ڈالر کی پرواز 200 سے آگے نکل گئی، ٹرینڈ بن گیا۔پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میںبھاری اضافے کے لیےحکومت مستقل عوام کا ذہن بنا نےمیں لگی ہے، اسی لیے ڈالر کو خوب دھکا لگ رہا ہے تاکہ جواز اچھامل سکے۔اپوزیشن یعنی عمران خان منتظر ہے کہ قیمتیں بڑھیں اوراُس کی احتجاجی مہم کو مزید عروج ملے ، امپورٹڈحکومت نامنظور بدستور ٹرینڈ لسٹ پر چھایا رہا۔لوڈ شیڈنگ بھی سوشل میڈیا پر خوب موضوع بنی ۔کراچی ایک ماہ میں تین بم دھماکے سہہ چکا، آئی جی کی تبدیلی رد عمل و حکومتی اقدام نظر آیا مگر کسی نے نوٹس نہیں لیا۔اس کے برعکس پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی قسمت کے ستارے گردش میں رہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ پنجاب کے گرد ہی ساری سیاست مرکوز ہے ۔ایک بلوچ خاتون شاعرہ کو سادہ لباس والے کراچی سے اغوا کر گئے، اس پر #SaveBalochWomenکے ہیش ٹیگ تلے ٹرینڈ ہوا۔58سالہ امریکی فلمی اداکارجانی ڈیپ نے اپنی سابقہ بیوی کے لکھے گئے ایک کالم پر ہتک عزت کا مقدمہ کیا تھا۔مقدمے کی کارروائی جاری تھی مگر امریکا تا پاکستان اس کے مداحوں نے اس کو سوشل میڈیا پر انصاف دلانے کی مہم شروع کر دی ایسا لگ رہا تھا کہ 50ملین ڈالر واقعی ملیں گے اور سب کو اس کا حصہ ملے گا۔سرمایہ دارانہ نظام کی یہی خاص بات ہوتی ہے کہ اس میں انسانی رشتے، جذبات، احساسات ، سب کچھ مارکیٹ کے تابع ہو جاتے ہیں۔ آپ جہازمیں داخل ہوتے ہیں تو سامنے ایک ایئر ہوسٹس مسکرا رہی ہوتی ہے ، بے شک اس کا دل نہ چاہ رہا ہو، مگر اس کے جذبات اس تنخواہ کے تابع ہیں جو اس سے جعلی جذبات کا اظہار کروا رہی ہوتی ہے ۔ ایئر ہوسٹس کی یہ مثال اس لیے دی کہ اس پیشے سے جڑے انسانوں کی کیفیت سرمایہ دارانہ نظام کو سمجھنے کے لیے بہت آسان ہوتی ہیں۔ اسی طرح رشتوں کا معاملہ ہوتا ہے ، جب سے ڈے کیئر سینٹرز ، اولڈ ہاوسز نے جہاں جہاں جگہ بنائی ہے تو وہ مارکیٹ ریٹ پر آپ کے بچوں اور والدین کو انسانی رشتے کے متباد ل ہی فروخت کرتے ہیں، مطلب جو کام ایک ماں کے کرنے کا تھا وہ اب ڈے کیئر والی کرے گی ایک رقم کے عوض اور جو کام ایک بیٹے کے کرنے کا تھا اُس کو اولڈ ہوم کا کیپر کرے گا ایک مارکیٹ رقم کے عوض۔غور کریں تو یہ پورا سرمایہ دارانہ نظام کا منظر نامہ تیزی سے انسانوں کو انسانوں کے تمام رشتوں سے کاٹ کر مارکیٹ سے جوڑ رہا ہے ۔یہ سوشل میڈیا بھی اسکی اچھی مثال ہے ۔ اب ہم میں سے جو بھی اس مضمون کو آن لائن پڑھ رہا ہے تو وہ ایک کنزیومر (صارف) بھی ہے ، انٹر نیٹ کا صارف، بجلی کا صارف، کمپیوٹر یا اس گیجٹ کا صارف ، یہی نہیں بلکہ فیس بک پر اگر اسکرولنگ جاری ہے تو اسکے لیے بھی ہم صارف ہیں کہ ہمارا فیس بک استعمال کرنا ، فیس بک کے استعمال کنندگان کی گنتی بڑھاتا ہے اور وہ اس بڑی تعداد کو اپنی اشتہاری اور ڈیٹا فروخت کی آمدنی میں استعمال کرتا ہے ۔یہی حال گوگل کا ہے، آپ یو ٹیوب دیکھ رہے ہیں مگر اسی وقت سے آپ یو ٹیوب کے ایک صارف بھی ہیں، آپ جو وڈیو دیکھ رہےہیں اس چینل کے مالک کی وڈیو کے ویوز بڑھا رہے ہیں۔دوسری جانب اس وڈیو کے چینل مالکان یا ادارے دن رات اپنے ویوز سے آمدنی بڑھانے کی کوشش میں ہر قسم کی حدپھلانگنے میں لگے ہوئے ہیں۔یہ حال دیگر سماجی میڈیا کا ہے ۔ایک دوڑ لگی ہے ،جو مستقل حرص ،حسد و ہوس بڑھا رہی ہے ۔
اس ہفتے بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ معاشرے میں سرمایہ دارنہ نظا م کے اثرات جتنی شدت سے لبرل اقدار کی صورت ظاہر ہوتے جا رہےہیں ، اس کی شدت ، اس پر غصہ و بے چینی و اضطراب آج کی تحریر میں ضرور ملے گی۔ او ل مسئلہ تو یہ ہے کہ لوگ جانتے ہی نہیں لبرل ازم یا لبرل اقدار ہیں کیا؟ اس لیے جو کچھ وہ اسلام کے نام پر کرتے ہیںان کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ سب شیطانی ایجنڈا ہے۔ ایسا قطعاً نہیں کہ اس کا حساب نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ سید مودودی ؒنے اسلام کے دائرے میں علم کو اولین مقام دیا، یہ علم دین کا ہے،دین کے مکمل شعور کا ہے، قرآن کا ہے، حدیث کا بھی ہے، فتنوں کا بھی ہے۔
لاہور کے ایک گھر میں منعقدہ تقسیم تربوز کی تقریب نے سوشل میڈیا پرجو ہلچل پیدا کی وہ میرے لیے عمران خان کے ہفتے میں 6 جلسوں سےمستقل مچائی گئی ہلچل سے بھی بڑی رہی ہے۔عمران خان کے بارے میں چاہے وہ لاکھ بار ایاک نعبد پڑھ لے یہ بات صاف ہے کہ وہ ایک سیکولر جماعت کا سربراہ ہے۔اس کی اسلام کی تشریح ، اسکی اپنی زندگی سرمایہ دارانہ نظام کے نفوذ کے سوا کچھ بھی نہیں۔یہی حال دیگر جماعتوں کا بھی ہے ، وہ سب سیکولر ،لبرل و عملاً دین کا استعمال کرنے کے باوجود ، سرکاری عمرے وحج و بیت اللہ کی زیارت کے باوجود ـلادین ہی کے دائرے میں آتی ہیں۔پی ایس پی کے سربراہ مصطفیٰ کمال اپنی تقاریر و گفتگو میں قرآنی حوالے دیتے ہیں مگر انٹرویو میں پوچھا جائے تو صاف کہتے ہیں کہ میں ایک لبرل ہوں۔اس لبرل کے لفظی معنی بطور ـ’آزاد‘ کے اگر آپ لوگ لے بھی لیں تو بھی یہ مکمل کفریہ جملہ ہے جس میں انسان اپنے رب کی غلامی کا انکار کرتے ہوئے اپنی مجرد ’آزادی‘ (قول، فعل، فکر) کا دعویٰ کرتا ہے ۔