ذہنی بڑھاپا

266

یہ زمانہ وہ ہے جس میں ہیں بزرگ و خورد جتنے
انہیں فرض ہو گیا ہے گلہء حیات کرنا
(مصحفی ؔ)
ہمارے سماج کے مرکزی کردار زیادہ تر وہ گلہ گزار لوگ ہیں جواَدھیڑ عمر کی منزل میں ہیں۔ جن میں اکثر تو ماہرین ِعلم و فن بھی ہیں۔ لیکن یہ ایک ردّی کے ڈھیر کی طرح سماج کے سینے پر پڑے رہتے ہیں جو اپنے ٹھٹھرے ہوئے وجود کے سبب خو دسڑ رہے ہیں اور سماج کو سڑا رہے ہیں۔ یہ اُن افراد کا مجموعہ ہے جس میں زیادہ تر مڈل کلاس کے ’’ماہرین‘‘ یا خوش حال طبقے کے ’’شاطرین‘‘ہوتے ہیں جنھیں اتفاقی طور پر کمائی یا کاروبار سے فراغت مل گئی ہے۔ کسی طور پر روٹی، کپڑا اور مکان سے جڑی اُن کی تمام ضرورتیں پوری ہوگئی ہیں۔ اب یہ ٹولہ اپنے ذہنی بڑھاپے کے سبب سماج کو اپنی بزرگی جتاتا پھرتا ہے‘ عزت اینٹھنا چاہتا ہے‘ اپنے گھروں اور خاندانوں میں سب کی ناک میں دَم کر رہا ہے۔ غریبوں کو تو بڑھاپاکبھی نہیں آتا‘ غریب تو اپنی دھڑکنوں کے تھمنے تک نہیں تھکتا۔ کمرکا خم تو کیا آخری دَم تک وہ اپنے کنبے کو پالتا ہے اور دوسری طرف یہ ذہنی بوڑھے ہر مہم سے دور‘ ہر فلاحی ادارے سے دامن بچاکر جیتے ہیں۔ سماجی خیر کی کسی بھی آواز پر اپنی دُم دبا کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ ویسے تو خدا نیتوںکے نہاں راز جانتا ہے لیکن یکایک شریف بن کر بے ضرورت نصیحت کرنے اور ہر راہ گیر کو مشورہ دیتے رہنا ان کی پہچان ہے۔ بقول ماہر ؔالقادری کے:
جنابِ شیخ کی توبہ کو کیا کہوں ماہر
میں جانتا ہوں بڑھا پے کی پارسائی ہے
دوسرے طرف سماج کے اُفق کا نور وہ طبقہ بھی ہے جو اپنی عمر سے جڑے بہانوں کو ٹھوکر مار کر عزائم کے سہارے جیتا ہے۔ ایسی زندگی جینے والوں کو دنیا اپنی یادداشت کی روشن سطع پر رکھتی ہے جن کے کارناموں کی گواہی سارا عالم دیتا ہے جنھوں نے اپنی عمر کے آخر ی پڑاو پر بھی ایسی حیرت انگیز مثالیں پیش کیں جو جوانوں سے بھی ممکن نہ تھیں۔ کہیں ایجادات، کہیں جوکھم بھرے مہمات اور کبھی تلاش و انکشافات جس کے سبب ان کے بڑھاپے کو وقار ملا۔ اس میں وہ لوگ بھی ہیں جن کو فرصت صرف بڑھاپے میں ہی ملی‘ اُن کی جوانی بھی عام آدمی کی طرح اپنی صبحوں کو شام کرنے میں صَرف ہوئی لیکن جب یہ لوگ اپنی عمر کی آخری مہلت کو پائے تب اپنی عمر کو بھول کر عزائم کے سہارے اپنے بڑھاپے میں عزت سے جینے میں صرف کیا۔ آیئے ان میں سے چند نام دیکھتے ہیں :
