شرم تم کو مگر نہیں آتی

457

رواں ہفتے ثانوی بورڈ کراچی کے تحت ہونے والے امتحانات کے دوران مجھے اس وقت انتہائی دلچسپ صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جب بچے کے الیکٹرک مردہ باد کے نعرے مارتے ہوئے اسکول سے باہر آ رہے تھےان میں کچھ بچے پسنے سے تر قمیصیں اتار کر ہوا میں لہراتے دکھائی دیے جبکہ کچھ اس محکمے کی جانب سے شہریوں کو دی جانے والی اذیت پر سراپائے احتجاج تھے کراچی میں بجلی کی بندش پر اس قسم کے غصے کا اظہار نئی بات نہیں یہاں پانی، بجلی اور دیگر ضروریات زندگی کے حصول کی خاطر ایسے احتجاج کا ہونا روز کا معمول ہے، چونکہ ابھی بات میڑک کے امتحانات کے دوران کی جانے والی لوڈ شیڈنگ پر ہو رہی ہے اس لیے یہیں تک ہی محدود رہتا ہوں اور ان طلبہ کا موقف پیش کررہا ہوں جو میرے سامنے بیان کیا گیا یا اس وقت جو کچھ میں نے دیکھا اسے تحریر کرنے کی کوشش کرتا ہوں،امتحانی مراکز پر ہونے والی اعلانیہ وغیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ پر احتجاجی طلبہ کا کہنا تھا کہ موسم گرما کی آمد کے ساتھ ہی بجلی کی آنکھ مچولی نے لوگوں کی زندگیاں اجیرن کر کے رکھ دی ہیں بلکہ گزشتہ ایک دہائی سے بھی زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود کے الیکٹرک کی جانب سے عوام پر کئے جانے والے ظلم میں کوئی کمی نہیں آئی اور اس میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے سخت گرمی میں ہلکی پھلکی ہلڑ بازی کرتے میٹرک کے ان طلباء میں سے ایک طالب علم بڑے منفرد انداز میں کچھ یوں نعرے مارتا دکھائی دیا کہ بورڈ اور کے الیکٹرک گٹھ جوڑ نامنظور نامنظور،اس نئے اور منفرد نعرہ لگانے والے بچے کو میں نے چند منٹوں میں دوران احتجاج ہی قابو کر لیا اب میں تھا اور اس نعرے کا خالق بچہ تھا اس کی طرف سے اس قسم کا نعرہ لگانے کے بارے میں پوچھنے پر وہ خاموش ہو رہا لیکن چند لمحوں میں ذرا سی ڈانٹ سنتے ہی فر فر بولنے لگا”رات رات بھر بجلی نہیں ہوتی اچھے سے سو بھی نہیں سکتے اور تو اور امتحانی پرچوں کی تیاری بھی نہیں کر سکتے ظاہر ہے کہ جب نیند پوری نہ ہو گی تو خاک تیاری ہوگی سورج کے آنکھ کھولتے ہی سخت گرمی پڑنے لگتی ہے دوپہر کو تو آگ برسنے لگتی ہے یہ کے الیکٹرک والے یہودیوں سے بھی زیادہ ظالم ہیں جنہیں مسلمان ملک میں غریبوں پر ظلم کرنے کی کھلی چھٹی دے دی گئی ہے بجلی نہ ہونے کی وجہ سے پانی کی سپلائی بھی بند ہوتی ہے محلے میں لوگ جرنیٹر چلا لیتے ہیں جس کی وجہ سے چولہوں میں گیس پریشر نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے روٹیوں کے لیے ہوٹلوں پر لمبی لمبی قطاروں میں کھڑا ہونا پڑتا ہے بے شرمی کی بھی کوئی حد ہوا کرتی ہے یہ ادارہ تو ساری حدیں عبور کر چکا ہے بجلی آتی نہیں لیکن ناجائز طور پر بنائے گئے بل ضرور آتے ہیں اس محکمے کے لوگوں کو دیکھ کر متھا گھومنے لگتا ہے جنہوں نے ہماری زندگیوں میں اندھیرے کردیے ہیں“۔