(دوسرا حصہ)
ماہر صاحب کی ایک نمایاں خصوصیت بذلہ سنجی اور فی البدیہہ لطیفہ تخلیق کرنا بھی تھی۔ انہوں نے ایک واقعہ لکھا کہ پاکستان بننے کے بعد لاہور میں انار کلی کے فٹ پاتھ پر اُن کی اور ظفر احمد انصاری کی شفیق کوٹی سے ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے گھر پر دعوت دی، ماہر صاحب نے کہا کہ جگر مراد آبادی ان دنوں لاہور میں ہیں‘ اُنہیں بھی دعوت میں بلائیے۔ شفیق کوٹی صاحب نے نفی میں جواب دیا، وجہ یہ بیان کی کہ جب بھی ان سے ملتا ہوں وہ فرماتے ہیں ’’تم ریلوے میں نوکر ہو۔‘‘ انہوں نے بارہا تردید کی کہ وہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر ہیں‘ ریلوے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس پر ماہر صاحب نے ان سے پوچھا کہ ان کی ملاقات 1941ء سے ہے جب وہ بمبئی میں ایک مشاعرے میں آئے تھے، پھر کہا ’’تو سنئیے، میں بھی اب تک یہی سمجھ رہا تھا کہ آپ ریلوے میں ملازم ہیں۔‘‘ اس پرشفیق صاحب بے ساختہ اچھل پڑے اور ظفر احمد انصاری بھی ہنسنے لگے ۔
ان کی شگفتہ مزاجی کا ایک قصہ سنتے چلیں۔ جنرل اعظم ان دنوں مشرقی پاکستان کے گورنر تھے (یہ غالباً 1958 کے مارشل لاء کا ذکر ہے۔) گلستان ڈھاکہ کا مشہور سنیما ہے اس میں مشاعرہ منعقد ہوا۔ جنرل موصوف نے بھی شرکت فرمائی۔ کسی شاعر کو اس کے شعر پر زیادہ داد ملتی تو وہ غالباً اپنی گوش گزاری کے سبب اپنی بیگم صاحبہ سے کچھ پوچھتے، ارم لکھنوی نے اپنی غزل کا مطلع پڑھا:
وہ یہ کہتے ہیں جا اب رستگاری ہو گئی
اے جنوں! زنجیر یہ تو اور بھاری ہو گئی
تو ہال تحسین کے شور سے گونج اٹھا۔ اس پر جنرل صاحب نے اپنی بیگم صاحبہ سے سرگوشی کے انداز میں کچھ دریافت کیا۔ جب مشاعرے سے ہم قیام گاہ پر آئے تو میں نے کہا ارم صاحب آپ نے غضب کر دیا۔ مارشل لاء کے دور میں ایسا سیاسی مطلع پڑھ دیا۔
وہ چونک کر بولے اس مطلع کو سیاست سے کیا واسطہ اور یہ غزل تو میں نے تقسیم سے قبل انگریز کے دورِ حکومت میں لکھنئومیں کہی تھی۔ اس مذاق میں اقبال صفی پوی صاحب کی شوخی اور ظرافت نے اور لطف پیدا کردیا اور ارم صاحب کو باور کیا کہ یہ شعرا کے حلقوں میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ معاملہ بڑا سنگین نظر آتا ہے اور بھیا ارم! ہم جانتے ہیں کہ تمہارا سیاست سے دور کا بھی واسطہ نہیں رہا، مگر یہ زنجیراور بھاری ہوگئی۔
اس کی توجیح تو ہماری بھی سمجھ میں نہیں آتی، اس شعر کو یہ معنی پہنائے جا رہے ہیں کہ پچھلے دوروں کے مقابلے میں موجودہ دور سخت تر ہے۔ ارم بے چارے کے چہرے پر فکر و تشویش کی ہوائیاں سی چھٹنے لگیں، کئی دن مذاق کا سلسلہ چلتا رہا اور جب اس مذاق کا راز ان پر کھل گیا، تو برا نہیں مانا۔ (ماہنامہ فاران مارچ 1967)
