اخلاقی زوال،اسباب قہر خداوندی

500

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو زمین کی خلافت عطا کی۔ عقلِ سلیم سے نوازا، تمام اشیا کے علوم سے بہرہ مند کیا اور خیر و شر کو الگ الگ کرکے واضح کر دیا۔ بھلائی اور بربادی، جزا و سزا کے راستوں کا تعین کر کے دیا۔ مسخرانہ صلاحیتوں سے نواز کر اشرف المخلوقات کا درجا عطا کیا۔ علامہ اقبال نے انسانی برتری کو اس شعر میں بڑی خوب صورتی سے پیش کیا ہے۔
جچتے نہیں کنجشک و حمام اس کی نظر میں
جبریل و سرافیل کا صیاد ہے مومن
سورہ البقرہ کی آیت 256 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں۔‘‘ صحیح بات کو غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔
جب کہ سورہ الشمس ہے ’’ مجھے اس نفس کی قسم جس کو پیدا کیا اور ہموار کیا اور اس پر فجور وتقویٰ واضح کر دی۔‘‘
آدم علیہ السلام اور ماں حو ّا کو زمین پر ہدایت کے ساتھ اتارا گیا‘ آپ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا اور رسول زمین کے ہر انسانی آبادی میں مبعوث کیے گئے۔ جن کی رشد و ہدایت کلامِ ربانی کی روشنی میں درج ذیل بنیادی تعلیمات پر مشتمل ہیں۔
توحید‘ رسالت ‘ فکر ِآخرت ‘ تکمیل اخلاق جو تطہیر افکار و نظریات اور تعمیر سیرت وکردار پر مبنی ہیں۔
ہم اگر مسلم دنیا کے عروج و زوال کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو اک عبرتناک منظر ہمارے سامنے آتا ہے۔ خلافت کے بعد ملوکیت کے آنے سے جو اخلاقی زوال کا سلسلہ شروع ہوا اور تن آسانی آئی اُس نے تاتاریوں کی یلغار اور سقوطِ بغداد کی صورت میں ہندوستان کو چھوڑ کر پوری مسلم دنیا کا بھرکس نکال دیا۔ مگر اللہ نے ایک بار پھر کرم کیا اور تاتاری پے در پے مسلمان ہوتے گئے اور برقا خان کے اسلام لانے کے بعد تاتاری فتنہ ختم ہوا۔ اقبال نے اسی پر کہا کہ:
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسبان مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
مگر ترک خلافت کی سطوت جو تین بر اعظموں پر مشتمل تھی اور صلیبی جنگوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ترک خلافت میں خاندانی ریشہ دوانیاں اور روز بہ روز اخلاقی پس ماندگی، یورپ کا صنعتی انقلاب برطانوی سامراج کی توسیع پسندی، عربوں کی ترکوں کے خلاف بغاوت، پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں ترکی کا جرمنی سے اتحاد اور پے در پے شکست، اسرائیل کا قیام‘ عرب سرزمینوں پر تیل کی دولت اور پوری دنیا میں عربوں کی عیاش قوم کی حیثیت سے شہرت اور 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کی بدترین شکست، مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی قبضہ، 1971 میں سقوط ڈھاکا اور گزشتہ 50 سال سے امریکی یورپی مسلم دنیا کے خلاف سفاکانہ جارحیت، فلسطین، کشمیر، افغانستان، شام ، عراق، برما، بوسنیا، فلپائن، صومالیہ‘ چیچنیا‘ بابری مسجد کی شہادت اور بھارت میں مسلمانوں کی مسلسل نسل کشی ایک ایسی ذلت وخواری کی داستان الم ہے جسے بیان کرنے کے لیے پتھر کا جگر درکار ہے۔ جس میں اب تک ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک کروڑ سے زائد مسلمان نہایت سفاکانہ طریقوں سے تہ تیغ کر دیے گئے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اخلاقی زوال اور دین سے دوری نے مسلمانوں کو تتر بتر کر کے کوڑے دان میں ڈال دیا ہے۔
مسلماں آج بھی دنیا میں بے پندار ہے آقا
ذلیل و خوار ہے مست مئے اغیار ہے آقا
بھلا کر نس قرآنی یہودی و نصرانی
شیاطین زمانہ کا یہ پیروکار ہے آقا
او آئی سی کے 56 مسلم ممالک کے حکمرانوں کی بے حسی اور طاغوت کی کاسہ لیسی ہی ہماری تباہی اور ذلت وخواری کی بنیادی وجہ ہے۔
سب سے پہلے نوح علیہ السلام کی قوم نے بت پرستی کا آغاز کیا اور سورہ نوح میں جن 4 بتوں کا نام ہے وہ ود ، سواع، یغوث اور یعوق تھے 900 سال کی واعظ اور تعلیم کے بعد جب قوم شرکشی سے باز نہ آئی تو آپ نے بددعا دی ’’میرے رب! ان کافروں میں سے زمین پر بسنے والا نہ چھوڑ۔ اگر تو نے چھوڑ دیا تو تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی نسل سے بھی جو پیدا ہوگا بدکار اور سخت کافر ہوگا۔‘‘ (سورہ نوح)
لوط علیہ السلام کی قوم نے ایک ایسی برائی (ہم جنس پرستی) ایجاد کی جو روئے زمین پر کہیں نہ تھی‘ جس پر قوم لوط اللہ کے سخت ترین عذاب سے دو چار ہوئی۔
عاد اور ثمود کی طرح زور آور قوم تو پیدا ہی نہیں کی گئی مگر وہ بھی نشانہ عبرت بنیں۔ باغِ ارم والے‘ جو خوش حال زندگی گزار رہے تھے‘ ان پر کم تولنے کے باعث راتوں رات تباہی آئی۔ اصحاب سبت تو بندر اور سور بنا دیے گئے۔
اہل پومپا کے روسا تک عورت فروشی کا کاروبار کرتے تھے جنہیں آتشِ فشاں کے لاوے نے پتھر بنا دیا۔ یہ بستیاں اور کھنڈرات اللہ کی پکڑ کی نشانیاں ہیں۔ یورپ اور امریکا کی خوش حالی اور انسانیت سوز برائیاں ہمیں غفلت میں نہ ڈال دے۔ گزشتہ صدی میں دو عالمی جنگوں میں کروڑوں انسانوں کی ہلاکت اللہ کی پکڑ ہی تھی۔

حصہ