ریلیف کا کام کیا ہے؟ ریلیف یہ ہے کہ انسانوں کی زندگی کو پُرسکون بنایا جائے‘ دکھ درد‘ ذہنی اور جسمانی دور کیے جائیں‘ انسان میں خود یہ صلاحیت نہیں کہ وہ زندگی کے ہر مرحلے پر پُرسکون زندگی کے لیے کیا کرے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے کتابیں دیں اور آخری کتاب قرآن میں ان سب کی Summry بیان کرکے نبیؐ کے ذریعے عملی طور پر پُرسکون زندگی کا ماڈل دکھا دیا۔ صحابہؓ انفرادی اور اجتماعی طور پر انسانوں کا دکھ درد دور کرنے کا فریضہ انجام دیتے رہے۔
حضرت اسماء بنت ابوبکرؓ نے اپنے گھر کے ایک حصے کو کلینک بنا دیا تھا۔ لوگ اپنے بچوں کو بخار میں لے کر ان کے گھر آتے اور وہ پانی کے ذریعے بخار اتارتیں۔ واضح رہے کہ یہ پانی کا اہتمام اُس وقت مریضوں کے لیے کیا جاتا۔ جب کہ پانی کی شدید کمی تھی اور پینے کے لیے پانی بھی مشکل سے ملتا تھا۔
حضرت عمرؓ راتوںکو تلاش کرتے کہ کسی کو صحت یا بھوک کا مسئلہ تو نہیں۔ حضرت عمرؓ ایک گھر کے پاس پہنچے‘ بچے رو رہے تھے‘ چولہے پر ہانڈی تھی۔ آپؓ نے بچوں کی رونے کی وجہ دریافت کی۔
جواب میں ماں نے بتایا کہ یہ بھوک سے رو رہے ہیں۔ میں نے برتن میں پانی بھر کر چولہے پر رکھا ہے تاکہ یہ سمجھیں کھانا تیار ہو رہا ہے اور اس کے انتظار میں سو جائیں۔
حضرت عمرؓ خود سامان اٹھا کر لائے اور کھانا تیار کرنے کا کہا۔ عورت نے سامان لے کر شکریہ ادا کیا اور تاثر دیا کہ آپ جائیں۔
حضرت عمرؓ نے فرمایا ’’میں نے ان بچوں کو روتے ہوئے دیکھا ہے‘ اب یہ کھانا کھالیں تو ان کو ہنستا ہوا بھی دیکھ لوں تو دلی خوشی ہوگی۔‘‘
ریلیف کے کام کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہی اصل خوشی ہے۔
ڈاکٹر کا مریض ٹھیک ہو جائے‘ بھوکے بچے کھانا کھا کر خوش ہو جائیں۔ مریض یا مستحق لوگوں کے آرام پہنچانے کے بعد جو ان کے چہروں پر اطمینان اور خوشی آتی ہے اُسے دیکھ کر دل میں جو خوشی کا احساس ہوتا ہے یہی وہ خوشی ہے جو ریلیف ورکرز کو اطمینان اور سکون دیتی ہے۔ یہی وہ انعام ہے جو ریلیف کا کام کرنے سے ہوتا ہے۔
واقعہ:
ہم بھینس کالونی میں فلاحی کام کرنے والی عظیم خاتون مریم باجی کے گھر میڈیکل کیمپ ہر ہفتے کرتے تھے۔ پیما ریلیف نے سیلاب زدگان کے لیے الخدمت کے کیمپس میں کلینک بنائے تھے۔ سیلاب زدگان میں سے 90 فیصد سے زائد تو واپس اندرون سندھ چلے گئے‘ ایسے لوگ جن کے علاقے میں سیلاب نے مکمل تباہی مچا دی تھی‘ رہ گئے۔ ان کے لیے پیما ریلیف نے ہر ہفتے اسی جگہ مریم باجی کے گھر میڈیکل کیمپ کا سلسلہ شروع کیا جو کئی سال جاری رہا۔ میں اس کیمپ کا انچارج تھا۔ ایک اماں جن کا نام اللہ رکھی تھا‘ شوگر کی مریضہ تھیں۔ ان کا علاج کیا گیا‘ وہ کہتی ’’اے ڈاکٹر! میری میٹھے کی بیماری کا علاج کرا دو‘ مجھے نظر نہیں آتا‘ میری آنکھوں کا علاج کرا دو… میں نے مدینہ دیکھنا ہے۔‘‘