اس کی جانب سے کی جانے والی تکرار کو سن کر میں نے سوچا کیوں نہ اس سے مزید گفتگو کی جائے بس پھر کیا تھا میں بھی شروع ہوگیااور اس کا نام پوچھ کر اس سے باتیں کرنے لگا،،ٹھیک ہے تمہاری ساری باتیں درست ہیں لیکن تم میڑک بورڈ اور کےالیکٹرک کے خلاف لگائے جانے والے اس نعرے کے بارے میں تو بتاؤ جو تم مسلسل لگا رہے تھے؟”وہ نعرہ تھوڑی تھا!وہ تو میں بس یوں ہی کہہ رہا تھا،،اپنے غیر تسلی بخش جواب کو خود ہی بھانپتے ہوئے میری جانب دیکھ کر کہنے لگا”اچھا اچھا بتاتا ہوں جب رات رات بھر بجلی نہیں ہوتی تو موبائل فون بھی چارج نہیں ہوتا امتحانات میں نقل کے لیے موبائل فون کی ضرورت ہوتی ہے آج کل واٹس ایپ پر حل شدہ پرچہ آ جاتا ہے جب بیٹری چارج نہ ہو تو سارا کام خراب ہو جاتا ہے اور دوسری طرف بورڈ نے الٹی گنگا بہانا شروع کر دی ہے ماضی میں میڑک کے سالانہ امتحانات ہمیشہ پہلی شفٹ یعنی صبح میں ہوا کرتے تھے نہ جانے کیوں اور کس کے کہنے پر اس مرتبہ پرچوں کا شیڈول دوسری شفٹ میں رکھ دیا گیا ہے پرچہ دینے کے لیے تپتی دھوپ میں نکلنا پڑا ہے جس کی وجہ سے دماغ پکنے لگتا ہے ملک کے معماروں کے ساتھ ہونے والے اس سلوک سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کو ختم کیا جارہا ہے اب وہ نقل کا سہارا نہ لیں تو پھر کیا کریں امتحانات کے دوران ذہن تیز کرنے کے لیے بچوں کو بادام اور دودھ زیادہ سے زیادہ دیا جاتا ہے لیکن ہمارے یہاں ٹینشن دی جاتی ہے کلاس روم میں بجلی نہیں ہوتی سارا کچھ سوچی سمجھی اسکیم کے تحت کیا جا رہا ہے اگر کتابوں کے اوراق پھاڑ کر کہیں چھپا لیں تو گرمی اور پسینے کی وجہ سے گیلے ہو جاتے ہیں مجھے لگتا ہے کہ اس سازش میں بورڈ اور کے الیکٹرک دونوں ہی شامل ہیں،،مجھ سے بات کرتے ہوئے ارسلان انتہائی چالاک بننے کی ناکام کوشش کر رہا تھا لیکن اسے کیا خبر تھی کہ وہ جو کچھ بھی کہہ رہا ہے وہ پورا سچ نہیں یعنی امتحانی مراکز کے اوقات میں تبدیلی کے بارے میں وہ جو کچھ بھی کہہ رہا تھا وہ سچ نہ تھا اور نقل کرنے کے طور طریقے بیان کر کے وہ شیطانی ذہنیت کی عکاسی کرتا دکھائی دے رہا تھا تبھی میں نے اس سے کہا،،تم کون سے امتحانی مراکز کی بات کررہے ہو صبح سائنس اور دوپہر کی شفٹ میں جنرل گروپ کے پرچے لیے جارہے ہیں تمہیں کس نے کہا کہ پرچے صرف دوپہر کی شفٹ میں ہی ہورہے ہیں؟ اور موبائل فون کے ذریعے نقل کی جو بات تم کر رہے ہو یہ کون سی حرکت ہے اسے تو کاپی کلچر کہا جاتا ہے ”نہیں نہیں میں تو پچھلے سال کی بات کررہا تھا اس مرتبہ تو صبح اور دوپہر دونوں شفٹوں میں امتحانات ہو رہے ہیں میں تو کہہ رہا ہوں کہ کےالیکٹرک کسی کے بس میں نہیں ہمارا کوئی پرسان حال نہیں حکومت بھی بے بس نظر آتی ہے اور ویسے بھی میں اپنے بھائی کے بارے میں بتا رہا تھا وہ جنرل گروپ میں امتحان دے رہا اسے دوپہر کی شفٹ میں آنا ہوتا ہے اور جہاں تک نقل کا تعلق ہے میں تو خود اس