وزن بڑھنے کے بہت سے اسباب ہوتٹ ہیں جن میں سب سے اہم غذا کی زیادتی یا اس کا صحیح انتخاب یا پھر ورزش کی کمی ہے۔ دراصل مٹاپے کو سمجھنے اور اسے دور کرنے کی تدابیر اپنانے سے پہلے ہمیں یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ غذا کیا ہے۔ جسم کے لیے کون کون سے غذائی اجزا کی ضرورت ہوا کرتی ہے ان کے کیا کام ہیں اور متوازن غذا کسے کہا جائے گا۔
غذا کا پہلا اہم جزو لحمیات یا پروٹین ہے جو جسم کے بنانے بڑھانے اور ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کرنے کے لیے ضروری ہے۔ اس کی ضرورت ہر عمر میں ہوتی ہے مگر خاص طور پر بچوں کو زیادہ مقدار میں درکار ہوتا ہے کیوں کہ ان کا جسم بن رہا ہوتا ہے اور عمر کے ساتھ ساتھ بڑھ بھی رہا ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس کی ضرورت ضعیفوں کو ہوا کرتی ہے۔ ان کا جسم بڑھ تو نہیں رہا ہوتا مگر ٹوٹ پھوٹ کی زیادتی کی وجہ سے جسم کی تعمیر کے لیے پروٹین زیادہ درکار ہوتی ہے۔ یہ ہمیں گوشت‘ انڈا‘ مچھلی‘ دودھ‘ دالوں‘ خشک میوے اور سویا بین سے وافر مقدار میں مل جاتی ہے۔
دوسرا اہم غذائی جزو نشاستہ یا کاربوہائیڈریٹس ہے۔ اس سے جسم میں حرارت اور طاقت پیدا ہوتی ہے۔ اس کی ضرورت بھی ہر عمر میں ہوا کرتی ہے مگر خصوصاً بچوں اور جوانوں کو زیادہ درکار ہوتا ہے۔ بچوں کو اس لیے کہ دوڑ بھاگ‘ کھیل کود میں ان توانائی اور حرارت خرچ ہوتی رہتی ہے۔ جوان چونکہ اپنی عمر کے اس دور سے گزر رہے ہوتے ہیں جس میں انہیں انتہائی محنت مشقت کرنی ہوتی ہے خواہ وہ دماغی ہو یا جسمانی‘ جسمانی محنت کرنے والوں کو نشاستہ نسبتاً زیادہ چاہیے ہوتا ہے۔ دماغی محنت کرنے والوں کو نشاستے کے ساتھ ساتھ لحمیات بھی درکار ہوتے ہیں۔ یہ اناج‘ چاول‘ زمین کے اندر پیدا ہونے والی سبزیوں‘ شکر اور شکر سے بنی ہوئی چیزوں سے فراہم ہو جاتے ہیں۔
غذا کا تیسرا جزو چکنائی یا فیٹس ہیں‘ یہ بھی جسم میں حرارت و توانائی پیدا کرنے کا ذریعہ ہیں۔ ساتھ ہی یہ بطور ذخیرہ جسم میں جمع ہونے کی خصوصیت رکھتے ہیں۔ اگر ضرورت سے زیادہ غذا میں موجود ہوں تو زیر جلد‘ پیٹ کی جھلّیوں اور دیگر اعضا کے اردگرد چربی کی شکل میں جمع ہو جاتے ہیں تاکہ ایسے وقت پر کام آسکیں جب کسی وجہ سے جسم کو غذا کم مل رہی ہو یا نہ مل رہی ہو۔ مثلاً فاقہ کشی‘ طویل بیماریاں‘ معمول سے زیادہ محنت مشقت وغیرہ۔ عورتوں میں قدرتی طور پر چربی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت مردوں کی بہ نسبت زیادہ ہوا کرتی ہے اور وہ ان کی فطری ضرورت ہے۔ چونکہ دورانِ حمل اور بچے کو دودھ پلانے کے زمانے میں جب زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے تو یہی جمع شدہ چربی ساتھ دیتی ہے۔ اس کے حاصل ہونے کے ذرائع روغنیات‘ بالائی‘ مکھن‘ پنیر‘ گھی‘ انڈا‘ روغن والے بیج‘ خشک میوے وغیرہ ہیں۔ اس کے علاوہ تمام نشاستے دار چیزیں بھی چربی بناتی ہیںوہ اس طرح اگر نشاستہ ضرورت سے زیادہ مقدار میں استعمال کیا جائے تو وہ کیمیاوی انہضام کے بعد چربی میں تبدیل ہو کر ذخیرہ ہوتا رہتا ہے اور جمع شدہ چربی جسم کو بدوضع بناتی رہتی ہے۔