Yuichiro Miura نامی 80 سالہ عمر کا ایک بلند ہمت شخص جس کے قدم ہمالیہ کی چوٹی نے چومے۔Tamae Watanabe نامی خاتون نے 73 سال کی عمر میں ایورسٹ کی چڑھائی مکمل کی۔ Fred Mack نامی ایک جانباز شخص جس نے اپنی100ویں سال گرہ نیو جرسی کے شہر میں 13,000-foot tandem jump سے منائی۔Leonid Hurwicz کو 90 سال کی عمر میں نوبل انعام سے نوازا گیا۔ Sister Madonna Bruder جو کیتھولیک چرچ کی خادمہ تھی86 عمر میں اس کے مہمات دیکھیں۔ پہلے تو اس نے26.2 میل کی میراتھن دوڑ مکمل کی پھر 2.4 میل کی تیراکی کا ریکارڈ بنایا اور 112 میل کی موٹر بائیک کے مقابلے میں بھی حصہ لیا۔ Nola Ochs شہر کنساس کی 95 سالہ خاتون جس نے اپنی گریجویشن مکمل کی اور 98 سال کی عمر میں ماسٹرز بھی مکمل کیا۔ جرمنی کی Johanna Quaas 88 سالہ خاتون نے جمناسٹک کا حیرت انگیز عالمی ریکارڈبنایا۔ ایسے ہی ہزاروں واقعات ہیں جو ہمیں اتنی دلیل تو دے جاتے ہیں کہ عزائم پر بڑھاپا نہیں آتا۔ عمرکو گِن گِن کر جینے کے بجائے ایک بھلے گُن کے ساتھ جیا جانا چاہیے۔ عمر کوئی بنیے کا کھاتا نہیں۔ یہ توحسنِ فطرت کی عطا ہے۔ اس پر ایک ہی بہار کا موسم رہتا ہے۔ خزاں پاس نہیں پھٹکتی۔ ایسے لوگوں کے لیے زندگی جذبات کے ایندھن سے چلتی ہے۔بقول اقبالؔ
ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام
سخت کوشی سے ہے تلخ زندگانی انگبیں
اس شعرکی روح یہ ہے کہ سخت کوشش سے ہے تلخی حیات شہد جیسی میٹھی لگتی ہے اور شباب صرف ایک ذہنی رویہ کا نام ہے۔ ورنہ ہمارے آس پاس ایسی کئی کم عمرلوگ ہوتے ہیں جن کے عزائم بوڑھوں سے زیادہ بوڑھے ہوتے ہیں۔ اگر عزائم کو جوانیوں کا سبق یاد رہے اور عمر کے سبب بصارت بھی کم ہو جائے تو وہ بصیرت کے نور سے پیش قدمی کرتے ہیں۔ اگر ان کے پائوں لڑکھڑائیں تو وہ اپنے پایۂ استقامت کو تھام لیتے ہیں۔ اگر توانائی ساتھ چھوڑ دے تو اپنی تمناوں کو آواز دیتے ہیں۔
اس کے برعکس جو عمر ڈھلتے ہی کسی بد دُعا کی طرح زندگی گزارتے ہیں اور اس کا ورد کرتے ہیں کہ ’’شباب سیر کو آیا تھا سوگوار گیا۔‘‘ ہمیں دیکھ کردنیا کہتی ہوگی کہ ان کی گزری ہوئی جوانی تو فطرت کی اتفاقی بھیک ہوگی جو ان کی جھولی میں قدرت نے ڈال دی تھی۔ اور با خبر لوگ اپنے بڑھاپے کو فنکاری بنادیتے ہیں۔ انہیں گزری ہوئی عمر جیسے ان کی جمع پونچی و سرمایہ لگتی ہے۔ یہی مرکزی اور جمال آفریں فرق ہوتا ہے جو جگ جیتنے اور حیات ہارنے کا ہے۔ ہم غم بھولنے کے بجائے مہم بھولتے ہیں۔ ہم اپنی تمام تر صلاحیتوں کے باوجود کسی بہتر زمانے کے مہدی کے انتظار میں سمٹے رہتے ہیں۔ کبھی تو بے نتیجہ ندامتوں کے سپرد ہوکر‘ کبھی مایوسی میں گھِر کر رحمتوں کی زمین چھوڑ دیتے ہیں۔ برکتوں کا آسمان بھول کر بے سمت بھٹکنے کو بڑھاپے کا نام دیتے ہیں۔ مایوسی کو گئے دنوں کا پچھتاوا بنا کر اسے اپنے ساتھ ساتھ لیے پھر تے ہیں۔ گئے دنوں کی پسپائی اور ملال اوڑھ کے جیتے ہیں۔ گزری یا گزاری ہوئی گھڑیاں سوچ سوچ کر پچھتاتے رہتے ہیں۔ رویوں میں رسوا کن عجزنظر آتا ہے۔ پژمردہ منت ایسے اتر آتی ہے کہ جیسے ہم کوئی ہاتھ پائوں کٹے قابلِ رحم فقیر یا ذہنی معذور ہوں۔
فطرت کا اصول ہے کہ ذہن سے ہی عمر کا چشمہ پھوٹتا ہے۔ بدن تو صرف اس کے چھڑکاو کا تر محسوس کرتا ہے۔ اس لیے جب کبھی اپنی عمر کے سورج کو ڈھلتے دیکھیں تو وقت سے پہلے اپنے ارادوں کی قبر کھودنا شروع نہ کریں۔ اپنے زوال پذیر احساس کو کسی جمال آفریں تصور سے آباد کرلیں۔ بھلے کوئی اس کی قدر افزائی کرے نہ کرے۔ یہ دیکھیں کہ اپنی بستی میں کتنے چھوٹے موٹے ایسے کام ہیں جو آپ کے سابقہ تجربات سے پورے ہوسکتے ہیں۔ اپنے سابقہ تعلقات سے اس کو پورا کروا دیں۔ کہیں سرکاری نل بنا دیں‘ کہیں راہ کی رکاوٹ دور کردیں‘ رشتوں میں ٹوٹے ہوئے پل جوڑدیں‘ کسی دکان پر تھوڑی دیر کے لیے بیٹھ کر اس کی مدد کر دیں‘ کسی کو سڑک پارکروا دیں‘ کسی بچے کو پڑھا دیں‘ کسی بچے کے اسکول میں اس کا ٹفن کھلا دیں‘ دواخانے میں کسی بیمار کا کوئی کام کردیں‘ کسی ادارے کے لیے اپنا دامن پھیلاکر چندہ مانگ لیں‘ کہیں مراسلہ لکھیں‘ کوئی فارم پُرکر دیں‘ کوئی فلاحی ادارے کا فائل لے کر کسی سرکاری دفتر میں کسی رکے ہوئے کام کی پیروی کرکے اس ادارے کو زندگی دے دیں‘ اپنی گلی کا تھوڑا سا کچرا صاف کردیں‘ کسی یتیم خانے پر جا کر انھیں بزرگوں کا پیار دے دیں۔ کسی ایک کو پڑھا لکھا دیں، کسی کا غم بھلادیں۔ جتنے قدم اتنے مہم آپ کی راہ تک رہے ہیں۔ کسی باخبر شہری کی طرح حکومت کو اہم و تعمیر ی خبر دیں۔ غیر متعلق جینے کی لعنت سے نکل کر کسی اہم سماجی خیر و قدر کو زندگی دیں۔ صحتِ عامہ کو سہارا دیں۔ حقیقی معذوروں کی حقیقی مدد کریں۔ کہیں پودا لگا دیں۔ کسی پودے کو پانی دے دیں۔ اصل میں ہوتا یوں ہے کہ لوگ اپنے باغ میں نہر سے پانی دیتے ہیں لیکن سماجی میں کسی کی ٹوٹی ہوئی شاخ کو قطرہ بھی نہیں دیتے۔ یہ موقع کہنے کا نہیں کرنے کا ہوتا ہے۔ سرسیدؒ نے کہا تھا کہ ’’مغربی قوموں کی ترقی کا راز اُن کے تعلیم یافتہ افراد کے ایثار کا نتیجہ ہے‘‘۔ یہ اس وقت ممکن ہے ہم اپنے مسیحائی کے منصب کو جانیں۔ اگر ہم خود ذہنی بیمار گردانے جائیں تو پھر علاج کون کرے؟

حصہ