بذلہ سنجی اور جملے بازی

511

ادیبوں اور شاعروں میں بذلہ سنجی اور جملے بازی میں‘ ماضی قریب میں چند مشہور اہلِ قلم میں زیڈ اے بخاری، صوفی تبسم، چراغ حسن حسرت، عبدالمجید سالک اور ماہرالقادری بہت معروف رہے ہیں۔ یوں تو ان کے علاوہ بھی دیگر فنکاروں میں یہ صلاحیت پائی جاتی ہے لیکن ہم ان چار کا بطور خاص تذکرہ مختلف مصنّفین کی تحریروں کے حوالوں سے پیش کریںگے۔ اس میدان میںزیڈ اے بخاری کا مقام سب سے بلند نظرآتا ہے۔ وہ اپنے ماتحتوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے تھے اور اگر سخت جواب کا سامنا ہوتا تو نارا ض ہونے کے بجائے لطف اٹھاتے تھے۔ جملے چست کرنا ان کے کردار کا اہم پہلو تھا۔
معروف صحافی اور کالم نگار نصراللہ خان اپنی کتاب ’’کیا قافلہ جاتا ہے‘‘ میں بخاری صاحب پر لکھے گئے کالم میں لکھتے ہیں ’’ایک مرتبہ انھوںنے برصغیر کے مایۂ ناز خوش نویس بھائی یوسف مرحوم سے‘ جو نہایت میلے کچیلے رہتے تھے،کہا ’’بھائی یوسف! آج اللہ کا نام لے کر نہا ڈالو اور سارا میل کچیل اتار پھینکو، اللہ پھر دے گا۔‘‘
بخاری صاحب کی یاد میں مرزا ظفرالحسن کی مرتب کردہ کتاب ’’یادِ یارِ مہرباں‘‘ میں سید غلام حسین جعفری اپنے مضمون میں لکھتے ہیں ’’ایک مرتبہ کہنے لگے ’’لوگ کہتے ہیںجسم کی مالش کروانے سے جسم تندرست اور توانا ہو جاتا ہے۔ میں کہتا ہوں بھئی دیکھونا ورزش تو اس کی ہوتی ہے جو مالش کرتا ہے تو بھلا پھر مالش کروانے والے کا جسم کس طرح صحت مند ہوتا ہے۔‘‘
اسی مذکورہ کتاب میں اسلم فرخی اپنے مضمون ’’دوانہ مرگیا آخر کو‘‘ میں بیان کرتے ہیں ’’مرکز میں ایک بوڑھے شاعر آتے تھے۔ استاد انصاف، داغ کے شاگرد تھے۔ بخاری صاحب ہمیشہ اُن کے پاس بیٹھتے اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اُن سے بیڑی مانگ کر پیتے تھے۔ کبھی کبھی استاد جھلّاجاتے اور کہتے تم اپنا سگریٹ کیوں نہیں پیتے؟ بخاری صاحب پیکٹ ان کی طرف بڑھا دیتے اور کہتے یہ آپ پئیں مگر مجھے بیڑی ہی پلائیں۔ ایک دن تنقیدی نشست کے اختتام پر استاد نے غزل سنائی جب اس مصرعے پر پہنچے کہ ’’رات نالوں میں گزرتی ہے کہاں سوتا ہوں میں‘‘ تو بخاری صاحب اچھل پڑے۔ بے اختیار بولے ’’استاد کیا ٹھکانا تلاش کیا ہے۔ نالہ بھی نہیں چھوڑا۔‘‘ اب استاد بگڑ رہے ہیں۔ ارے وہ نالہ نہیں۔ مگر بخاری صاحب ہیں کہ جھوم رہے ہیں ’’کیا انتخاب ہے… کیا تلاش ہے۔‘‘ آخر استاد کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ بخاری صاحب جھوم رہے تھے اور سارا مجمع ہنس رہا تھا۔ استاد بکتے جھکتے اٹھ گئے اور کہہ گئے ’’اب جو یہاں آئے اُس پر لعنت۔‘‘ بخاری صاحب نے کہا ’’استاد بیڑی تو پلاتے جائو۔‘‘ استاد نے بنڈل نکال کر پھینک دیا اورچلے گئے۔ خدا معلوم بخاری صاحب نے کیا جادو کیا کہ اگلے جلسے میں استاد انھیںکے پاس بیٹھے تھے اور حسب دستور بیڑیاں پلا رہے تھے۔‘‘