مذکورہ غذائی اجزا کے علاوہ غذا کو متوازن رکھنے کے لیے چند مزید چیزوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے مثال کے طور پر حیاتین‘ معدنیات‘ نمکیات اور پانی وغیرہ‘ یہ بھی سبزیوں‘ پھلوں‘ دودھ‘ انڈا‘ گوشت‘ اناج کے چھلکوں وغیرہ سے فراہم ہو جاتے ہیں لیکن معدنیات و نمکیات کنوئوں اور چشموں کے پانی سے بھی جسم کو ملتے ہیں مگر ان کا تعلق چونکہ براہِ راست وزن بڑھانے سے نہیں ہے‘ اس لیے ان کی تفصیل میں ہم نہیں جائیں گے۔
غذائی اجزا کا بغور جائزہ لینے پر ہمیں اندازہ ہو گیا کہ وزن بڑھانے میں دو چیزیں اہم کردار ادا کر رہی ہیں ایک نشاستہ اور دوسرے چکنائی۔ مٹاپے کی بنیادی وجہ غذا کا غیر متوازن ہونا ہے۔ چونکہ غذا کے انتخاب میں بنیادی چیز جس کا لحاظ رکھنا چاہیے وہ عمر اور کام کی نوعیت ہے۔ اسی وجہ سے بچوں کی غذا ہمیں ان کی جسمانی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے جوانوں کے مقابلے میں بالکل الگ منتخب کرنی ہوتی ہے۔ اسی طرح ضعیف العمر حضرات کی غذا جوانوں کے مقابلے میں مختلف ہونا چاہیے۔ جوانوں میں بھی یہ دیکھنا ہوگا کہ کام زیادہ جسمانی محنت کا کیا جا رہا ہے یا بیٹھ کردماغی محنت کرتے ہوئے وقت گزرتا ہے۔ اسی طرح ایک خاتون خانہ کو اپنی دن بھر کی دوڑ بھاگ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا غذائی نقشہ بنانا چابیے۔
مٹاپا دراصل سیدھا سادا آمدن و خرچ کا حساب ہے‘کسی شخص کی روزانہ آمدنی جس قدر ہے اگر اتنا ہی خرچ بھی کر دیا جاتا ہے تو بچے گا کچھ نہیں‘ اس کے برخلاف آمدنی زیادہ ہو اور خرچ کم تو رقم جمع ہونا شروع ہو جائے گی۔ بالکل یہی معاملہ کھائی جانے والی غذا اور جسمانی خرچ کا ہے۔ جو بھی غذا چوبیس گھنٹے میں استعمال ہو رہی ہے اگر وہ خرچ کر دی جاتی ہے تو جسم پر مٹاپا طاری نہیں ہوگا۔ اس کے برخلاف صورت میں بدن کا بے ڈول ہوجانا لازمی ہے۔ غذا کی مقدار سے مراد یہاں غذائی اجزا کی مقدار ہے جس کا تناسب عمر اور محنت و مشقت کے لحاظ سے رکھنا ضروری ہوجاتا ہے۔
اگر ہم برصغیر کے لوگوں کی غذائی عادات کا بغور جائزہ لیں تو پتا چلے گا کہ یہاں وزن بڑھنے کا سبب چکنائی اس قدر نہیں ہے جتنا کہ نشاستہ ہے۔ چونکہ ہماری غذا کا بڑا حصہ نشاستہ پر مشتمل ہوتا ہے مثلاً روٹی‘ چاول‘ زمین کے اندر پیدا ہونے والی ترکاریاں اور میٹھا۔ چکنائی عام طور پر بہت زیادہ استعمال نہیں ہوتی۔ دیہات میں گھی اور مکھن کھانے کا زیادہ رواج ہے مگر وہاں اسی اعتبار سے زندگی بھی سخت گزاری جاتی ہے۔ سفید اقوام میں وزن بڑھنے کی سبب چکنائی ہو سکتی ہے چونکہ ان کی غذا میں کریم‘ مکھن‘ پنیر‘ دودھ‘ کیک‘ پیسٹری‘ چاکلیٹ‘ آئس کریم اور بہت چکنے گوشت شامل ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں زیادہ تر چکنائی سالن پکانے یا چیزوں کو تلنے میں استعمال کی جاتی ہے جو کہ بہت مقدار میں نہیں ہوتی بلکہ روٹی یا چاول‘ شوربے دار سالن سے کھائے جاتے ہیں جن میں سالن کی مقدار کم اور روٹی چاول کی مقدار زیادہ ہوا کرتی ہے یا پھر مٹھائیوں یا دیگر مشروبات کی شکل میں نوش کیا جاتا ہے۔ روٹی استعمال کرنے والوں کی غذا میں زیادہ مقدار آٹے کی ہوتی ہے اور آٹا بھی عموماً بہت باریک چھان کر اس کی بھوسی الگ کر دی جاتی ہے جن میں نشاستے کی مقدار بہت بڑھ جاتی ہے۔ یہ اندازہ ہم کر چکے ہیں کہ ہر قسم کا نشاستہ جو کہ جسمانی ضروریات سے زیادہ ہو‘ چربی میں تبدیل ہو کر جسم میں جمع ہو جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اس لیے وزن کم کرنے کا پروگرام بناتے وقت نشاستہ کو نہیں بھولنا چاہیے۔