اس میدان میںعبدالمجید سالک کا نام بھی بہت نمایاں ہے۔ وہ ظفر علی خان کے اخبار زمیندار سے منسلک تھے۔ جلد ہی انہیں ایڈیٹر مقرر کیا گیا لیکن کچھ عرصہ بعد اختلاف کی بنا پرسالک اور غلام رسول مہر نے زمیندار سے الگ ہو کر ایک نیا اخبار انقلاب شروع کیا۔ یہ علحیدگی ظفرعلی خان کے بیٹے اختر علی خان کے رویہ کی وجہ سے ہوئی، اس کی تفصیل بیان کرنا ہماراموضوع نہیں ہے۔ نئے اخبار انقلاب میں سالک صاحب نے ایک کالم افکار و حوادث کے نام سے شروع کیا۔ اس عنوان سے لکھے گئے مضامین بہت مقبول ہوئے۔ ان میں گفتگو کے دوران مزاح پیدا کرنے کی صلاحیت بھی بہت بلند تھی۔
ان دنوں یوپی میں یوپی میں فتنہ ارتداد کے شعلے بند ہوئے آریہ سماجوں نے مسلمانوں کو شدھ کرنا شروع کیا اور ہندوستان بھر کے مسلمانوں میں تبلیغ اسلام کی تحریک برپا ہوئی۔ اس دوران خواجہ حسن نظامی نے اپنے انداز میں تبلیغ اسلامی کی کامیابی کی تدبیریں بتانی شروع کیں۔ خواجہ صاحب ادیب تھے، صحافی تھے لیکن عالم دین نہ تھے تو اپنے انداز میں انہوں نے ایک پمفلٹ شائع کیا جس میں دوسری تدبیروںکے علاوہ ایک یہ تدبیر بھی بتائی کہ طوائفیں جو اکثر مسلمان ہیں اپنے آنے والوں کو مسلمان بنانے کی کوشش کریں۔ اس پر ہندو اخباروں نے مسلمانوں اور ان کے مبلغوں پر بے پناہ حملے کیے اور مسلمان حلقوں میں بھی ہنسی اڑائی گئی۔
خواجہ صاحب نام دینے میں بہت ماہر تھے۔ اپنا نام انہوں نے ’’نظام المشائخ‘‘ اپنایا اور اپنے اخبار میں جھٹکے کے گوشت کو حلال بتایا تو سالک صاحب نے اپنے کالم میں خواجہ صاحب کو خاصا رگڑا دیا۔ ان کا خطاب نظام المشائخ سے بدل کر جھٹکتہ المشائخ تجویز کیا۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے، سالک صاحب ریڈیو پر تقریرکرنے کے لیے دہلی گئے تو خواجہ صاحب کی زیارت کے لیے حاضر ہوئے تو وہ بڑے تپاک سے ملے، تھوڑی دیر بعد وہ درگاہ دکھانے چلے، خواجہ صاحب کے گھر سے ایک زینے پر چڑھ کر دوسری طرف اترے تو ایک معمولی سا کمرہ تھا، خواجہ صاحب نے فرمایا یہ ایمان خانہ ہے۔ سالک صاحب نے کہا اسی پرکیا موقوف ہے، اس نواح کے تو سبھی مکان ایمان خانے ہیں۔ ہم جہاں سے اٹھ کر آئے ہیںکیا وہ بے ایمان خانہ تھا۔ خواجہ صاحب ہنس دیے اورکہنے لگے اور کہنے لگے۔آپ افکار لکھتے ہی نہیں بولتے بھی ہیں۔ اس کے بعد ایک کمرے میںچند طاق دکھائے جن میں سے کسی پر مقامِ آدم‘ کسی پر مقامِ موسیٰ‘ کسی پر مقامِ ابراہیم لکھا تھا۔ ایک مقام خالی تھا۔ میں نے پوچھا یہ ’’کیا ہے؟‘‘ کہنے لگے ’’یہ میں نے اپنے لیے مخصوص کر رکھا ہے۔‘‘ میں نے کہا ’’اس پر لکھ دیجیے’’مقام مخصوص‘‘ یہ سن کر بہت شگفتہ ہوئے۔
سالک صاحب کی خاکوں پر مبنی کتاب ’یارانِ کہن‘۔ اس کی ابتدا میںسالک صاحب لکھتے ہیں ’’یہ کتاب آغا شورش کاشمیری کے توائی ڈالنے کی وجہ سے صرف چند روز میں لکھی گئی ہے۔ اس لیے اگر اس میںکوئی ایسے اسقام نظر آئیں جو اہلِ ذوق کے نزدیک میرے اسلوب تحریر کے شایان نہ ہوں تو اس کی ذمہ داری اسی بلائے بے درماں کے سر ہے جس کو شورش کہتے ہیں اور جس کی کسی ضد سے میں سرتابی نہیںکرسکتا‘‘۔
