ماں 

182

آ ج دونوں بہنیں بہت خوش تھیں کہ بہت عرصے کے بعد ان کی پھپھو اپنے بچوں کے ساتھ ان کے گھر آ رہی تھیں۔
دونوں بہنوں میں اقصیٰ بڑی تھی جس کی عمر 7 سے 8 کے درمیان تھی اور چھوٹی کی عمر 5 سال تھی۔ جب کہ پھپھو کے بچوں میں سمرہ کی عمر بھی لگ بھگ 8 سے 9 سال اور بیٹا ساڑھے چار سال کا ہوگا۔
بہرحال آ ج تو جیسے بچیوں کے عید کا دن تھا۔ نعیمہ یعنی ( امی جان ) کے ساتھ فجر کی نماز کے بعد سے ان کے ہر کام میں ہاتھ بٹانا اور یہاں تک کے باورچی خانے میں بھی چھوٹے چھوٹے کاموں میں امی کی مدد کرنے میں بڑی خوشی سے آ گے آ گے تھیں۔
دادی جان یہ سب دیکھ کر پیار سے مسکراتی جا رہی تھیں اور ساتھ ساتھ شاباشی بھی دے رہی تھیں۔
آ خر کار انتظار ختم ہوا اور دروازے پر لگی بیل بج اٹھی۔
دونوں بہنوں نے سب کو سلام کیا اور پھر ایک دوسرے کا حال احوال پوچھا۔ اسی دوران نعیمہ نے ٹیبل پر کھانا لگادیا اور سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ چلیں بھئی کھانا لگ چکا ہے‘ سب ہاتھ دھو کر آ جائیں۔ پر عمر‘ صوفیہ کا چھوٹا بیٹا جو تقریباً 4 سال کا تھا اس پر تو جیسے اس بات کا کوئی اثر ہی نہیں ہوا تھا۔ اقصیٰ نے اس کو پیار سے کہا چلو میں تمہارے ہاتھ دھلوا دیتی ہوں جس پر اس کی پھپھو نے منع کرتے ہوئے کہا رہنے دو بیٹا اقصیٰ یہ نہیں مانے گا اور پھر اس ٹیبلیٹ کے بغیر اس کا کھانا بھی حلق سے نہیں اترے گا اسے فرح بعد میں کھلا دے گی۔
دادی یعنی عمر کی نانی نے اپنی بیٹی کی طرف دیکھ کہا صوفیہ کیوںنہیں۔مجھے نہیں لگتا کہ مجھے اس کی خاص ضرورت ہے اور ویسے بھی گھر میں فون موجود ہے امی ابو کے پاس بھی موبائل فون ہیں ہم بہنوں کو ابھی اس کی اجازت نہیں ہے دوسری طرف عمر منہا کو اپنی ٹیبلیٹ پر مختلف گیمز دکھانے میں مصروف تھا کچھ دیر تک تو منہا کو بھی دیکھنا اچھا لگا لیکن جلد ہی اس کا دل بھر گیا بولی عمر تمہارے سر اور گردن میں درد نہیں ہوتا اتنی دیر تک گیمز کھیلتے ہوئے ؟
عمر نے نفی میں سر ہلا کر جوب دیا منہا نے کہا چلو عمر اب یہ رکھو ہم ایک دوسرے کو کوئی اچھی سی کہانی سنانے ہیں اور پھر ہم سامنے پارک میں کھیلنے چلیں گے۔
ارے مجھے کوئی کہانی نہیںسننی اور نہ ہی کوئی کہانی آ تی ہے اور باہر جا کر کھیلنے کی مجھے عادت نہیں ہے۔ میں تو گھر میں بھی اسکول سے آ کر ٹیبلیٹ سے کھیلتا ہوں پھر قاری صاحب آ جاتے ہیں اور شام کو ٹیوشن چلا جاتا ہوں واپس آ کر پھر سے گیمز لگا لیتا ہوں‘ بڑا مزا آ تا ہے۔ میری ٹیبلیٹ میں بہت سارے گیمز ہیں۔
’’ارے بھائی کچھ کھاتے پیتے بھی ہو یا صرف یہی؟‘‘ منہا بولی۔