دوسری غلطی جو وزن کم کرنے والے افراد کرتے ہیں وہ فاقہ کشی ہے یعنی غذا کو چھوڑ دینا یا ضرورت سے بہت کم کر دینا۔ یہ بڑی سنگین غلطی ہے خصوصاً نوجوانوں میں‘ نو عمر لڑکیاں اس عمل سے بڑا نقصان اٹھا رہی ہیں۔ غذا جسم کے لیے لازمی جزو ہے اور اگر یہ متوازن اور صحیح مقدار میں نہ ملے تو کسی بھی شخص کا تندرست رہنا‘ اس کے جسم کی صحیح نشوونما ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔ غذا کو اپنی جسمانی ضروریات کے لحاظ تے تبدیل تو کیا جاسکتا ہے یا کسی حد تک کمی کی جاسکتی ہے مگر کھانے کے ناغے کرنا کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔ ایک بات اور ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ دبلا ہونا ایک الگ چیز ہے اور کمزور ہونا الگ بات ہے۔ بڑھے ہوئے وزن کے لوگوں کو دبلا ہونے کی جدوجہد کرنی چاہیے نہ کہ کمزور ہونے کی۔ چونکہ دبلا ہونے میں جسم کا تناسب اور چہرے کی رونق باقی رہے گی لیکن کمزور ہو جانے والے چہرے اور حلیے سے بیمار نظر آتے ہیں‘ ان کی جلد اور ہونٹوں کی رنگت پھیکی پڑ جاتی ہے اور آنکھوں کی چمک زائل ہو کر ان کے اردگرد سیاہ حلقے نمودار ہو جاتے ہیں۔ بعض تو معدے کو خالی رکھ رکھ کر اس میں تیزابیت بڑھا لیتے ہیں اور نوبت معدے کے زخموں تک پہنچتی ہے یا یہ لوگ غذائی اجزا کی کمی سے پیدا ہونے والے امراض میں گھِر جاتے ہیں۔ ہمیشہ ہر معاملے میں فتح و کامرانی انہی لوگوں کا مقدر ہوتی ہے جو کہ تندرست و صحت مند ہوں اور وہی لوگ اچھے بھی لگتے ہیں جو کہ تندرت و صحت مند ہوں۔ جو چیزیں کسی شخص کو جاذبِ نظر بناتی ہیں ان میں جسم کے متناسب ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی صحت بھی ہے اور صحت نام ہے جلد کے پیچھے سے نظر آنے والے خون کا‘ پھرتی و چشتی کا‘ ہمت و حوصلے اور ہر مشکل کا آگے بڑھ کر مقابلہ کرنے کا۔
اب اگر کوئی شخص یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کا جسم خصوصاً پیٹ اور کولھوں پر چربی جمع ہوگئی ہے تو اسے دو کام کرنے چاہئیں پہلا یہ کہ غذا میں چربی پیدا کرنے والی چیز یعنی نشاستہ کم کر دیا جائے دوسرے جسم میں ان کا خرچ بڑھا دیا جائے۔ خرچ محنت‘ مشقت زیادہ کرکے یا ورزش کرکے بڑھایا جاسکتا ہے اور آمد نشاستے والی اشیا سے گریز کرکے کم کی جاسکتی ہے مگر یہ لحاظ رکھنا ہوگا کہ ہم نشاستہ والی چیزوں میں جو کمی کر رہے ہیں مثال کے طور پر روٹی‘ چاول یا شکر میں اگر کمی کی جارہی ہے تو اس کمی کو ایسی چیزوں سے پورا بھی کر لیا جائے جن میں نشاستہ نہیں ہے یا بہت کم ہے مثلاً اگر ہر کھانے میں ایک روٹی کم کر دی جا ئے تو تازہ سبزیوں کی مقدار یا ابالی ہوئی سبزیاں بڑھا دی جائیں ان میں بھی زمین کے اندر پیدا ہونے والی ترکاریوں سے پرہیز کیا جائے۔ سلاد کے پتے‘ ٹماٹر‘ کھیرا‘ بند گوبھی اور ککڑی بہت مناسب رہیں گی۔ اگر ان سے طبیعت سیر ہو جانے کا خدشہ ہو تو کسی وقت یہ سبزیاں‘ ترکاریاں اور کسی وقت ابلا ہوا یا روسٹ کیا ہوا گوشت‘ مچھلی یا دلیہ لیا جاسکتا ہے۔ دالیں چھلکے کے ساتھ پکائی جائیں اور شکر بھی کم کر دی جائے۔
اس طرح وزن میں جو کمی ہوگی وہ یقینا آہستہ آہستہ ہوگی مگر نہ تو فاقے کی مشقت برداشت کرنی ہوگی اور نہ ہی معدے میں تیزابیت اور اس سے پیدا ہونے والے امراض پیدا ہوں گے ساتھ ہی خون کی کمی اور کمزوری کی علامات چہرے پر نمودار ہو کر اچھی خاصی شخصیت کو مدقوق نہیں بناسکیں گی۔