دسمبر، جنوری، فروری، مارچ ، اپریل اور مئی، اور آج مئی کی بھی سترہ تاریخ ہے یعنی مئی کا مہینہ بھی آدھے سے زیادہ گزر گیا۔ اف! کب ختم ہو گئیں یہ انتظار کی گھڑیاں کب کوئی مجھے پیار سے اپنائے گا اور مجھے سارا سارا دن لے کر گھومے گا۔ ہائے… اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔
یہ… یہ… سامنے والی دوکان تو دیکھوہر وقت یہاں رش لگا ہوتا ہے۔ دس سال سے لے کر بیس سال تک کے نوجوان سب نظر آئیں گے۔ سنا ہےیہاں گیمز اور فلموں کی سی ڈیاں ملتی ہیں۔ جب سے یہ چیزیں بنی ہیں بچوں نے کتابیں پڑھنا ہی چھوڑ دیں ہیں۔ ہائے! وہ بھی کیا زمانہ تھا جب طالب علموں کے ہاتھوں میں کتابیں ہوتیں تھیں کبھی درخت کے نیچے بیٹھے پڑھ رہے ہیں اور کبھی پڑھتے پڑھتے سینے سے لگا کر سو جاتے تھے۔ میں اپنے خیالوں میں اتنا محوتھی کہ دکان میں کسی کے آنے کا مجھے پتا ہی نہیں چلا لیکن شو کیس کھلنے کی آواز نے مجھے ایک دم چونکا دیا تھا ۔ بک کیپر نے مجھے اٹھایا اور ایک کپڑے سے گرد جھاڑی اور سامنے کھڑے ہوئے ایک نو عمر لڑکے کے حوالے کر دیا۔ لڑکے نے نہایت شوق سے میرا ٹائٹل دیکھا اس کی آنکھوں میں ایسی چمک تھی جیسے اسے کوئی خزانہ مل گیا ہو۔
’’جی بالکل مجھے یہی کتاب چاہیے تھی۔‘‘ اس کے لہجے میں دبا دبا سا جوش تھا۔ اس نے میری قیمت ادا کی اور اپنے ساتھ لے آیا۔ انتظار کی گھڑیاں اب ختم ہو گئی تھیں۔
وہ مجھے بہت پسند کرتا مجھے بار بار پڑھتا اور میری باتوں پر عمل کرتا۔ اب تو وہ بڑا ہو کر قابل ڈاکٹر بن گیا ہے لیکن میں اب بھی اس کی کتابوں کی الماری میں موجود ہوں۔