کروٹ

248

زندگی نے یکدم پینترا بدلا تھا۔ اُس کے دُکھ سکھ کا ساتھی یکایک ہاتھ چھڑوا کر ابدی نیند سو چکا تھا۔ اُس کے گالوں کی سرخی بھی وہیں تھی اور آنگن کے پھول بھی بدستور مہک رہے تھے… پھر سب پلٹنا ناقابل یقین حد تک ناقابل فہم بھی تھا۔ وہ ابھی سنبھل بھی نہ پائی تھی کہ ہر آنے جانے والے کی سرگوشیاں اُس کی سماعت سے ٹکرانے لگی تھیں۔ اس کے لیے گویا قیامت ہی تو تھی ’’بھلا کیسے ممکن ہے۔‘‘ وہ سوچ کر بھی اُلجھ جاتی۔ ردعمل دینے سے گریزاں ہی تھی کہ اکثر بے تکی باتوں کو اہمیت دینا بھی حقیقت میں ڈھال دیتا ہے۔ وہ اس لیے بھی مطمئن تھی کہ اوٹ پٹانگ مشوروں پر بے جی نے بھی کان نہ دھرا تھا اور نہ ہی اُس سے تذکرہ کیا تھا۔
سرگوشیاں تو کونوں کھدروں سے راستہ تلاش کرلیتی ہیں، سو اُس تک بھی پہنچ چکی تھیں۔ ابھی تو وہ اور بے جی مشترکہ کرب کے دور سے گزر رہی تھیں۔ فرق صرف اتنا تھا کہ بے جی نے لخت جگر کھویا تھا اور اُس نے اپنے لخت جگروں کا سایہ دار شجر۔ دُکھ بانٹنے کا موقع ہی کب ملا۔ بے جی بستر سے جالگی تھیں۔ خبرگیری کرنے والوں کا تانتا ‘بے جی سے زیادہ گھر کے حالات کی خبرگیری پر مرکوز ہوتا۔ بے جی نے بھی زبان کو قفل لگا لیا تھا۔
اُس نے گھرداری کی مصروفیت میں آڑ لے لی تھی اور بطور واحد کفیل اشتیاق نے بھی ذمے داریوں کو پوری طرح اٹھا لیا تھا، بچوں کو خوش رکھنے کا فن سدا سے ہی جانتا تھا اور اُن سے رشتہ بھی قلب و جان جیسا تھا۔ اس ناگہانی کے بعد بچوں کے لیے ہر دَم فکر مند رہتا۔ اسی لیے خود کو اُن کے لیے وقف کیے رکھتا۔
گزشتہ دو راتیں بے جی نے اسپتال میں گزاریں۔ واپس آتے ہی پہلی فرصت میں اُسے پاس بٹھایا اور تفکر سے بولیں ’’مجھے کچھ ہو جاتا تو تیرا کیا بنتا؟آگے پیچھے کوئی ہوتا تو اور بات تھی۔‘‘
حقیقت بھی یہی تھی کہ اُس کا سسرال بھی یہی تھا اور میکہ بھی۔ میکہ تو بہت پہلے ہی مر کھپ گیا تھا۔
’’آپ ہی میرا سب کچھ ہیں۔‘‘ اْس نے بڑھ کر ہاتھ تھام لیا۔
’’بوڑھی سانسیں نہ جانے کب دغا دے جائیں… مگر تیرا یوں اشتیاق کے ساتھ ایک ہی چھت تلے رہنا مناسب نہیں۔‘‘ دنوں سے گشت کرتی سرگوشیاں بلا آخر بے جی کی زبان پہ بھی آچکی تھیں، وہ سسکنے لگی۔ بے جی کے تحفظات بے جا نہ تھے اس لیے اُس کی ہر تاویل ہی کھوکھلی ہوتی گئی۔ دھڑکن بے ترتیب ہوکر سینے پہ لوٹنے لگیں۔
