بس ذرا سی بات

202

’’امی… امی مجھے یہ گاڑی دلا دیں‘‘ احمد نے کھلونا گاڑی کی طرف اشارہ کیا جو لال رنگ کی ریموٹ سے چلنے والی گاڑی تھی اور کافی مہنگی بھی تھی۔
’’بیٹا یہ تو بہت مہنگی ہے اور ابھی ہمیں گھر کے لیے کافی سامان لینا ہے۔‘‘ امی نے احمد کو سمجھایا۔
نہیں بیٹاابھی آپ نے کوئی کھلونا نہیں لینا ابھی جو آپ کے پاس اتنے سارے کھلونے ہیں آپ ان سے کھیلیں۔ احمد کے ابو نے دو ٹوک الفاظ میں کہا۔
لیکن ابو میرے پاس ایسی ریموٹ کنٹرول گاڑی نہیں ہے۔ میرا بہت دنوں سے ایسی گاڑی لینے کا دل چاہ رہا تھا حذیفہ کے پاس بھی ایسی گاڑی ہے ابو پلیز!
’’میں نے کہا نا ابھی نہیں۔‘‘ احمد کے ابو نے تھوڑے سخت لہجے میں کہا۔ احمد خاموش ہو گیا لیکن دل ہی دل میں وہ بہت ناراض تھا گھر آکر بھی اس کا موڈ بہت خراب تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس کے امی ابو کو اس کا ذرا بھی خیال نہیں۔ اس نے اتنے دنوں بعد ایک کھلونے کی فرمائش کی تھی۔ وہ بھی پوری نہ کی حذیفہ کے امی ابو اسے ہر مہینے کھلونے دلاتے ہیں۔ امی میری کوئی بات نہیں سنتی ہر وقت ڈانٹتی ہیں۔ یہ سوچتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
دوسرے دن بھی وہ بالکل خاموش خاموش سا تھا احمد کے امی ابو کافی پریشان تھے ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ احمد کو کس طرح سمجھائیں۔
رات احمد کی اچانک آنکھ کھل گئی اسے پیاس سی محسوس ہوئی وہ پانی پینے کمرے سے باہر نکلا تو امی ابو کے کمرے سے باتیں کرنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ اپنا نام سن کر وہ ایک دم رک گیا۔
’’میں احمد کو وجہ سے بہت ہی پریشان ہوں‘‘ احمد کے ابو کی آواز میں افسوس اور پریشانی عیاں تھی۔
جی! میں بھی کافی پریشان ہوں میرا خیال تھا کہ وہ سمجھ جائے گا۔ اب وہ بڑا ہو رہا ہے اسے اب گھر کی پریشانیاں سمجھنا چاہیے۔
احمد کے ابو کے لہجے میں بے بسی تھی اور شاید آنکھوں میں آنسو بھی۔
’’آپ فکر نہ کریں میں اسے سمجھائوں گی وہ سمجھدار ہے ہماری پریشانی سمجھ جائے گا۔‘‘ احمد کی امی نے انہیں تسلی دی۔
احمد دبے قدموں واپس اپنے کمرے میں آگیا تھا اب اسے اپنے رویہ پر بہت افسوس ہو رہا تھا۔ صرف ایک کھلونا گاڑی کی وجہ سے اس نے اپنے والدین کو اتنا دکھ دیا۔
احمد صبح اٹھا تو اس نے اچھے طریقے سے امی ابو کو سلام کیا اور اپنے ابو کے گلے لگ گیا۔
’’ابو آپ بہت اچھے ہیں۔‘‘ ابو نے بھی احمد کو پیار کیا۔ احمد نے اپنے ابو کے ساتھ خوشی خوشی ناشتہ کیا۔
امی، ابو! مجھے وہ گاڑی نہیں لینی اب وہ مجھے بالکل پسند نہیں۔ ویسے بھی اب میں بڑا ہو رہا ہوں مجھے کھلونا نہیں کتابیں لینی چاہیے۔
احمد کی بات سن کر احمد کے ابو مسکرا دیے۔

حصہ