اماں جب بھی کلینک آتیں درود شریف پڑھتی رہتیں۔ انہیں صلی اللہ علیہ وسلم یاد تھا‘ پڑھی لکھی نہیں تھیں۔ شوگرکے لیے دوا دی‘ اماں کا جذبہ اتنا تھا کہ وہ سوکھی ڈبل روٹی پانی میں بھگو کر کھاتیں‘ سبزی کھاتیں‘ بس ٹھیک ہونا چاہتی تھیں۔ اماں کو دیکھ کر مجھے زندگی میں پہلی مرتبہ پتا چلا ’’مدینہ کے عاشق‘‘ کیسے ہوتے ہیں۔ دو ماہ میں اماں کی شوگر تقریباً نارمل ہوگئی۔ ڈاکٹرشایان صاحب اس وقت آدم جی اسپتال میں پیما ریلیف کے تحت آنکھوں کا آپریشن کرتے تھے۔ اماں کو ٹرانسپورٹ کی سہولت مہیا کی۔ ان کی موتیا کا آپریشن ہوگیا‘ اماں بہت خوش تھیں بولیں ’’ڈاکٹر اب میں مدینہ دیکھ سکتی ہوں۔‘‘ اماں آنکھوںکے ڈاکٹر کو بہت دعائیں دے رہی تھیں۔ انہوں نے پوچھا ’’ناں کی اے ڈاکٹر دا؟‘‘ (ڈاکٹر کا نام کیا ہے؟) بتایا ڈاکٹر شایان شادمانی۔ کہنے لگیں ’’مجھے اتنا لمبا نام یاد نہیں رہے گا‘ میں مدینے جا کر دعا کروں گی اللہ اسے ترقیاں دے‘ صحت دے‘ اس کے خاندان کی حفاظت کرے۔‘‘
اماں عمرے پر چلی گئیں واپس آئیں تو کھجور اور آب زم زم لائیں۔ کہنے لگیں میں نے تم سب اور آنکھ والے ڈاکٹر کے لیے ترقی کی دعا کی تھی مکہ مدینہ جا کر۔ اماں بالکل پڑھی لکھی نہیں تھیں‘ انہیں یہ بھی پتا نہیں تھا کہ مکہ مدینہ الگ الگ جگہ ہیںعشق مصطفیؐ کی سچی عاشق۔ میں ڈاکٹر شایان کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں۔ ایسے معصوم لوگ ان کے لیے مدینہ میں دعا کرتے ہیں۔
اماں کی دعا کی قبولیت ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لی۔ ڈاکٹر شایان کسی دوسرے کے اسپتال میں ان مریضوں کا مفت آپریشن کرتے تھے۔ اللہ نے انہیں ترقی دی‘ ان کی ٹیم نے POB اسپتال بنا دیا۔ وہ اسپتال بھی ان لوگوں نے ڈاکٹر شایان کی ٹیم کو دے دیا۔ اس کے علاوہ شہر میں 3 اور نئے اسپتال ڈاکٹر شایان کی ٹیم نے بنا دیے۔ آنکھوں سے دیکھ لیا کس طرح اللہ نیکیوں کو پروان چڑھاتا ہے۔
اس مثال سے پتا چلا کہ انسانوں میں چند افراد جو شکر گزار ہوتے ہیں وہ انسان کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں اور ریلیف کرنے والے اس کی ٹیم کو بھی ترقی ملتی ہے۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال مبارک کا مفہوم ہے ’’جو انسان کا شکر ادا کرتا ہے وہ اللہ کا بھی شکر ادا کرتا ہے۔‘‘ (روایہ جامع ترمذی)
میں سول اسپتال دل کے وارڈ کی ایمرجنسی میں ڈیوٹی پر تھا۔ یہ ہائوس جاب کے بعد دل کے وارڈ کا واقعہ ہے۔ صبح 4 بجے ایک مریض ایمرجنسی میں آیا۔ اس کا دل کام نہیں کر رہا تھا۔ شدید تکلیف میں تھا۔ اس مریض کا ایمرجنسی میں علاج کیا۔ تقریباً ساڑھے چار بجے اسپتال کے ایم ایس کا فون آیا۔ یہ مریض کس نے دیکھا ہے۔ ہمارے سینئر ڈاکٹر نے بتایا ڈاکٹر خالد نے۔ انہوں نے کہا بات کرائو۔ فون پر کہنے لگے کیا اچھے طریقے سے دیکھا ہے‘ وہ وی آئی پی مریض ہے۔ میں نے کہا ہم ہر مریض کو وی آئی پی سمجھ کر دیکھتے ہیں۔ مطمئن ہوگئے۔
