کر لیا گیا۔ شوال کے آخری ہفتے میں لشکرِ کفار کی آمد کی اطلاع ملی۔ آپؐ نے عورتوں اور بچوں کو قلعوں اور مختلف محفوظ مقام پر بھیج دیا اور ان کی حفاظت کے لیے چھوٹے چھوٹے دستے مقرر کر دے۔ اس انتطام کے بعد آپؐ صحابہ کرامؓ کی جماعت کے ساتھ‘ جو تین ہزار افراد پر مشتمل تھی‘ جبل سلع پر مقیم ہو گئے۔ مدینہ میں آپؐ نے حضرت ابن ام مکتوم کو اپنا قائم مقام بنایا اور ہر طرف جہاں سے دشمن کے گزرنے کا کچھ خطرہ ہوسکتا تھا‘ فوجی دستے متعین فرمائے۔ بنو قریظہ کے لیے صحابہؓ کی ایک جماعت مقرر کی جو ان کی نقل و حرکت دیکھنے پر مامور تھی۔
جب دونوں لشکر اپنے مورچوں پر جم گئے تو انہوں نے ایک دوسرے پر تیر چلانا شروع کر دیے۔ کئی دن یہ سلسلہ چلتا رہا۔ آخر کار ایک کفار کے کچھ سوار جنگ کے لیے آگے بڑھے۔ ان میں قریش کے عکرمہ بن ابی جہل‘ نوفل بن عبداللہ‘مزاربن الخطاب سواروں کی یہ جماعت مسلمانوں کی طرف بڑھی اور جب قریب پہنچی تو خندق دیکھ کر حیران رہ گئی۔ جب قریش کے ان سواروں نے خندق کو پار کرنا چاہا تو مسلمانوں نے دوسرے کنارے سے تیر برسا کر انہیں روک دیا۔ وہ اِدھر سے اُدھر بھاگتے پھرے لیکن مسلمانوں نے بہت دیر تک انہیں کامیاب نہ ہونے دیا۔
ایک طرف تو جنگ کا ہنگام جاری تھا‘ دوسری جانب گھر کے اندر کئی دشمن موجود تھے۔ ان میں منافق تو شروع ہی سے اپنے نفاق کا اظہار کر رہے تھے۔ یہ وقت مسلمانوں کے لیے بہت سخت تھا۔ محاصرے کی سختیاں ہی کچھ کم نہ تھیں۔ عرب کی تاریخ میں اتنا بڑا لشکر کبھی جمع ہو کر حملہ آور نہیں ہواتھا۔
ان خطرات سے منافقین کی قلعی بھی کھل گئی۔ انہوںنے کھلم کھلا کہنا شروع کر دیا کہ ’’محمدؐ تو قیصر و کسریٰ کے ملک اور خزانے دلوانے کا وعدہ کرتے تھے یہاں تو اس کے برعکس حالت دیکھ رہے ہیں اور ہم پر عرصۂ حیات اتنا تنگ ہو گیا ہے کہ ہم رفع حاجت کے لیے بھی باہر نہیں جاسکتے۔‘‘ (تاریخ طبری حصہ اوّل‘ ص: 246) ان سختیوٗں کے باوجود مسلمانوں کے ایمان میں اور جلا پیدا ہوگئی اور ان کو آخر تک کوئی بھی بات بار خاطر نہ ہوئی۔
جب سے بنو قریظہ نے بد عہدی کی تھی ان کی جانب سے خطرہ سب باتوں پر حاوی ہو چکا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس خطرے کے دفاع کا نہایت اچھا انتظام کر دیا۔ ایک نو مسلم نعیم بن مسعود نے ایک اعلیٰ تدبیر سے کام لے کر ان میں اور حملہ آور لشکر میں پھوٹ ڈلوا دی اور ان سے تو جا کر یہ کہا تم قریشی اور بنو عظفان کے ساتھ مل کر کیوں اپنے لیے دشواری پیدا کر رہے ہو۔ یہ قبیلے تو چند روز ٹھہر کر اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں گے لیکن تمہیں تو یہیں رہنا اور بسنا ہے اس لیے مسلمانوں سے دوستی کرکے رہو۔ دشمنی کرکے کوئی فلاح نہ پائو گے۔ وہ جب موقع پائیں گے تمہیں دبا لیں گے اور تمہارے لیے اس دیار میں رہنا مشکل ہو جائے گا۔