وگرنہ مسلمان تو اپنے لفظی، شرعی، فقہی، تمام معنوں میں ’کامل عبد ‘ہوتا ہے ، مطلب ’بندہ‘ مطلب ’غلام‘ ، وہ بھی ایسا جو کسی بھی درجے میں اپنے مالک کی غلامی سے باہر نہیں آسکتا ۔ مالک بھی ایسا جس نے اسکو ’ہدایات‘ کا ایسا کامل مجموعہ عطا کیا ہو جو اسکو بیت الخلا سے لے کر کھانے ، پینے، سونے جاگنے، رشتے نبھانے، کاروبار، سردی ،گرمی، معاشرت، معیشت، سیاست، حکومت ، مرنے اور مرنے کے بعد تک کی ہدایات دیتا ہے ، تو بھلا ایسا انسان جب بھی اپنی آزادی یا خود مختاری یا اپنی مرضی کا زبانی یا عملی دعویٰ کرے تو مطلب یہی ہے کہ وہ درحقیقت اپنے حقیقی مالک کی غلامی کا انکاری ہے ۔ واضح رہے کہ لبرل ازم کے بارے میںمذکورہ بالا جملے صرف لفظی بتائے گئے ہیں، اس کی فلسفیانہ بنیادوں پر بات نہیں کی گئی مگر ان کا مفہوم بھی ایسا ہی ہے۔ یہ باتیں جان لیں کہ اگر ہم تمام عبادات ، مطلب احکام الٰہی کی پابندی میں سے نیت و عقیدہ نکال دیں ، تو یہ صرف میکینکل سرگرمی بن جاتی ہیں، جن سے لبرل ازم کو کوئی مسئلہ نہیں ۔ اس کو مسئلہ جب شروع ہوتا ہے جب یہ عبادات ، نیت وعقیدے کے شعور کے ساتھ اعمال صالحہ بن رہی ہوں اور سیکولرائزیشن کے خلاف بغاوت کر رہےہوں تو مسائل شروع ہوتے ہیں۔سیکولر ازم مذہب کے خلاف مکمل اعتقادی پوزیشن کا نام ہے اور مارکیٹ نے انسانی افعال و رشتوں میں جو تبدیلی پیدا کی ہے یہ دراصل سیکولرائزیشن کہلاتی ہے ۔
اب چلتے ہیں تربوز کے بارے میں ، جس پر خوب بات چیت رہی ۔اس میں اہم بات یہ کہ مسئلہ سب کو تربوز ہی نظر آیا ۔ جب کہ دفاع کنندگان نے بتایاکہ احمد سلمان کے علاوہ کئی اورسیاسی رہنما اس سے بھی کمتر چیزیں بانٹتے رہے ہیں۔ اِس ضمن میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی ایک شخص کو سالن کی پلیٹ بانٹتے ہوئے کی تصویر ، شاہ محمود قریشی کی تربوز پکڑے تصویر، کوئی جھاڑو بانٹتے ہوئے، کسی کی دُکانداروں کو تھیلی بانٹتے ہوئے ، کسی کی بریانی یا کوئی راشن وغیرہ کی تصاویر بھی شیئر کر کے بتایا گیا کہ تربوز کوئی معیوب بات نہیں۔ بلا شبہ نہیں۔ فقیر شاہ نے لکھا کہ ،’تربوز سے نہیں ،تکلیف تو،اس پر لکھی جماعت اسلامی سے ہے۔‘ عمیر اسلم نے متعلقہ تصاویر شیئر کرتے ہوئے وضاحت میں لکھا کہ ،’تربوز پارٹی پر تنقید کرنے والے دانشوروں کیلئے عرض ہے کہ اس حلقے میں بچوں کیلئے مختلف تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے، مینگو پارٹی، اورنج پارٹی، مہندی اسٹال، عیدی کی تقسیم کی تقاریب۔ ‘کرم الہی نے یوں لکھا کہ،’یہ تصویر میری نظر میں شدید بدذوقی کی غماز ہے۔ اس موقع پر تصویر لینا اور سوشل میڈیا پر شئیر کرنا بالکل مناسب نہ تھا۔ الخدمت نے کورونا میں تمام خطرات سے بے نیاز ہوکرقوم کی خدمت کی تھی ۔ان کے رضاکاروں نے اپنی حفاظت کو خطرے میں ڈال کر کام کیا۔ ظالم سماج کو خدمات کی تحسین کے لئے وقت نہ مل سکا لیکن تربوز کے ساتھ تصویر پر بھپتیاں کسنے کے لئے مل گیا۔ ‘آصف حسین یوں لکھتے ہیںکہ ،’جماعت اسلامی اور الخدمت اس وقت جو کام فلاحی شعبہ میں کررہی ہے پاکستان کے عام لوگ اسکا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔ کوئی قدرتی آفت ہو یا روزانہ کے فلاح و بہبود کے کام ۔ابھی چولستان میں اگر کوئی کام کررہا ہے تو وہ آپ ہیں ۔لیکن عوام کو کیا اسکا پتا چلتا ہے؟ میڈیا جماعت اسلامی کی ایسے کاموں کی کوریج پر سویا رہتا ہے۔ انور صالح لکھتے ہیں کہ، ’یہ ہے سوشل میڈیا کا استعمال ۔ایک مثبت سرگرمی کو سوشل میڈیا نے منفی رنگ چڑھا دیا۔ اس کی وجہ ہماری سوشل میڈیا کی اہمیت افادیت سے واقفیت نہیں۔ دوسری طرف دیکھنے اور سوچنے کی چیز یہ بھی ہے کہ جماعت اسلامی دیگر فلاحی سرگرمیوں کے اتنی شہرت نہیں ملی جتنی تربوز کو۔
میرے نزدیک اس سب میں افسوس ناک بات یہ تھی کہ سب تربوز کو لیکر ڈیفنڈ اور آفینڈ کرتے رہے۔ اپنے بنیادی عقائد سے منہ پھیر کر لوگ کیوں ایسا کرتے رہے ؟یہ کیسے بھلا دیا گیا کہ پڑوسیوں کا خیال رکھنا ایک دینی و شرعی حکم ہے ۔ اس حد تک ہے کہ بخاری شریف کی حدیث ہے کہ ’ جبریل اَمین ہمیشہ مجھے پڑوسی کی رعایت و امداد کی اس قدر تاکید کرتے رہے کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ شاید پڑوسیوں کو بھی رشتہ داروں کی طرح وراثت میں شریک کردیا جائے گا۔‘بھوکا پڑوسی والی حدیث تو بچپن میں ہی یاد کرا دی جاتی ہے ۔اسلامی معاشرت کی بنیاد وں میں خاندان، پڑوسی، محلہ ، کمیونٹی شامل ہے۔
پڑوسیوں ، مہمانوں کے لیے انفاق کے معاملے میں تو ہمارے دین نے ایسا معیارسیٹ کیا ہے کہ کھانا کم ہو تو چراغ ہی بجھا دیئے جاتے ہیں ، بچوں کو بھوکا اور خالی منہ چلایا جاتاہے ۔یہی نہیں اس سے بڑا معیار دیکھنا ہو تو میں آپ کو وہ چندکھجوریں یاد دلانا چاہوں گا جنہیں بوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے مال کے اوپررکھ د ی گئیں ۔اس لیے یہ تو طے ہے کہ ’تربوز ‘جن کے نزدیک مسئلہ بنا اُن کا معیار انفاق نیت نہیں بلکہ خالص مادی بنیادوں پر ہی سیٹ ہے۔ جبکہ میں بتا چکا ہوں کہ اسلامی شرع میں عقائد و نیت کو کتنی مرکزیت حاصل ہے۔