دادی نے اپنی بیٹی صوفیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’ان بچوں کو کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے کی عادت ڈالو…‘‘ ابھی دادی کی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ منہا جھٹ بیچ میں بولی ’’جی پھپھو امی نے بتایا تھا کہ کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا سنت ہے‘ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا ہے۔‘‘
نعیمہ نے منہا کو ٹوکا بری بات ہے منہا بڑوں کے بیچ میں نہیں بولتے‘ دادی پھپھو سے بات کرہی ہیں ناں؟‘‘ ’’ارے نہیں بھابھی کوئی بات نہیں اچھی بات ہے کہ اس نے اس سنت کو یاد رکھا ہوا ہے ایک ہمارے بچے ہیں کان پر تو جوں ہی نہیں رینگتی۔‘‘
دادی نے مذاقاً کہا ’’ہاں تو کانوں میں ائرفون جو اٹکے پڑے ہیں۔‘‘
بہر حال سب نے مزے سے کھانا کھایا اور آ رام کرنے کے لیے کمروں میں چلے گئے۔ چونکہ کافی عرصے بعد اقصیٰ اور منہا کو اپنے کزنز سے ملاقات کا موقع ملا تھا اس لیے وہ ان سے باتیں کرنے اور مل کر بیٹھنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے دینا نہیں چاہتی تھیں ۔ لیکن فرح کو اپنے موبائل اور عمر کو اپنی ٹیبلیٹ میں زیادہ دل چسپی تھی ، پھر بھی اقصیٰ کھانے کے بعد فرح کو اپنے کمرے میں لے آئی اور اپنی کتابوں کی الماری دکھاتے ہوئے بولی ’’میرے پاس بہت پیاری پیاری کہانیوں کی کتابیں ہیں اور پتا ہے اس کے علاوہ میرے پاس احادیث اور اسلامی تعلیمات کی کتابیں بھی ہیں… تم بھی پڑھوگی تو تمہیں اچھا لگے گا اور مزا آ ئے گا۔‘‘
فرح نے ایک نظر ترتیب سے رکھی کتابوں پر ڈالی اور حیرانی سے پوچھا ’’اقصیٰ باجی! آ پ کو یہ سب پڑھنے کا وقت کیسے مل جاتا ہے اور ویسے بھی میرا تو خیال ہے کہ اب ان کتابوں میں کا زمانہ ختم ہو گیا ہے‘ اب ہر کہانی اور ہر چیز موبائل فون میں موجود ہے یہ طریقہ آ سان ہے کیوں صحیح کہا ناں میں نے؟‘‘ فرح نے جیسے مسئلے کا حل پیش کر دیا ہو۔
اقصیٰ نے فرح کو پیار سے ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بٹھایا اور کہا ’’میری پیاری بہن! تم اپنی جگہ ٹھیک ہو لیکن میری امی کہتی ہیں کتابیں انسان کی بہترین دوست اور ساتھی ہیں اور تم ذرا سوچو کہ تمہارے موبائل کے ائر فون تمہارے کانوں میں لگانے کی وجہ سے تمہیں اذان کی آ واز بھی سنائی نہیں دیتی اور اس کی چکاچوند روشنی میں تمہیں نماز کے وقت کے گزرنے تک کا احساس نہیں ہو پاتا۔‘‘
فرح‘ اقصیٰ کی باتوں کو بڑے غور سے سن رہی تھی اس نے پوچھا ’’تو کیا آ پ موبائل استعمال نہیں کرتی ہیں؟‘‘
عمر نے منہا کی اس بات پر زور سے قہقہہ لگایا۔ بہرحال دونوں خاندانوں میں ماحول کا واضح فرق تھا۔