صبح سینئر ڈاکٹرز‘ میڈیکل کے پروفیسر صاحب بھی آگئے۔ مریض کو CCU شفٹ کیا گیا۔ دل کے ایمرجنسی ٹیسٹ ہوئے۔ Echo میں پتا چلا کہ اس کے دل کا کافی حصہ ناکارہ ہے۔ اس کے رشتے دار نے بتایا کہ پہلے یہ پینے پلانے کا کام کرتا تھا۔ اب چھ ماہ سے اس نے توبہ کی ہے تو شدید بیمار ہوگیا۔ یہ فرد وزیر صحت کی پارٹی کا تھا اور صدر پاکستان کا بھانجا تھا۔ CCU کے باہر پہرہ لگا دیا گیا۔ سینئر ڈاکٹرز نے بتایا کہ بہت کم چانس ہے صحت یابی کا۔ صبح ہوتے ہی CCU کے قریب غریب لوگ آکر بیٹھنے لگے۔ عورتیں‘ بچے‘ بوڑھے تقریباً 150 افراد تھے جو اس کے لیے دعائیں کر رہے تھے۔
اس کے قریبی دوست نے بتایا کہ یہ 100 بیوہ اور بہت سے یتیموں کا ماہانہ خرچ اٹھاتا ہے اور یہ کام رازداری سے کرتا ہے۔ اس کے اکثر رشتے داروں کو بھی اس کا علم نہیں تھا۔
یہ مسکین‘ یتیم‘ بیوہ دعائیں کر رہے تھے۔ مہینے کی 30 تاریخ تھی اور پہلی دوسری تاریخ کو ان سب کو ان کے گھروں کا خرچا یہ مریض دیتا تھا‘ وہ دعائیں کر رہے تھے‘ اللہ اسے پہلی تاریخ سے پہلے صحیح کر دے۔ شام کو ہمارے سینئر کارڈیالوجسٹ چیک کرنے گئے۔ حیران رہ گئے‘ معجزہ ہو گیا۔ مریض بالکل ٹھیک لگ رہا تھا۔ BP ‘ نبض بہتر تھی‘ آکسیجن کی ضرورت نہیں رہی۔
کارڈیو اور میڈیکل کے سینئر پروفیسرز حیران تھے۔ اللہ نے مسکینوں‘ بیوائوں اور یتیموں کی سن لی اور مریض اتنی جلدی صحت یاب ہوگیا۔ ان غریبوں کے چہروں پر خوشی تھی۔
ریلیف کا کام کیا ہے؟ اس کا ٹارگٹ کیا ہے؟ ریلیف میں کام کرنے والے کو کیا فائدہ ہوتا ہے؟ یہ سوالات ہم نے سینئر ڈاکٹر سید کوثر بخاری صاحب سے کیے۔
جواب دیا کہ ریلیف کے کام کی بنیاد یہ آیت ہے ’’کیا تیرے رب کی رحمت یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں؟ دنیا کی زندگی میں ان کے وسائل کو ان کے درمیان ہم نے تقسیم کیا ہے اور ان میں سے کچھ لو گوں کو دوسروں سے زیادہ دیا ہے تاکہ یہ ایک دوسرے کے کام آئیں اور تیرے رب کی رحمت اس دولت سے زیادہ قیمتی ہے جو یہ جمع کر رہے ہیں۔‘‘ (سورہ الزحزف‘ آیت 32)
اللہ تعالیٰ نے ٹارگٹ بتا دیا کہ خود بھی خوفِ غم سے پاک‘ پُرسکون زندگی گزاریں اور دوسروں کے لیے بھی زندگی کو پُرسکون بنائیں۔
ڈاکٹر ساجد جمیل صاحب نے ریسرچ کی اور یہ آیات بتائیں۔ قرآن مجید میں خوف و غم سے پاک زندگی کا بار بار تذکرہ آیا ہے۔ سورہ بقرہ میں 6 مرتبہ‘ سورہ آل عمران میں ایک مرتبہ‘ سورہ مائدہ میں ایک مرتبہ‘ سورہ انعام میں ایک مرتبہ‘ سورہ اعراف میں 2 مرتبہ‘ سورۃ یونس میں 2 مرتبہ‘ سورہ الزحزف میں ایک مرتبہ‘ سورہ احقاف میں ایک مرتبہ یہ آیت آئی ہے۔
پُرسکون زندگی کا فارمولا یہ ہے کہ دوسروں کی زندگی سے دکھ‘ درد‘ خوف کم کرو۔ آپ کے خوف و غم دور ہوں گے۔ زندگی پُرسکون ہوگی‘ کسی کو آرام دے کر اس کے چہرے کو دیکھو جو اس پر اطمینان ہوتا ہے اسے دیکھ کر جو کیفیت پیدا ہوتی ہے وہی اصل خوشی ہے۔
یہ ریلیف کے کام کا اصل فائدہ ہے۔