ان خاکوں میں ایک خاکہ مولانا غلام قادر گرامی کا ہے۔ وہ علامہ اقبال کے قریبی ساتھیوں میں تھے۔ علامہ اقبال کا کہنا تھا کہ گرامی شعر میںتلمیذِ روح الامین ہے اور باقی تمام معاملات میںچغد ہے۔ مولانا کا ایک نوکر تھا غلام محمد۔ بہت نمازی اور پرہیزگار۔ مکان کے پاس ہی مسجد تھی۔ غلام محمد ہر نماز مسجد میں جا کر پڑھتا تھا۔ ایک دفعہ مولانا نے آواز دی ’’غلام محمد!‘‘ کسی نے بتایا ظہر کی نماز پڑھنے گیا ہے۔ دو گھنٹے گزر گئے پھر آواز ’’دی غلام محمد!‘‘ پھر کسی نے بتایا عصرکی نماز پڑھنے گیا ہے۔ بہت بگڑے، کہنے لگے جب دیکھو نماز پڑھنے گیا ہے۔ نابکار قرب مسجد کا ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے۔ یہ ناجائز فائدہ بھی خوب رہا۔
مولانا گرامی بدحواس آدمی تو تھے ہی۔ ایک دن میر محبوب علی خان (آخری حاکم عثمان علی خان کے والد) نظام دکن کا دربار لگا ہوا تھا۔ حسب دستور تمام ارکان دربار اپنے اپنے منصب پر کھڑے تھے۔ مولانا بھی اپنے مقام پر استادہ تھے لیکن ازاربند لٹک رہا تھا حضور نظام کی نگاہ پڑگئی، انہوں نے پیش کار حضوری سے کہا گرامی کو دیکھو ازاربند لٹک رہا ہے اور کچھ ہوش نہیں۔ پیش کار پریشان ہوا کہیں عتاب نہ ہو جائے، جھٹ بات بنائی اور کہا حضور والا گرامی پریشان رہتا ہے۔ یہاںسے جو منصب ملتا ہے وہ نوکر چاکر‘ گھوڑا گاڑی میں خرچ ہو جاتا ہے۔ وطن میں ہمشیرہ کی شادی درپیش ہے (حالانکہ بہن کوئی تھی ہی نہیں)۔ یہ پنجاب کے لوگ لڑکیوںکو جہیز میں سونے کے ٹھوس زیور دیتے ہیں۔ اس لیے بے چارہ فکر مند رہتا ہے۔ میر محبوب علی خان میں پرانے بادشاہوں کی سی فیاضی تھی، حکم دیا کہ گرامی کو پان سیر سونا دے دیاجائے۔
پیش کار نے سارا قصہ سنایا، شام کے وقت مولانا اپنے مکان پر بیٹھے دون کی لے رہے تھے۔ ابھی تو ازاربند لٹک ہی رہا تھا کہ پان سیر سونا ملا۔ اگر کہیںکھل گیا ہوتا تو دس ملتا۔
مولانا گرامی کی ذات دل چسپیوںکی پوٹ تھی مثلاً صبح دس بجے علی بخش نے کہا مولوی صاحب کھانا لیجیے۔ فرمایا واہ علی بخش تم بھی عجیب آدمی ہو ارے ابھی تو ناشتا کیا ہے اور ابھی کھانا کھالوں؟ کوئی ساڑھے دس بجے علی بخش نے کہا مولوی صاحب کھانا لائوں؟ فرمایا پھر تم نے وہی رٹ لگائی۔ ارے میاں! ابھی تو ناشتا کیا ہے۔ علی بخش جا کر اپنی کوٹھڑی میںبیٹھ گیا، ابھی پندرہ منٹ نہ گزرے ہوں گے کہ مولانا برآمدے میں نکل آئے اور چلانا شروع کیا۔ ’’علی بخش… علی بخش!‘‘ وہ بھاگا ہوا آیا۔ ’’حکم…‘‘ مولوی صاحب کہنے لگے۔ ’’بڑے بے درد ہو تم لوگ۔ دوپہر ہونے کو آئی بھوک سے جان نکلی جاتی ہے اور کھانا نہیں دیتے۔ جلدی سے کھانا لائو۔‘‘
ایک دفعہ میں نے نواب سراج الدین احمد خان سائل دہلوی کے متعلق جو کہ ان کے لنگوٹیے یار تھے‘ دریافت کیا کہ ان کی شاعری کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ جواب دیا خامی میں پختہ ہوگیا ہے میاں۔ میں اس جامع مانع رائے کوسن کر پھڑک گیا۔