دوسرے دن رات کے کھانے کے بعد دادی جان نے اپنی بیٹی صوفیہ کو اپنے کمرے میں بلایا اور تسبیح ایک طرف رکھتے ہوئے گویا ہوئیں ’’بیٹی! جب تم چھوٹی تھیں تم بھی ہر بچے کی طرح شرارتیں بھی کرتی تھیں اور ضد بھی لیکن ایک ماں ہونے کی حیثیت میرے اوپر تم بچوں کی پرورش اور تربیت کی ایک بڑی ذمہ داری تھی جو مجھے دینِ اسلام کے مطابق پوری کرنا تھیں اور جہاں تک ممکن ہو سکا میں نے کیا۔‘‘
صوفیہ نے بات کو غور سے سنتے ہوئے کہا ’’امی جان! خیریت تو ہے آج اچانک پرانی باتوں کو یاد کر رہی ہیں‘ کوئی غلطی ہو گئی ہے کیا مجھ سے؟‘‘
’’نہیں تم سے نہیں مجھ سے کہیں غلطی ہو گئی تھی یا شاید میری تربیت میں کوئی کمی رہ گئی تھی جو تم اپنے گھر کو جنت جیسا بنانے میں کمزور رہیں۔ کیا یہاں سے جاکر سارے طور طریقے بھول گئیں؟ اپنی بھابی کو دیکھو تمہاری طرح وہ بھی ایک پڑھی لکھی اور بڑے گھر سے آ ئی ہے‘ اس نے ہمیشہ اپنے شوہر کا بھی خیال رکھا میری خدمت میں بھی کوئی کمی نہیں اٹھا رکھی اور نماز‘ قرآن کے اہتمام کے ساتھ ساتھ بچیوں کی بہترین تربیت بھی کر رہی ہے اس کے علاوہ عزیز و اقارب کی خبر گیری کی اور مہمان نوازی میں بھی آ گے آگے ہے۔ اور تم کیا کر رہی ہو اپنے آپ کو اور بچوں کو ان مشینوں کے حوالے کردیا‘ کیا دنیا موبائل سے شروع اور اسی پر ختم ہو تی ہے؟‘‘
صوفیہ تو جیسے آ ج کسی کٹھہرے میں کھڑی تھی‘ سر جھکا ئے کسی مجرم کی طرح شرمندہ شرمندہ۔
دادی اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولیں ’’بیٹی! اپنے آپ کو بدلو۔ جب سے تم آ ئی ہو نہ تو تمہارے پاس وقت ہے نہ سکون۔ اور یہی حال تمہارے بچوں کا ہے کسی چیز سے دل چسپی نہیں رکھتے سوائے گیمز کے۔ یاد رکھو گھر کو جنت عورت ہی بناتی ہے بچوں کی تعلیم و تربیت والدین کا اوّلین فریضہ ہے اور تربیت ماں پر فرض ہے اچھی تربیت سے ایک مضبوط خاندان بنتا ہے جس سے مستحکم معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ اپنے شوہر کی دل جوئی کرو تاکہ تم خود کو محفوظ تصور کرسکو‘ جب عورت مرد کے ہر دکھ سکھ میں برابر کھڑی ہوتی ہے تو مرد بھی اپنے آپ کو مضبوط سمجھتا ہے۔ اپنے بچوں اور شوہر کو وقت دو‘ ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاؤ‘ انہیں بتاؤ کہ مل کر رہنے سے گھر جنت، خاندان مضبوط اور معاشرہ مستحکم ہوتا ہے۔‘‘
صوفیہ کی آنکھوں میں آ نسو بھر آ ئے‘ اُسے لگا جیسے وہ خوابِ غفلت میں ڈوبی ہوئی ایک کمزور عورت تھی۔ اس نے اللہ سے معافی مانگی اور ماں سے سچے دل سے اپنی غلطیوں کو سدھارنے کا وعدہ کیا۔

حصہ