کے خلاف ہوں بس یہی بات تھی اور کچھ نہیں میرے ذہین میں جو بھی تھا بتا دیا پلیز اب مجھے جانے دیں،، یہ کہہ کر ارسلان اپنے گھر کی طرف رخصت ہو گیا وہ تو چلا گیا لیکن جاتے جاتے کئی حقائق بیان کر گیا یعنی میٹرک کا امتحان دینے والے اس بچے کی باتوں میں اگر کچھ پورا سچ تھا تو وہ کراچی میں ہونے والی بدترین لوڈ شیڈنگ سے متعلق تھا،وہ سچ کہہ رہا تھا کہ موسم گرما کی آمد کے ساتھ ہی کراچی میں گھنٹوں بجلی کی بندش روز کا معمول بن چکا ہے برسوں سے ہوتی اس لوڈ شیڈنگ پر حکمرانوں اور کے الیکٹرک نے جو گل کھلائے اس کے لیے اتنا ہی کہنا کافی ہےشرم تم کو مگر نہیں آتی کتنے افسوس کی بات ہے کہ کراچی کے عوام کو اس اذیت سے نجات دلانے کے لیے حکمرانوں نے اب تک کچھ نہ کیا یہ سوچ کر ماتم کرنے کو دل کرتا ہے کہ ہمارے حکمران75 برسگزرنے کے باوجود بھی عوام کو ان کی بنیادی ضروریات فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دیتے ہیں مجھے یاد ہے ایک سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا تھا کہ لوڈ شیڈنگ کو2018ء تک ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیاجائے گا،جب کہ اس وقت لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ کم کرنے کی بھی نوید سنائی تھی،اس وقت انہوں نے اپنے بیانات اور خطابات میں اپنی حکومت کی کام یابیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ بلاشبہ ملک میں بجلی گھروں کی تعمیر و تکمیل کے لیے تیز رفتار اقدامات اطمینان بخش ہیں،حکومت نے بر سر اقتدار آتے ہی بجلی کے شدید بحران پر قابو پانے کے لیے کئی منصوبے شرو ع کیے ہیں اس وقت ان کی جانب سے اس مسئلے پر اٹھائے جانے والے اقدامات کا چرچا دنیا بھر میں کیا گیا تھا گو کہ ان کے دور میں بجلی کی پیداوار میں خاصا اضافہ کیا گیا اور لوڈ شیڈنگ میں نمایاں کمی بھی آئی لیکن مستقبل میں لوڈ شیڈنگ نہ ہونے کے وعدوں اور دعووں کا کیا ہوا جس کی نوید وہ سناتے نہ تھکتے تھے حکومت بدلتے ہی پھر سے حالات وہی ہونے لگے اور صرف تین سال کا عرصہ گزرتے ہی ملک ایک مرتبہ پھر اندھیروں میں ڈوب گیا یہی وہ سوالات ہیں جن کی وجہ سے عوام کے ذہنوں میں کئی شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔اور کیوں نہ لیں ظاہر ہے عوام کا سوچنا تو بجا ہے کہ 2018 ءمیں دفن کی جانے والی لوڈشیڈنگ کا ایک مرتبہ پھر سر اٹھانا ان دعوؤں کی نفی کرتا دکھائی دیتا ہے جبکہ اگر پوچھا جائے تو کہا جائے گا کہ یہ سب پچھلی حکومت یعنی پی ٹی آئی کی نااہلی کے باعث ہو رہا ہے جو عوام کو سستی اور میٹھی گولیوں کے دینے کے سوا کچھ نہ کرسکے، ہو سکتا ہے یہ ٹھیک بھی ہو اور ویسے بھی سب جانتے ہیں کہ عمران خان کے دور میں نہ تو کسی میگا پروجیکٹ کا آغاز ہوا اور نہ ہی پچھلے منصبوں کو پایا تکمیل تک پہنچانے کے اقدامات کیے گیے اس سے پہلے کہ میں پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی پر مزید گفتگو کرو ںتنقیدی جائزہ لوں یہ کہہ کر قصہ تمام کیے دیتا ہوں کہ اب وہ برسر اقتدار نہیں لہٰذا نواز شریف کی جانب سے ماضی میں کئے گئے کے اس دعوے کو جس میں انہوں نے باقاعدہ حکم دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ 2018 میں ختم کردی جائے گی کو ہی لے لیتے ہیں۔