ڈاکٹر علامہ اقبال
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
ستم ہو کہ ہو وعدۂ بے حجابی
کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں
یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں
کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہلِ محفل
چراغِ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں
اکبر الٰہ آبادی
دل مرا جس سے بہلتا کوئی ایسا نہ ملا
بت کے بندے ملے اللہ کا بندہ نہ ملا
بزمِ یاراں سے پھری بادِ بہاراں مایوس
ایک سر بھی اسے آمادۂ سودا نہ ملا
گل کے خواہاں تو نظر آئے بہت عطر فروش
طالب زمزۂ بلبلِ شیدا نہ ملا
واہ کیا راہ دکھائی ہے ہمیں مرشد نے
کردیا کعبے کو گم اور کلیسا نہ ملا
سیّد اٹھّے جو گزٹ لے کے تولاکھوں لائے
شیخ قرآن دکھاتا پھرا پیسا نہ ملا
داغ دہلوی
خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا
جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا
دل لے کے مفت کہتے ہیں کچھ کام کا نہیں
اُلٹی شکائتیں ہوئیں، احسان تو گیا
دیکھا ہے بُت کدے میں جو اے شیخ! کچھ نہ پوچھ
ایمان کی تو یہ ہے کہ ایمان تو گیا
افشائے رازِ عشق میں گو ذلتیں ہوئیں
لیکن اُسے جتا تو دیا، جان تو گیا
گو نامہ بر سے خوش نہ ہوا، پر ہزار شکر
مجھ کو وہ میرے نام سے پہچان تو گیا
بزمِ عدو میں صورتِ پروانہ دل میرا
گو رشک سے جلا ترے قربان تو گیا
ہوش و حواس و تاب و تواں داغ جا چکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا
فانی بدایونی
اک معمّہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا
زندگی بھی تو پشیماں ہے یہاں لا کے مجھے
ڈھونڈتی ہے کوئی حیلہ مرے مر جانے کا
تم نے دیکھا ہے کبھی گھر کو بدلتے ہوئے رنگ
آؤ دیکھو نہ تماشا مرے غم خانے کا
اب اسے دار پہ لے جا کے سُلا دے ساقی
یوں بہکنا نہیں اچھّا ترے دیوانے کا
دل سے پہنچی تو ہیں آنکھوں میں لہو کی بوندیں
سلسلہ شیشے سے ملنا تو ہے پیمانے کا
ہڈّیاں ہیں کئی لپٹی ہوئی زنجیروں میں
لیے جاتے ہیں جنازہ ترے دیوانے کا
ہر نفَس عمرِ گزشتہ کی ہے میّت فانی
زندگی نام ہے مر مر کے جیے جانے کا
بیخود دہلوی
وعدے کا ذکر، وصل کا ایمان، وفا کا قول
یہ سب فریب ہیں دل شیدا کے واسطے
اے ضبط گریہ خاک میں مل جائے کاش تو
آنکھیں ترس گئیں مری دریا کے واسطے
وحشت یہ کہہ رہی ہے دلِ داغ دارکی
اس باغ کی بہار ہے صحرا کے واسطے
مایوس آرزو بھی ہوں مانوسِ یاس بھی
دل میں جگہ نہیں ہے تمنا کے واسطے
میر مہدی مجروح
شغلِ الفت کو جو احباب برا کہتے ہیں
کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیا کہتے ہیں
کیا ہے آبِ دمِ خنجر سے وہ تیرے افزوں
جس کو تعریف سے سب آبِ بقا کہتے ہیں
جان دینے کے سوا اور بھی تدبیر کریں
ورنہ یہ بات تو ہم اس سے سدا کہتے ہیں
دے دیا دل ہی تو بدگوئی کا شکوہ کیا ہے
آپ جو کچھ مجھے کہتے ہیں بجا کہتے ہیں
سیم تن اس کو کوئی کہنے لگا کوئی پری
بولا مجروحؔ سے پوچھو کہ وہ کیا کہتے ہیں
ریاض خیرآبادی
سایہء تاک میں واعظ کو جگہ دی ہم نے
آج شیشے میں اسے ہم نے اتارا کیسا
قرض لایا ہے کوئی بھیس بدل کر شاید
مے فروشوں کا ہے واعظ سے تقاضا کیسا
جب یہ مل جائیں کلیجے سے لگائے ان کو
ان حسینوں سے کسی بات کا شکوہ کیسا
منشی نوبت رائے نظر
یاسو ناکامی سے بے حس قلب مضطر ہوگیا
اب ترا ملنا نہ ملنا سب برابر ہوگیا
وہ نگاہِ شرمگیں ہو یا کسی کا انکسار
جھک کے جو مجھ سے ملا وہ ایک خنجر ہوگیا
اس سے بڑھ کر اور کیا ہے سادہ لوحی عشق کی
آپ نے وعدہ کیا اور مجھ کو باورہوگیا
خاکساری کی جو عادت تھی تو آخر اے نظرؔ
خاک میں ملنے کے قابل جسم لاغر ہوگیا
ضامن علی جلال
اس سے کچھ ذکر مرا بھی دلِ ناشاد رہے
وقت پر پھول نہ جانا یہ تجھے یاد رہے
کسی بے درد کو میں حال سنا لوں اپنا
نالہ خاموش رہے چپ ابھی فریاد رہے
روح جنت میں نہ دل ہم میں نہ ہم مدفن میں
تیرے آوارہ پسِ مرگ بھی آباد رہے
اب کسی سے یہ کہیں گے کہ ہمیں رنج ہی دے
شاد ہونے کی تمنا میں تو ناشاد رہے
خیر بھولے نہیں وہ تیری وفائوں کو جلالؔ
یہ غنیمت ہے کہ جور اپنے انہیں یاد رہے
ثاقب لکھنوی
ہجر کی شب نالہ دل وہ صدا دینے لگے
سننے والے رات کٹنے کی دعا دینے لگے
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
آئنہ ہو جائے میرا حسن اس کے عشق کا
کیا مزا ہو درد اگر خود ہی دوا دینے لگے