زندگی کی گاڑی’’آرزو ‘‘کے ایندھن سے چلتی ہے۔ یہ دلی جذبات سے جڑ تے ہی ذہن کو دلیل بھی فراہم کرتی ہے۔ وہی آرزو محترم ہوتی ہے جس کی پہچان عمل سے ہوتی ہے۔ آرزو کے تب و تاب سے انسان کی زندگی میں جذبات کی بھٹیاں سلگتی رہتی ہیں جس سے برفیلے مسائل کی چٹانیں پگھلنے لگتی ہیں۔ یہ جب کسی مبہم خیال کے جسم و جاں میں ڈھلتی ہیں تو سادہ ذہنوں کو بھی جستجو، تلاش اور تخلیق کی مشکل راہوں پر ڈال دیتی ہیں اور انھیں سہارا دے کر بلندیوں تک لے جاتی ہیں۔ بصارت کو بصیرت میں بدل دیتی ہے۔ نظر کو نظریہ، چہل قدمی کو پیش قدمی اور معمولی بات کو مہمات میں بدل دیتی ہے۔ اس کے برعکس سادہ آرزویں، لمحاتی تمنائوں میں جل بجھ جاتی ہیں۔ کچی آرزوئوں کے نشانے ہدف کی چھاتیوں کو چھو نہیں سکتے۔ جن آرزئوں کی نشوونما میں سہولت بخش راستوں کا انتخاب ہوتا ہے وہ راہوںکی پگڈنڈیوں میں گم ہوجاتی ہیں۔ تمنائوں کے نگارخانے میں حماقت مآب وسوسوں کو کبھی بھی تخلیقی خیال کا درجہ نہیں ملتا۔
آرزو کے لفظ کو ہم کبھی رومانی کردار میں ڈوبے کسی عاشقِ زار کے فسانے تک محدود کر دیتے ہیں۔ یہ کام ایسا ہی جیسے کہ ہم نے بچوں کو ملکوں کی بادشاہت دے دی ہو جب کہ آرزو تو ہر بڑے مقاصد کا شکار کرتی ہے۔ Intellectual starvation جیسے موضوع پرسوچتے ہوئے جب ہم قیادت و صلاحیت کا رونا روتے ہیں تب دراصل آرزو کے قحط اور آرزو مندوں کی کمی کا رونا روتے ہیں جو حقیقت میں آرزئوں کی محرومی ہے۔ ’’قحط الرجالـ‘‘ کا سبب بنتی ہے۔ آرزو منتشر موج کو منظم طوفان بنا دیتی ہے۔ اسی کے سبب ہر ذرہ ایک چٹان بن جاتا ہے۔ نکھری ہوئی آرزویں فرد کو ایک مضبوط قوم اور متحد ملک بناتی ہیں۔ آرزو کی ٹھوکر سے علوم کے چشمے کی پھوٹ پڑتے ہیں۔ اسی کے سبب آج چاند کی پیشانی پر خلائی جھومر دمکتا ہے۔ مقاصد کے حصول میں شکست ِ آرزو بھی بڑی چیز ہوتی ہے۔ آرزوئوں کا نورانی پیکر اگر ٹھوس تقاضوں سے ٹکرا جائے تو وہ بکھر کر تاروں کی طرح چمکتا اور پھیل جاتا ہے۔ آرزو کے آزار کو اگر ہم سمجھ جائیں تو پھر رکاوٹ اور لمحاتی ہار سے کچھ نہیں ہوتا۔ بھرپور شکست کے بعد بھی سینوں میں اگر ہلکا سا شرارِ آرزو بھی باقی ہے تو بہت کچھ ممکن ہوتا ہے۔ ورنہ آرزو کے نکلتے ہی مایوسیوں کا ہجوم داخل ہوتا ہے۔ مقاصد مبہم، راستہ جوکھم اور وسائل بھی کم کم نظر آتے ہیں۔ دلوں کے ولولے کم ہونے لگتے ہیں۔
مستقل مزاجی سے اپنی تمنائوں کی تکمیل پر جٹے رہنا اور کسی سرسری بات کی چاہ میں ہٹ دھرمی سے ڈھٹائی دکھانے میں بڑا اور فرق‘ بنیادی اقدار اور سماجی خیر کا ہوتا ہے۔ ہٹ دھرمی کسی انکار کی کوکھ سے اور مستقل مزاجی کسی پاکیزہ خیال سے پیدا ہوتی ہے۔ ہٹ دھرمی ایک ردعمل اور مستقل مزاجی پیش قدمی سے پہچانی جاتی ہے۔ جس میں آرزوکی آبرو بچائے رکھنے کی حکمت ہوتی ہے۔ ایک دانش سے تمسخر کرتی ہے اور دوسری حکمت کا تحفظ کرتی ہے۔ ہٹ دھرمی ہلاکت خیز ہوتی ہے اور مستقل مزاج آرزو حیات افروز ہوتی ہے۔ کسی خیال کی ترنگ اور کسی حسین قدر کی امنگ میں جو فرق ہوتا ہے وہی ان دونوں میں ہوتا ہے۔ یہ امکانات کے نئے جہانوں کا پتا دیتی ہے۔ یہ جیت کو نئی زمین اور نیا جغرافیہ دیتی ہے۔ جو آرزو کھوتا ہے وہ ریزہ ریزہ ہوکر مٹی میں رُل مل جاتا ہے۔ نکھری آرزئوں کا مالک ٹال مٹول کو ٹھکرانے کا ہنر جانتا ہے۔ ویسے تو ہر آدمی جذبات کی چاکری کرتا ہے۔ فرق صرف محترم آرزوئوں کی سلطنت کی شہریت کا ہے۔ وحشی تمنائوں کے جنگلوں میں آدمیت کے پھٹے لباس میں جینا کون سا مشکل کام ہے۔ تہذیب ِنفس بڑے نظم و ضبط کے بعد ہاتھ آتی ہے۔ کچھ باصلاحیت لو گ اپنی (روٹی،کپڑا اور مکان) کی ضرورت پوری ہونے پر خرچ ہوگئے۔ چند تو یوں ہی چند کلیوں پر قناعت کرگئے ورنہ کل کائنات ان کے نام ہوسکتی تھی۔ یہ آرزوئوں کے سمٹنے کا سبب ہوتا ہے۔ اکثر بھیڑ تو ان کی دماغوں کی ہوتی ہے جو ’’غیر متعلق‘‘ جینے کو محفوظ جانتے ہیں۔ آرزو کے ناز نہیں اٹھاتے۔ جن کی شخصیت جذبات کے تزکیہ سے نہیں گزرتی ہے۔ یہ بنیادی لیکن اہم بات ہے کہ شخصیت رویوں کا سراپا انتخاب بن جاتی ہے۔ انسان کی پہچان ہی آرزو کے عرفان سے ہے ورنہ انسان جیسی نادان کوئی اور مخلوق نہیں۔
علامہ اقبال ؔنے بارہا اس لفظ پر اصرار کیا اور بتایا کہ انسانی زندگی میں خارج کی تب و تاب بلندیوں کی سفر کی محرک نہیں ہوتی۔ اس کی اوّلین ضرورت اندر کی دنیا کی آرزو ہے۔
نہ اُٹھا جذبۂ خورشید سے اک برگِ گُل تک بھی
یہ رفعت کی تمنا ہے کہ لے اُڑتی ہے شبنم کو
ہر اقبالؔ شناس جانتا ہے کہ لفظ ’’آرزو‘‘ کو علامہ اقبال ؔنے 189 مرتبہ اپنے اشعارمیں باندھا ہے۔ اس کے مترادفات کی دنیا اور وسیع ہے۔ انھیں ایک غلام ہندوستان میں حریت فکر اور غلامی کی ہر جہت سے نجات دلانے کے لیے اس سے زیادہ کار آمد لفظ اورکیا ہوسکتا تھا۔ اس لیے محترم آرزوئوں کا نصاب اگر حیات طلب کرے تو اقبال ؔکی متاعِ فکر میں وافر سرمایہ موجود ہے۔ اس کی بنیاد پر جو زندگیاں استوار ہوتی ہیں وہ اپنے علمی مہمات میں درپیش سرسری مطالعہ کو بھی قوت ِ حافظہ کے ہنر سے دائمی یادداشت میں بدل دیتی ہیں۔ ان کے ذہن و دل کا اضطراب سکھ چین و اطمینان میں ڈھل جاتا ہے۔ ہر طرح کی بے سبب مایوسیاں مسرتوں کا رنگ روپ اپنا لیتی ہیں۔ خوف و دہشت کا گھیراو اعتماد اور پیش قدمی سے جڑ جاتا ہے اور نتیجتاً ہر طرح کی شکست فتح میں بدل جاتی ہے۔ سماجی روابط ہو کہ معاملات‘ سب اسی آرزوکے تمدنی معاہدے ہوتے ہیں۔ ہر تاجر یا بیچنے والا اپنے گاہک یا مخاطب کی پہلے توجہ حاصل کرتا ہے پھر اُس کے دل میں تمنا جگاتا ہے پھر باہمی تال میل سے معاہدہ تمام ہوتا ہے۔ یعنی ہر کامیاب تجارت ایک آرزو کی منتقلی کا نام ہے۔ اگر اس کا دائرہ وسیع ہوجائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ کئی شہروں، قوموں اور فکر و فن کی ترقی ان آرزئوں کی صورت گری کے سبب ممکن ہوسکی۔ جس کی مثال تاج محل و اجنتا کافی ہیں جو سب کے سب تمنائوںکی بدن ہیں۔ اس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ خود کو سینت سمیٹ کر رکھنے کے بجائے کسی محترم آرزو پر اپنے زندگی نچھاور کر دیں ورنہ سستی چاہتوں اور ہنگامی ضرورتوں پر زندگی تمام ہوسکتی ہے۔ اسی لیے اقبال ؔ نے یہ دعا مانگی ہے کہ
تری دُعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری
مری دُعا ہے تری آرزو بدل جائے!