مجھے اچھی طرح یاد کہ کے اس وقت بھی کے الیکٹرک نے یہ حکم ہوا میں اڑا کر رکھ دیاتھا،اس وقت نہ صرف اس حکم کو ماننے سے انکار کیا گیا بلکہ اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا وہ سلسلہ شروع کردیا گیا تھاجس سے کراچی کے باسیوں کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی تھی۔عوام کو کسی ڈاکٹر کی تجویز کردہ ادویہ کے استعمال کی طرح دن میں تین وقت سات سے آٹھ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ برداشت کرنا پڑی تھی۔اس کے علاوہ فنی خرابی،ٹرانسمیشن لائنوں کی تبدیلی اور ٹرانسفارمر میں ٹیکنکل وجوہ کے نام پرعوام النّاس کو مسلسل اندھیروں میں دھکیلا جانے لگا تھا جو نان اسٹاپ اب تک جاری ہے آج بھی اگر رات کے وقت شہر کراچی کی سڑکوں کا دورہ کیاجائے تو آسانی سے اس بات کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہاں میلوں تک اندھیروں کا راج ہے۔کے الیکٹرک افسران کی جانب سے بنائی جانے والی ،،بجلی بند،، پالیسیوں سے پرانے زمانے کے ایک ایسے گاؤں کی یاد تازہ ہوجاتی ہے،جب دور سے جلتے ہوئے چراغوں کی روشنی دیکھ کر رہائشی آبادیوں کا اندازہ لگایا جاتا تھا۔افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ بے ضمیر اور بے حس کے الیکٹرک انتظامیہ ہر آنے والے دن کے ساتھ عوام کو پتھروں کے زمانے میں دھکیلتی جا رہی ہے۔ معمول سے بڑھتی لوڈشیڈنگ صاف بتا رہی ہے کہ کے الیکٹر ک کے افسران آج بھی کسی کے ماتحت نہیں،اس وقت سے اب تک کی جانے والی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ بتارہی ہے کہ کے الیکٹر ک ایک ایسا بے لگام گھوڑا بن چکا ہے،جو کسی کے قابو میں نہیں۔ادارے کی جانب سے کراچی کے عوام پر مسلط افسران کا رویہ ظاہر کرتا ہے کہ ارباب اختیار کی جانب سے دی جانے والی ہدایت یا حکم نامے کی جگہ ردی کی ٹوکری ہے۔شاید وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ حکمرانوں کی جانب سے کیے جانے والے اعلانات کا عمل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ان کے مطابق سیاسی رہنما عموماً اس قسم کے اعلانات ہر روز کرتے رہتے ہیں،اس لیے کے الیکٹر ک کے افسران نے کبھی بھی کسی کی ہدایات پر عمل کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی یا پھر ان کو اس بات کا پورا علم ہے کہ لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کی ہدایات کسی اور کے لیے ہوتی ہے،کے الیکٹرک کے لیے نہیں۔