’’ہارون بھائی! کیمرہ یہاں سیٹ کر رہا ہوں پھر آپ سے انٹرویو ہوگا۔‘‘
’’نہیں بھائی! میں کوئی انٹرویو نہیں دوںگا۔‘‘
یہ مکالمہ ایک جنرل اسٹور اور ایک نیوز چینل کے رپورٹ کے درمیان ہو رہا تھا۔ اتفاق سے میں بھی اسی جنرل اسٹور پر موجود تھی۔
کچھ دیر بعد جب کیمرہ سیٹ ہو گیا پھر اس رپورٹر نے ہارون بھائی سے کچھ کہنے کے لیے اصرار کیا۔ انہوں نے انکار کر دیا۔ یہ دیکھ کر اسٹور کے آگے کھڑے سبزی والے بھائی آگے آئے اور بولے ’’اتنے دام بڑھ گئے ہیں‘ آٹے کے‘ چینی کے‘ دالوں… کچھ تو بولو۔‘‘
مگر وہ نہ مانے۔ اتنی دیر میں رپورٹر نے سبزی والے بھائی سے کہا ’’آپ کچھ کہنا چاہیں گے؟‘‘
ان کے پوچھنے کی دیر تھی کہ وہ صاحب شروع ہوگئے… سادہ سے آدمی تھے کہنے لگے ’’بھائی میں ہوں تو سبزی فروش مگر میں خود یہ جانتا ہوںکہ آج کل سبزی خریدنا بھی گوشت خریدنے جیسا ہی ہے۔ مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ سب ہی پریشان ہیں۔‘‘
رپورٹر نے کہا ’’ہمارا پروگرام چینی پر ہے اسی بات پر کریں۔‘‘
وہ یک دم چپ ہوگئے۔
پھر رپورٹر میری طرف متوجہ ہوا ’’آپ کچھ کہنا چاہیں گی؟‘‘
میں نے منع کر دیا۔ دل تو چاہ رہا تھا کہ کھری کھری سنائوں لیکن کیا فائدہ… کوئی حل تو نکلنا نہیں تھا… بس مزے مزے کی کچھ چٹپٹی باتیں ہونی تھیں اور اگر کوئی دل جلا کچھ زیادہ جوش میں بھرا بھلا کہہ دیتا تو چھوٹی موٹی بریکنگ نیوز بن جانی تھی۔ اس کا کیا حل سوچتے ہوئے گھر کی راہ لی۔
ہر شخص پریشان ہے اور اپنی پریشانی کے آگے دوسروں پریشانی نظر آنا بہت مشکل ہے۔ جانے کوئی حل نکلے گا بھی یا نہیں‘ اتنی دیر میں گھر آگیا۔
گھر آکر دیکھا امی (ساس) چائے بنا رہی تھیں۔ میں جلدی سے پہنچی کہ ’’امی! میں آتو رہی تھیں۔‘‘
بولیں ’’تم بیٹھو بس چائے بن گئی ہے میں لا رہی ہوں۔‘‘
ان کی اس محبت پر دل شکر گزار ہوا کہ اللہ نے اچھی ساس سے نوازا۔
چائے پیتے ہوئے بھی میں گم صم ہی تھی۔ پوچھلنے لگیں ’’کیا ہوا؟‘‘
تو میں نے تھوڑی دیر پہلے والا واقعہ سنایا اور کہا ’’کیا اس کا کوئی حل ہے؟‘‘
میری بات سن کر مسکرانے لگیں اور بولیں ’’میں تمہیں ایک واقعہ سناتی ہوں۔‘‘
میں ان کی بات سن کر حیران ہوئی کہ میں کیا کہہ رہی ہوں اور کیا کہہ رہی ہیں… خیر میں نے کچھ بولنا مناسب نہ سمجھا۔
وہ کہنے لگیں ’’ایک حکیم سے پوچھا گیا زندگی میں کامیابی کیسے حاصل ہوتی ہے؟ حکیم نے کہا اس کے جواب کے لیے رات کا کھانا میرے ساتھ کھانا ہوگا۔ رات کو کھانے پر کچھ اور لوگ بھی موجود تھے۔ جب سب جمع ہو گئے تو اس نے سوپ کا پیالہ لا کر رکھ دیا مگر سوپ پینے کے لیے ایک میٹر لمبا چمچہ دیا کہ اس سے سوپ پیو۔
ہر شخص نے کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔ سب ناکام ہو گئے۔
حکیم نے کہا ’’میری طرف دیکھو۔‘‘ اس نے چمچہ پکڑ کر سوپ لیا اور اپنے سامنے بیٹھے شخص کے منہ میں لگا دیا۔
اب ہر شخص اپنا چمچہ پکڑے دوسرے کو پلانے لگا۔ سب خوش ہوگئے۔
سوپ پینے کے بعد حکیم نے کہا ’’جو شخص زندگی کے دستر خوان پر اپنا ہی پیٹ بھرنے کا فیصلہ کرتا ہے وہ بھوکا ہی رہے گا۔ جو دوسروں کو کھلانے کی فکر کرے گا وہ خود بھی بھوکا نہیں رہے گا۔ آپ زندگی میں اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک آپ کے دوست احباب کامیاب نہ ہوں۔‘‘
واقعہ سن کر میرے اور امی کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی اور میں سمجھ گئی کہ ہماری مشکلات کا حل ہمارے پاس ہی موجود ہے اور یہ کہ ہم صرف اپنے لیے ہی نہ سوچیں بلکہ ہمارے اطراف رہنے والے اور ہمارے عزیز و اقارب کا خیال رکھنا بھی ہماری ذمے داری ہے۔ صرف ’’میں‘‘ نہیں بلکہ ہم نے ’’ہم‘‘ کے اصول کو اپنانا ہے۔