اسی مضمون میں اسلم فرخی مزید لکھتے ہیں ’’اس مشاعرے میں دلی کے ایک بزرگ نے اپنی غزل میںجب مطلع پڑھا:
فرس و فیل سے نہ فرزانے سے
زچ ہوا عشق فقط حسن کی شہ کھانے سے
تو بخاری صاحب نے زانو پر ہاتھ مار کر کہا ’’قیامت کر دی‘ پوری چال ایک مطلعے میں۔‘‘ بزرگ تو جھوم جھوم کر آداب و تسلیمات میں مشغول ہوگئے۔ سامعین کے چہروں پر مسکراہٹ دوڑ گئی مگر بخاری صاحب کے چہرے پر تبسم کا ہلکا سا نشان بھی نہیں تھا۔ بس جھومتے رہے۔
تابش دہلوی اپنے مضمون ’’برا آدمی‘‘ میں لکھتے ہیں ’’ان سے پہلی ملاقات 1947ء میںلاہور میں ہوئی۔ ایک روز مجھ سے فرمایا ’’تابش صاحب! پاکستان بن گیا ہے، اب دہلوی وہلوی نہیں چلے گا۔‘‘ میں نے عرض کیا ’’بخاری صاحب! دلی بخارا سے تو قریب ہے۔‘‘ اس جواب سے خوش ہوئے۔ اسی طرح ایک روز میں خبریں پڑھ رہا تھا خبروں کے بعد مجھے طلب کیا، کہنے لگے آپ دلّی کے ہیں۔ یہ لفظ نِشَست ہے یا نَشِست ، میں نے کہا میں دلّی کا ہوں اور لفظ فارسی کا، تلفّظ نِشَست ہے۔ اس جواب پر مجھے غور سے دیکھا اور پھر محبت سے اپنے پاس بٹھالیا۔‘‘
ان کے انتقال پر لکھے گئے تعزیتی مضمون‘ جو اُن کے رسالہ ماہنامہ ’’فاران‘‘ اگست 1975کے شمارے میں شائع ہوا‘ ماہرالقادری صاحب لکھتے ہیں ’’مجاز لکھنوی سے یہ لطیفہ منسوب ہے کہ وہ پطرس بخاری کو‘ جو زیڈاے بخاری کے بڑے بھائی تھے‘ ’’صحیح بخاری‘‘ اور بخاری صاحب کو ’’غلط بخاری‘‘ کہا کرتے تھے!‘‘ بخاری صاحب یہ لطیفہ خوب لطف لے کرسناتے تھے۔
ریڈیو اور ٹی وی کے اعلیٰ عہدیدار آغا ناصر اپنی کتاب ’’گمشدہ لوگ‘‘ میں بخاری صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں ’’بخاری صاحب کو اختلاف رائے بالکل پسند نہیں تھا، لہٰذا مرزا صاحب (مرزا ظفرالحسن) سے تھوڑا سا بے رخی کا انداز اختیار کر گئے۔ اگلے روز شام کو پھر لوٹ آئے تو مرزا صاحب سے کہا ’’یار چائے پلوائیے۔‘‘ چائے آگئی تو انھوںنے اِدھر اُدھرگزرنے والوں کو ایک ایک کر کے بلانا شروع کر دیا۔ جب خاصے لوگ جمع ہو گئے تو کہنے لگے ’’بھئی کل مرزا ظفرالحسن سے بڑی بحث ہوئی اورکوئی فیصلہ نہ ہوسکا اورآخر میں مجھے کہنا پڑا کہ مرزا صاحب آپ میرے رہن سہن پر حملہ کریں، میں پلٹ کر آپ کے رہن سہن پر حملہ کروں گا۔ آپ میرے مال و اسباب پر حملہ کریں، میں آپ کے مال و اسباب پر حملہ کروں گا۔ آپ میرے عہدے اور رتبے پر حملہ کریں، میں آپ کے عہدے اور رتبے پر حملہ کروں گا مگر آپ میری عقل پر حملہ کرتے ہیں تو میںآپ کی کس چیز پر حملہ کروں؟‘‘