جو بھی ہو،اس ساری صورت حال میں کراچی کی عوام کو دوہری مصیبت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔یعنی بجلی پوری ملتی نہیں،جب کہ گھریلو صارفین پر ہزار ہزار یونٹ کے بل بنادیے جاتے ہیں،دس سے بارہ گھنٹے بجلی کی بندش اس پر ہزاروں روپے ماہانہ کا بل۔اس صورت حال نے عوام کو نفسیاتی مریض بنا کررکھ دیا ہے۔جس ملک میں ایک ادار ے کی اتنی ہمّت ہو کہ وہ احکامات کاجواب بدترین لوڈشیڈنگ کرکے دے،وہ محکمہ غریب عوام کے ساتھ کیا سلوک کر سکتا ہے اس کا اندازہ لگانا کوئی کام مشکل نہیں۔اگر کے الیکٹر ک کی ناانصافیوں کا جائزہ لیا جائے تو باآسانی اس نتیجے پر پہنچا جاسکتا ہے کہ کراچی سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔اس منہ زور ادارے کے افسران ایک ایسا مافیا بن چکے ہیں،جن کے چنگل سے چھٹکارہ حاصل کرنا کراچی کے عوام کے بس کی بات نہیں۔ان حالات میں عوام جائیں تو جائیں کہاں اس محکمے کی من مانیوں کی شکایت کس سے کریں؟ کس سے فریاد کریں کسے مسیحا جانیں کون سے درپہ جائیں جہاں ان کی شنوائی ہوسکے،اب2022 آ چکا ہے حکومت بدل چکی ہے کہنے کو نئے حکمران ہیں مگر چہرے وہی پرانے ہیں یعنی پھر سے لوڈشیڈنگ کو دفن کرنے والوں کا دور آ گیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ میاں شہباز شریف کراچی سمیت ملک بھر میں جاری لو ڈ شیڈنگ کو قبر میں اتارنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں یا نہیں اور وہ کون سا قبرستان ہوگا،جہاں لوڈشیڈنگ کو اپنے بڑے بھائی سابقہ وزیراعظم کے دعوے کے مطابق منوں مٹی کے تلے دفنائیں گے۔ ۔اگر ایسا نہ ہوا تو عوام یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ نیپرا اور کے الیکٹرک ہمیشہ ہر حکومت کو بجلی کے منصوبوں سے لاعلم رکھتی ہے اور عوام یہ بھی سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ اگر ایسا ہے تو پھر حکمرانوں کی جانب سے کئے گئے اعلانات کو وہ کس ذمرے میں دیکھیں؟آخر میں میری موجودہ حکومت سے بس یہی التجا ہے کہ وہ من مانی کرنے والے افسران خاص طور پر کے الیکٹرک جیسے بدعنوان ادارے پر گہری نظر رکھیں اور کے الیکٹرک کو ان کفن چور افسران سے بچائے جو کسی کی بھی قبر کھودنے سے گریز نہیں کر تے۔ایسے ہی افسران کی وجہ سے آج کراچی سمیت پورا ملک اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے میں مانتا ہوں کہ حکومت کی جانب سے کیے گئے اقدامات سے شاید لوڈ شیڈنگ وقتی طور پر تو ختم ہو جائے لیکن یہ مستقل حل نہیں اس کے لیے ضروری ہے کہ نیپرا خاص طور پر کے الیکٹرک جیسے اداروں سے کالی بھیڑوں کا صفایا کیا جائے راشی افسران کی جگہ اچھی شہرت رکھنے والے باکردار افراد کو تعینات کیا جائے جبکہ پہلی فرصت میں ملک سے باہر بیٹھے عارف نقوی جیسے ہزاروں کرداروں سے جان چھڑانے کی پالیسی پر عمل کیا جائے تبھی اس شہر سے اندھیروں کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے بصورت دیگر کے الیکٹرک کے ظلم و ستم سے نجات حاصل کرنا ممکن نہیں!!

حصہ