یہ نتیجہ تو انسانی تدبیر تھی اس کے ساتھ جب اللہ تعالیٰ کی مدد شامل ہوگئی تو کفار کو محاصرہ اٹھا کر بھاگتے ہی بن پڑی۔ اپریل کا مہینہ تھا جب نہ شدید سردی کا موسم تھا نہ سخت آندھیوں کا۔ لیکن ایک دن یکایک ایسی آندھی چلی کہ دشمن کی فوج جو کھلے میدان میں ڈیرے ڈالے پڑی تھی‘ انتشار میں مبتلا ہوگئی۔ خیمے اکھڑ گئے‘ ہانڈیاں اور برتن الٹ گئے‘ کھانے پینے کا سارا سامان خراب ہو گیا اس کے ساتھ سردی اتنی بڑھی کہ کفار کا ٹھہرنا مشکل ہو گیا۔
جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کی اس حالت کا علم ہوا تو آپ نے حضرت حذیفہ ابن الیمانؓ کو بلا کر فرمایا ’’حذیفہ تم جا کر دیکھو مشرک کیا کر رہے ہیں‘ تم حالات معلوم کرنے کے بعد کسی سے کچھ مت کہنا اور ہمارے پاس چلے آنا۔‘‘
حضرت حذیفہ لشکرِ کفار میں پہنچے تو دیکھا کہ آندھی نے سب کو پریشان کر رکھا ہے‘ نہ آگ جلتی ہے نہ خیمہ کھڑا ہوتا ہے۔ ابو سفیان نے بنو قریظہ کی عہد شکنی اور آفاتِ ارضی و سماوی سے پریشان اور کبیدہ خاطر ہو کر واپسی کا ارادہ کر لیا اور اپنے لشکر کو مخاطب کرکے کہا ’’ایسی صورت میں تو میں یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ اب تک مکہ واپس چلو۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اپنے اونٹ پر سوار ہوا اور تیزی سے مکے کی طرف چل دیا اس کے پیچھے پیچھے اس کا لشکر بھی روانہ ہو گیا۔ قریش کی واپسی کی اطلاع بنو عظفان کو ہوئی تو وہ بھی اپنے علاقے کی طرف چلے گئے اور اس طرح کفر کے جو بادل تقریباً ایک ماہ سے دیارِ رسول کو گھیرے ہوئے تھے کہر کی طرح چھٹ گئے اور مطلع صاف ہو گیا۔ سورہ احزاب میں ارشاد باری تعالیٰ ہوا ’’اور جنگ میں اللہ ہی مومنین کے لیے کافی ہو گیا۔‘‘ (سورہ احزاب۔ 25)
غزوہ احزاب کئی اعتبار سے اہم ہے:
-1 اتنے طویل محاصرے کے باوجود مسلمانوں کا زیادہ جانی نقصان نہیں ہوا‘ صرف حضرت سعد بن معاذؓ کے تیر لگا جس کی وجہ سے وہ تقریباً ایک ماہ بعد وصال فرما گئے۔
-2کفار مکہ کی یہ آخری زبردست کوشش تھی جو ناکام ہوئی اس کے بعد ان کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ تنہا یا دوسرے قبائل کے ساتھ مل کر مدینے پر حملہ کریں۔
-3 اس بے نتیجہ فوج کشی اور محاصرے نے عرب کو یقین دلا دیا کہ ملت اسلامیہ اب ایک ایسی قوت بن گئی ہے جس کو مختلف قبائل کا اتحاد بھی آسانی سے نہیں توڑ سکتا۔
-4 بنو قریظہ کے نقصِ عہد سے یہودیوں پر سے بھی بالکل اٹھ گیا اس کے نتیجے میں غزوہ بنو قریظہ رونما اور مدینہ کے یہودیوں کے اس آخری قبیلے کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