گرامی صاحب ایک مرتبہ علامہ اقبال کے گھر ٹھیرے تھے۔ ایک دن کھانے پربیٹھے تھے تو کہا علی بخش (گھریلو ملازم) آج کل گوبھی نہیں ملتی؟ عرض کیا بہت ملتی ہے۔ حکم دیا کہ شام کوگوبھی ضرور پکانا۔ شام کو جب گوبھی پک کرسامنے آئی تو پوچھنے لگے یہ کیا ہے؟
کہا گیا گوبھی۔ بگڑ کرکہنے لگے۔صبح گوبھی، شام گوبھی، دن گوبھی، رات گوبھی۔ بڈھے آدمی کو بادی سے مار ڈالو گے کیا؟ علی بخش نے کہا۔ آپ ہی نے حکم دیا تھا۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نے اس سے کہا۔ تم چپ رہو۔ صبح گوبھی کی فرمائش کرنے کے بعد مولوی صاحب اب تک اپنے تصور میں خدا جانے کتنی دفعہ گوبھی کھا چکے ہیں۔ تم بھی سچے اور یہ بھی سچے۔
ایک مرتبہ گرامی صاحب اسلامیہ کالج میں تشریف لائے، طلبا نے ان کا کلام سننا تھا۔ جلسہ انجمن میں اعلان کر دیا گیا کہ جلسے کے خاتمے پر مولانا گرامی حبیبیہ ہال میں اپنا کلام سنا رہے ہیں‘ اربابِ ذوق وہاں تشریف لائیں۔ جب ہال بھر گیا تو میں نے مولانا سے کلام کی فرمائش کی۔ کہنے لگے نہیں پہلے اور لوگ پڑھیں۔ سالک صاحب بے حدپریشان ہوئے کہ اب شعرا کو کہاں سے لائیں۔ اتنے میں منشی میراں بخش جلوہ سیالکوٹی نظر آئے۔ یہ ایک بلند قامت، سیاہ فام داڑھی اور پگڑی اور لمبے کالے چغے والے شاعر تھے۔ پرانے فیشن کے اور بے تکے شعرکہا کرتے تھے اور انجمن کے جلسے میں اکثر آتے تھے۔ میںنے ان سے فرمائش کی۔ مولانا حقے کی نَے منہ میں لیے بیٹھے تھے۔ جلوہ نے ایک غزل سنائی جس کی زمین تھی ’’سحر کی آستیں،قمر کی آستیں۔‘‘ جب مقطع پڑھا
یار کا جلوہ جو دیکھا اُڑ گئے
درزی کے ہوش آستیں کی کمر اورکی کمر کی آستیں
تو مولانا ایک دم کیا فرماتے ہیں’’واہ رے تیری کی کی کی کی‘‘قہقہوں سے ہال گونج اٹھا۔اور جلوہ صاحب بہت مدھم ہوئے۔
اس کے بعد حفیظ جالندھری نے ایک نظم سنائی۔ پھر مولانا نے سالک صاحب سے باصرار ایک فارسی غزل کی فرمائش کی جو انہوں نے پڑھ کر سنائی اور مولانا سے عرض کیا کہ اب اورکوئی نہیں۔ آپ ہی کی باری ہے۔ اس پرمولانا نے کوئی ایک گھنٹہ تک اپنا کلامِ بلاغت نظام سنایا۔
جب یہ جلسہ ختم ہوا تو مولانا شاعری کے آسمان سے اتر کر پھر اپنی عام سطح پر آگئے۔ سالک صاحب نے سید احمد شاہ بخاری کا تعارف کرایا، کہنے لگے تو یہ بخارا کے رہنے والے ہیں؟ پھر تو ہماری غلطیاں نکالتے ہوں گے۔ بخاری یہ سن کر کسی قدر خفیف ہوئے۔ پھر میں نے سید امتیاز علی تاج کو پیش کیا۔ اچھا تو یہ مولوی ممتاز کے صاحب کے صاحبزادے ہیں! مولوی صاحب ہمارے پرانے دوست ہیں‘ یہ کہہ کر امتیاز کے چہرے پر ہاتھ لہرا لہرا کرکہنے لگے واہ بھئی واہ بھئی واہ ۔اس واقعے کے بعد ہم مدت تک مولانا کی اس حرکت کو یاد کر کے امتیاز کو چھیڑاکرتے تھے۔
(جاری ہے)