شعرو شاعری

428

شیخ محمدابراہیم ذوق
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے
بہتر تو ہے یہی کہ نہ دنیا سے دل لگے
پر کیا کریں جو کام نہ بے دل لگی چلے
ہو عمرِ خضر بھی تو کہیں گے بوقتِ مرگ
ہم کیا رہے یہاں ابھی آئے ابھی چلے
دنیا نے کس کا راہِ فنا میں دیا ہے ساتھ
تم بھی چلے چلو یونہیں جب تک چلی چلے
نازاں نہ ہو خِرد پہ جو ہونا ہے وہ ہی ہو
دانش تری نہ کچھ مری دانشوری چلے
کم ہوں گے اس بساط پہ ہم جیسے بدقمار
جو چال ہم چلے سو نہایت بری چلے
جاتے ہوائے شوق میں ہیں اس چمن سے ذوق
اپنی بلا سے بادِ صبا اب کبھی چلے

اکبر الٰہ آبادی
یہ آج وجہ توقف ہے کیا اجل کے لئے
طبیب لکھتے ہیں نسخہ مرا جو کل کے لئے
یہ اضطراب، یہ بے چینیاں، یہ بے تابی
مجھے ہمیشہ سے بجلی کو ایک پل کے لئے
ہوا مقام فنا میں، میں اپنا خود عاشق
سمجھ گیا، یہی موقع تھا اس محل کے لئے
جو دل میں درد محبت اٹھا تو، ہم نے بھی
مزے تڑپنے کے پہلو بدل بدل کے لئے
نہیں ہے منزل ہستی میں فکر زادِ سفر
کہ آج کے لئے ہے، صبر، امید کل کے لئے
خیالِ صورتِ جاناں کا شغل دل کو رہے
عجیب حسن ہے یہ چہرہ عمل کے لئے
ہوا ہوں، خلق میں، جینے کو جھوٹے وعدوں پر
زبان اُن کے دہن میں ہے آج کل کے لئے
میں گھر میں غیر کے کیا اُن سے حالِ دل کہتا
زبان ہی نہ کھلی عرض بے محل کے لئے
خواجہ حیدر علی آتش
سُن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا
کیا کیا اُلجھتا ہے تری زلفوں کے تار سے
بخیہ طلب ہے سینۂ صد چاک شانہ کیا؟
زیرِ زمیں سے آتا ہے جو گل سو زر بکف
قاروں نے راستے میں لٹایا خزانہ کیا؟
اڑتا ہے شوقِ راحتِ منزل سے اسپِ عمر
مہمیز کہتے ہیں کسے؟، اور تازیانہ کیا؟
زینہ صبا کا ڈھونڈتی ہے اپنی مشتِ خاک
بامِ بلند یار کا ہے آستانہ کیا؟
چاروں طرف سے صورتِ جاناں ہو جلوہ گر
دل صاف ہو ترا تو ہے آئینہ خانہ کیا
صیاد اسیرِ دام رگِ گُل ہے عندلیب
دکھلا رہا ہے چھپ کے اسے دام و دانہ کیا
طبل و عَلم ہے پاس نہ اپنے ہے ملک و مال
ہم سے خلاف ہو کے کرے گا زمانہ کیا
آتی ہے کس طرح سے مری قبضِ روح کو
دیکھوں تو موت ڈھونڈ رہی ہے بہانہ کیا
بے یار سازوار نہ ہوئے گا گوش کو
مطرب ہمیں سناتا ہے اپنا ترانہ کیا
صیّاد گُل عذار دکھاتا ہے سیرِ باغ
بلبل قفس میں یاد کرے آشیانہ کیا
ترچھی نگہ سے طائرِ دل ہو چکا شکار
جب تیر کج پڑے گا، اڑے گا نشانہ کیا؟
بے تاب ہے کمال ہمارا دلِ حزیں
مہماں، سرائے جسم کا ہو گا روانہ کیا؟
یوں مدّعی حسد سے نہ دے داد تو نہ دے
آتِش غزل یہ تو نے کہی عاشقانہ کیا؟

بہادر شاہ ظفر
لگتا نہیں ہے جی مرا اُجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالمِ ناپائدار میں
بُلبُل کو باغباں سے نہ صَیَّاد سے گلہ
قسمت میں قید لکّھی تھی فصلِ بہار میں
کہہ دو اِن حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دلِ داغدار میں
ایک شاخِ گل پہ بیٹھ کے بلبل ہے شادمان
کانٹے بچھا دیے ہیں دلِ لالہ زار میں
عُمْرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
دِن زندگی کے ختم ہوئے شام ہو گئی
پھیلا کے پاؤں سوئیں گے کُنجِ مزار میں
کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

انشا اللہ خان انشا
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے، باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
نہ چھیڑ اے نکہتِ بادِ بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹھکھیلیاں سوجھی ہیں، ہم بیزار بیٹھے ہیں
تصور عرش پر ہے اور سر ہے پائے ساقی ہر
غرض کچھ اور دُھن میں اس گھڑی میخوار بیٹھے ہیں
بسانِ نقش پائے رہرواں کوئے تمنّا میں
نہیں اٹھنے کی طاقت، کیا کریں، لا چار بیٹھے ہیں
یہ اپنی چال ہے افتادگی سے اب کہ پہروں تک
نظر آیا جہاں پر سایہء دیوار بیٹھے ہیں
کہاں صبر و تحمل، آہ ننگ و نام کیا شے ہے
یہاں رو پیٹ کر ان سب کو ہم یکبار بیٹھے ہیں
نجیبوں کا عجب کچھ حال ہے اس دور میں یارو
جہاں پوچھو یہی کہتے ہیں ہم بیکار بیٹھے ہیں
بھلا گردش فلک کی چین دیتی ہے کسے انشا
غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں

شیخ محمد قیام الدین قائمؔ
صبر و قرار و ہوش، دل و دیں تو واں رہے
اب تک تو آبرو سے نبھی ہے جہاں رہے
دنیا میں ہم رہے تو کئی دن پر اس طرح
دشمن کے گھر میںجیسے کوئی میہماں رہے
اے دیدہ دل کو روتے ہو کیا تم ہمیں تو یاں
یہ جھینکنا پڑا ہے کسی طرح جاں رہے
قسمت تو دیکھ بار بھی اپنا گرا تو واں
جس دشت پُر خطر میں کئی کارواں رہے
پیارے ہمیشہ ایک سی رنجش ہے کچھ بھی لطف
ناخوش کبھی ہوئے تو کبھی مہرباں رہے

غلام علی راسخ عظیم آبادی
صبح سے بیتابی ہے دل کو آہ نہیں کچھ بھاتا ہے
دیکھئے کیا ہو شام تلک جی آج بہت گھبراتا ہے
چشم ترکی وسعت داماں ہم دکھلا دیں جی میں ہے
ابر بہت پھیلائو اب اپنے دامن کا دکھلاتا ہے
سبزہ صفت سریاں نہ اٹھا تو دیکھ روش یہ خوب نہیں
ہوتا ہے پامال وہ آخر سر جو کوئی اٹھاتا ہے
عشق ہے کیا زور آور حاکم بندہ اس کے حکم کا ہوں
جن سے شرف اسلام کو ہے، زنار انہیں بندھواتا ہے
ہونٹ ہیں سوکھے تر ہیں آنکھیں زرد ہے چہرہ راسخؔ آہ
بندے سے صاحب حال تمہارا اب نہیں دیکھا جاتا ہے

حصہ