اس میدان کے دوسرے کھلاڑی صوفی تبسم ہیں۔ صوفی صاحب کا فقرے بازی میں جواب نہ تھا۔ وہ جہاں بیٹھ جاتے پُر مزاح باتوں اور ہنسی مذاق کا دریا بہا دیتے۔ ان کی بذلہ سنجی سے بچے بھی لطف اندوز ہوتے۔ اُن کا تخلیق کردہ کردار ’’ٹوٹ بٹوٹ‘‘ تھا۔ انھوں نے بچوں کے لیے نظمیں کہیں اور یوں وہ بچوں میں بھی بہت مقبول تھے۔ کشور ناہید اپنی کتاب ’’شناسائیاں رسوائیاں‘‘ میں لکھتی ہیں ’’صوفی صاحب سڑک پر جا رہے ہوتے تو بچے اپنی مائوں کی ٹانگوں سے لپٹ کر ضدکرتے ’’وہ دیکھیں ٹوٹ بٹوٹ جا رہے ہیں۔ مجھے ملوائیں۔‘‘ صوفی صاحب خود رک جاتے بچے کو گود میںلیتے، اُس کی ناک سے ناک رگڑتے، بچے کو پیار کرتے۔ بچہ نہال ہو جاتا۔ صوفی صاحب آگے بڑھتے۔‘‘
ایک دوسرا واقعہ درج کیا گیا ہے ’’ایک دن کوہِ قاف کے بارے میں بحث ہوگئی۔ فیض صاحب نے کہا کہ کوہِ قاف روس میں ہے۔ صوفی صاحب نے غصے میں کہا ’’تو کوہِ قاف وی روس نوںدے دیتا اے۔‘‘ ان کی بذلہ سنجی کا ایک قصّہ درج کیا ہے ’’ایک دفعہ ہم بیڈن روڈ سے گزر رہے تھے۔ دودھ والا کڑاہی میں دودھ، مگ کے ذریعے اونچا لے جا کر پھینٹ رہا تھا۔ ہاتھ میں سگریٹ پکڑے، پہلے تو صوفی صاحب مسکراتے ہوئے اس کے ایکشن کو دیکھتے رہے پھر بولے ’’اے بھائی! گز دودھ مینوں وی دئیں۔‘‘ دودھ والا بھی ہنس پڑا اور ضد کی کہ آپ اب دودھ کا گلاس پی کر ہی جائیںگے۔
معروف صحافی اور کالم نگار نصراللہ خان کی کتاب ’’کیا قافلہ جاتا ہے‘‘ میں صوفی صاحب پر لکھے گئے خاکے میں ان کے مزاحیہ تبصروں کے چند واقعات درج کیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں’’1954ء میں وہ بنگالیوں کو اردو پڑھانے لگے۔ ایک بارصوفی صاحب نے مجھ سے ازراہِ مذاق کہا کہ ’’بنگالیوںکو اردو پڑھانے سے بنگالیوں کو تو تھوڑی بہت اردو آگئی لیکن میں اردو بھول گیا۔‘‘
وہ لکھتے ہیں ’’ایک مرتبہ انھوںنے ذوالفقار علی بخاری سے کہا ’ذرا میرے ایک گیت کا مکھڑا سنو۔‘‘
بخاری صاحب نے کہا ’’واقعی صوفی! تمھارا مکھڑا جو کبھی دیکھنے کا تھا، اب سنانے کا ہوگیا ہے۔‘‘
صوفی صاحب نے جواباً کہا ’’تم اپنی شکل دیکھو۔ یوں لگتا ہے جیسے سفید تولیا سر پر باندھے پھر رہے ہو۔‘‘
ایک مزید واقعہ یوں لکھا ہے ’’ریڈیو پاکستان میں ایک نوجوان گانے والی صوفی صاحب سے کسی کی باتیں کرتے کہنے لگی ’’اب دیکھیے نا صوفی صاحب آپ ہمارے بزرگ ہیں۔‘‘ صوفی صاحب نے مسکرا کر میری طرف دیکھ کر کہا ’’یار اس بزرگی سے ہم پریشان ہوگئے‘ اس نے ہمارا نرخ بھائو کم کردیا ہے۔‘‘
اس فن مین چراغ حسن حسرت کا بھی اونچا مقام ہے۔ وہ اپنے ہم عصروں میں ’’مولانا‘‘ کے نام سے معروف تھے۔ نصراللہ خان ان کے بارے میں لکھتے ہیں ’’حسرت صاحب میں کوٹ کوٹ کر شوخی بھری ہوئی تھی۔ وہ بڑے بذلہ سنج تھے۔ جملے بازی میں اُن کا کوئی جواب نہیں تھا۔ ایک مرتبہ ایک مشاعرے میں حفیظ صاحب نے حسرت صاحب کی طرف اشارہ کر کے کہا ’’مولانا مصرع اٹھائیے۔‘‘ مولانا کھڑے ہو گئے اور فرمایا ’’مردے اٹھاتے اٹھاتے ساری عمر گزر گئی۔‘‘