’’میں اور اشتیاق…‘‘ وہ سنگھار میز کے سامنے براجمان تھی… جھرجھری رگ و پے میں دوڑ گئی۔ آج اُس پہ بھید کھلا کہ اشتیاق کئی روز سے کیوں اُس سے نگاہیں چرا جاتا… اُسے خیال آیا کہ چہلم ہوتے ہی اشتیاق نے اچانک نسبت کیوں ختم کر ڈالی مگر اُس کی تو دنیا ہی لٹ چکی تھی کہ کسی اور سمت میں سوچتی۔ نسبت سے اشتیاق کی خوشی کا عالم کسی سے ڈھکا چھپا تو نہ تھا پھر اچانک اس افتاد کی کیا ضرورت آن پڑی تھی۔ افتاد ہی تو تھی جو اشتیاق نے گویا خود پر ڈھا دی تھی۔ نسبت سے منسوب ہر بات اُس کے چہرے پر قوس و قزح بکھیر دیتی۔
’’آج کل لڑکیاں بھی اس طرح نہیں شرماتیں۔‘‘ بے جی ہنس جاتیں۔
اشتیاق کی سمجھ داری اور حساس شخصیت سے وہ اچھی طرح واقف تھی۔ بڑے بھائی سے رشتہ عام نہ تھا، جان چھڑکنے کو ہر دم تیار۔ اب اُسے سمجھ آئی کہ منسوب ہونے کے بعد وہ اکثر اُس کا سامنا کرنے سے کیوں کتراتا۔ آج بھی وہ چور نگاہوں سے ہی اُس کی جانب توجہ مرکوز کیے تھا جیسے وہ اُس کے کسی فیصلے کا منتظر ہو اور فیصلہ بھی ایسا مشکل کہ سوچ کے دوڑتے گھوڑے تھکنے لگے۔
’’بھلایہ کیسے ممکن ہے۔‘‘دھڑکن پھر اُچھل کر باہر آنے کو بے تاب ہوئی۔
وہ اپنا آپ ماضی کے سپرد کرچکی تھی مگر اُس کا حسین ماضی تو نقطے کی شکل اختیار کرتا جارہا تھا۔
’’وہ بھائی جیسا ہے…‘‘ دھڑکن پھر مچل گئی۔
’’بھائی تو نہیں۔‘‘ عکس نے آئینہ دکھایا۔
’‘مگر وہ اور میں…؟‘‘ اُس نے پھر خود کو جھٹکا۔
’’زندگی کی بے ثباتی اور کٹھن چہرے ایک ساتھ…‘‘ اُس نے سر ہاتھوں میں گرا لیا۔
’’یہی تو زندگی ہے۔‘‘ عکس پھر مخل ہوا۔
…٭…
حجلہ عروسی میں ملبوس اُس نے گردن گھمائی اور طائرانہ نظر کمرے پہ ڈالی۔ نگاہیں آویزاں تصویر پہ ٹک گئیں۔ بچوں کی آمد نے اُس کے ارتکاز کو توڑا۔ وہ دوڑتے اُس کے پاس آبیٹھے۔ اشتیاق بھی اُن کی اُوٹ میں دھیرے سے اندر آیا اور ان کے قریب بیٹھ گیا۔ براجمان ہوتے ہی کسی نادیدہ قوت نے اسے کرسی کی جانب دھکیلا اور وہ سر جھکائے انگلیوں سے کھیلنے لگا۔ کئی لمحے خاموشی کے سرک گئے۔ وہ بھی سمٹ چکی تھی… دھڑکن دوبارہ مچل کر باہر آنے کو بے تاب ہوئی۔
’’اب ہم یہیں رہیں گے نا چاچا جی؟‘‘ معصوم آواز نے ارتعاش پیدا کیا۔
’’ہاں…‘‘ وہ رسان سے بولا ۔
’’اور… آج سے بابا جی…!‘‘ اشتیاق نے ہمت مجتمع کی۔
اُس نے مچلتی سانسوں کے ساتھ جھکی پلکیں اُوپر کیں مگر دونوں کی نگاہیں دیر تک ملانے کی تاب نہ لاسکیں۔
’’زندگی اتنی مشکل تو نہ تھی۔‘‘ وہ ہچکچاتے ہوئے بولی۔ چند ثانیے گہری خاموشی لیے تھے۔
’’ناممکن بھی نہیں۔‘‘ اشتیاق نے لبوں کو جنبش دی اور جھکی نگاہوں میں کچھ ٹٹولنے لگا۔
خاموشی پھر عود آئی… دونوںیکبارگی سے مسکرا دیے۔

حصہ