ان کا درج کردہ حسرت صاحب کی بذلہ سنجی کا ایک واقعہ اور ہے ’’جب چیانگ کائی شیک جنگ ہار گیا تو مولانا سے میاں افتخار الدین نے پوچھا ’’مولانا! اب چیانگ کائی شیک کیا کرے گا‘‘؟
مولانا نے کہا ’’وہ بھی کوئی اخبار نکال لے گا۔‘‘
ایک صاحب نے جو بزاز تھے اورحسرت صاحب کے پرستاروں میں تھے، ان سے کہا ’’حسرت صاحب! میرا ارادہ ایک اخبار نکالنے کا ہے۔‘‘ حسرت صاحب نے کہا ’’ضرور نکالیے۔ رات کو لٹھے پہ چھاپا اور صبح ہوتے ہی دھو ڈالا‘‘۔
مجید لاہوری پر لکھے گئے تعزیتی مضمون میں ماہرالقادری لکھتے ہیں ’’چراغ حسن حسرت کا اکثر ذکر کرتے، کہتے تھے کہ حسرت دھوبی، حجام، تانگہ والے یہاںتک کہ طوائف کو بھی ’’مولانا‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔‘‘
ماہرالقادری صاحب نے آغا شورش کاشمیری کے بارے میں ایک لطیفہ ان کے انتقال پر لکھے گئے تعزیتی مضمون میں لکھا ہے ’’آزاد کشمیر کے صدر مقام مظفر آباد میںیومِ اقبال منایا گیا۔ آغا شورش کاشمیری نے بڑی دھوم کی تقریرکی۔ ایوب خان کا دورِحکومت تھا، ایک پتنگا اُڑتا ہوا ان کے قریب آن پہنچا، آغا شورش اُسے پکڑکرچٹکی سے مسلتے ہوئے اپنے خاص انداز میں بولے ’’یہ B.Dکا ممبر کہاں سے آگیا۔‘‘ تمام مجمع بے اختیارہنس پڑا۔‘‘
ایک دوسرا واقعہ اسی مضمون میں تحریر کیا ہے ’’آغا گل صاحب کی کسی فلم کی شوٹنگ ہو رہی تھی، آغا صاحب نے چائے نوشی اور شوٹنگ دیکھنے کی دعوت دی، مغرب کے بعد نخشب جارچوی، ذکی کیفی اور راقم الحروف شوٹنگ دیکھ رہے تھے، اتنے میں حمید نظامی مدیر ’’نوائے وقت‘‘ اور آغا شورش وہاں تشریف لے آئے اور مجھے دیکھتے ہی آغا نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ’’ماہرصاحب! آپ کا یہی صحیح مقام ہے ’’جمنا کا کنارہ‘‘ جیسی رنگین نظم کہنے والا جماعت اسلامی میںکہاںجا پھنسا۔‘‘
د وسرے دن شورش ادارہ اسلامیات میںتشریف لائے اور بولے کہ میںرات کے واقعے پر نظم کہوں گا۔ راقم الحروف نے عرض کیا کہ میں نے تو نظم شروع بھی کردی اور ارتجالاً یہ شعرپڑھا:
لطف لینے کا جہاں جذبہ بھی تھا کوشش بھی تھی
ہائے! وہ محفل جہاں شورش بھی تھا شورش بھی تھی
ان کے جانے کے بعد مولانا ذکی کیفی نے کہاکہ آغاشورش اب نظم نہیں کہیںگے‘‘۔
ماہر القادری صاحب نے مزید لکھا ’’یہ لطیفہ بارہا مضامین میں آچکا ہے کہ لاہور میں شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی کے ساتھ شکیل تانگے میں جا رہے تھے۔ کسی بات پر شکیل کے منہ سے ’’اللہ‘‘ نکلا اس پر ’’ہمیںکس نے پکارا…‘‘ جوش نے طنزیہ اندازمیں کہا۔ یہ شیطان کی آواز کہاںسے آئی… شکیل نے جواب دیا۔‘‘
(جاری ہے)

حصہ