عزت اور ذلت کے پیمانے

664

اکثر انسانوں کی بیشتر سرگرمیاں مسرت اور عزت کے تصورات کے گرد طواف کرتی نظر آتی ہیں۔ تاہم مسرت اور عزت کے تصورات کے درمیان ایک نوعی فرق ہے۔ مسرت مقصد ہے اور عزت اس کے حصول کا ذریعہ، اور یہ بات طے ہے کہ مسرت کے حصول کے جتنے ذرائع ہیں عزت اُن میں بہت نمایاں مقام رکھتی ہے۔ فرد خواہ انفرادی حیثیت میں سرگرم ہو یا اجتماعی حیثیت میں، اس کی سرگرمیوں کا محور ہر صورت میں مندرجہ بالا تصورات رہتے ہیں۔ دنیا میں بہت کم انسان ایسے پائے جاتے ہیں جن کی سرگرمیاں عزت کے تصور سے آلودہ ہونے کے بجائے صرف کسی فعل سے حاصل ہونے والی مسرت کے حصول تک محدود رہتی ہیں۔ ایسے افراد کے لیے نام نہاد معاشرتی عزت و تکریم کا حصول کوئی معنی نہیں رکھتا۔
مسرت کی ضد دُکھ ہے اور عزت کی ضد ذلت۔ ہر انسان ذلت سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ کسی بڑی ذلت سے بچنے کی خواہش کبھی کبھی اتنی شدید ہوتی ہے کہ انسان اس کے لیے جان تک کی بازی لگادیتا ہے۔ بلکہ کبھی کبھی تو یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ ذلت سے بچنے کے لیے اپنی بچی کھچی عزت بھی دائو پر لگادیتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ عزت اور ذلت کے ان تصورات کی تعریف کیا ہے؟ یعنی ہمارے ان تصورات کے نفسیاتی، سماجی اور اخلاقی محرکات کیا ہیں؟
نفسیاتی اعتبار سے عزت کی توجیہ اس کے سوا کچھ نہیں ہوسکتی کہ انسان عزت کے ذریعے اپنے ہونے کا احساس کرتا ہے۔ اس کے برعکس اسے جب ذلت کا سامنا ہوتا ہے تو وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے ہونے کا انکار کیا گیا ہے، اس کے وجود کی تردید کی گئی ہے۔ سماجی اعتبار سے ان تصورات کی وضاحت یہ ہے کہ عزت کے ذریعے انسان محسوس کرتا ہے کہ وہ اجتماع کے درمیان نمایاں ہے، ممتاز ہے اور اجتماع نے اس کے وجود کو قبولیت بخشی ہے۔ جب کہ ذلت کی صورت میں اس کی انفرادیت کا احساس مجروح ہوتا ہے اور اسے لگتا ہے کہ معاشرے نے اس کی اجتماعی شخصیت کو رد کردیا ہے۔
اخلاقی نقطۂ نگاہ سے ان تصورات کی تشریح یہ ہے کہ عزت کے حوالے سے انسان اپنے آپ کو بہت سے لوگوں سے اچھا محسوس کرتا ہے۔ دوسروں سے زیادہ اچھا ہونے کا احساس اس کے وجود کے اخلاقی رُخ کو تسکین فراہم کرتا ہے۔ جب کہ ذلت کی صورت میں وہ محسوس کرتا ہے کہ اسے بُرے لوگوں کی صف میں شامل کردیا گیا ہے۔ یا وہ خود شامل ہوگیا ہے۔
کسی صورت میں یہ تینوں محرکات بیک وقت بھی کام کرسکتے ہیں اور کبھی کبھی ان میں سے کوئی ایک محرک بھی برسرِعمل ہوسکتا ہے۔ اس کا انحصار بڑی حد تک اُس صورتِ حال پر ہوتا ہے جس میں انسان مبتلا ہو۔
جس طرح عزت مسرت کے حصول کا ذریعہ ہے اسی طرح عزت کے حصول کے بھی کچھ ذرائع ہیں۔ ان میں سے کچھ معروف اور نمایاں ترین ذرائع یہ ہیں:
-1 شہرت
-2 مال و دولت
-3 قوت
-4 خاندانی یا گروہی پس منظر
-5 علم
-6 اچھائی (تقویٰ)
موجودہ دُنیا میں عزت کے حصول کے یہ نمایاں ترین ذرائع ہیں اور تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ان کی ترتیب بھی یہی ہے۔ تاہم ایک وقت تھا کہ ان کی ترتیب یہ نہیں تھی۔ بہرکیف فی الحال ہمیں اس بات سے غرض نہیں ہے۔
مندرجہ بالا چھ ذرائع میں سے اوّلین چار ذرائع کو فی زمانہ سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ ان کی اہمیت تو خیر ہے ہی ہولناک بات، لیکن اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ یہ ذرائع عزت و ذلت کے پیمانے بھی ہیں۔ ہمارے محترم اسلامی معاشرے میں بھی ان کو یہی مقام حاصل ہے۔
اب اس کے معنی یہ ہیں کہ جو مشہور ہے، مال و دولت والا ہے، قوت و اقتدار کا مالک ہے، شاندار خاندانی یا گروہی پس منظر رکھنے والا ہے وہی عزت والا ہے۔ اور جس کے پاس یہ تمام چیزیں موجود نہیں وہ عزت و تکریم کا مستحق نہیں۔ یہ صرف معنی کی بات نہیں، حقیقی صورتِ حال بھی یہی ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ شہرت بہت سے اچھے کاموں سے بھی حاصل ہوتی ہے۔ مگر یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک آدمی زندگی بھر اچھے کام کرکے بھی مشہور نہیں ہوپاتا۔ یہ عام زندگی کا تجربہ ہے۔ چناں چہ اس بات کی صداقت کو محسوس کرنے کے لیے کسی فلسفی کی کتاب پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ اس اعتبار سے شہرت جو عزت کے حصول کا ذریعہ ہے اور اب ہمارے یہاں پیمانہ بن گئی ہے، دراصل ایک جھوٹا پیمانہ ہے۔
یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ مال و دولت ایمان داری کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے باوجود بھی جمع ہوسکتے ہیں۔ مگر اکثر صورتوں میں دولت کی فراوانی بدترین قسم کی بے ایمانیوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ دولت کی فصل بے ایمانی کی کھاد کے بغیر شاذ و نادر ہی سرسبز ہوتی ہے۔ چناں چہ ایک ایسی چیز جس کی بنیاد ہی میں بے ایمانی شامل ہو، عزت و تکریم کا سبب کیسے ہوسکتی ہے؟ چناں چہ یہ پیمانہ بھی باطل ہے۔
فی زمانہ خاندانی اور گروہی پس منظر بھی بڑا اہم سمجھا جاتا ہے۔ خیر پہلے بھی اہم سمجھا جاتا تھا۔ تاہم یہ ایک انتہائی احمقانہ پیمانہ ہے۔ کسی بشر کو اپنی پیدائش پر کوئی اختیار نہیں، اس لیے کوئی اعلیٰ خاندان میں پیدا ہوتا ہے اور کوئی ادنیٰ خاندان میں۔ نہ ادنیٰ خاندان میں پیدا ہونے والا اس کا عذاب سہنے کا مکلّف ہے اور نہ اعلیٰ خاندان میں پیدا ہونے والا شخص محض اس بنیاد پر اپنے خاندان پر فخر کرنے کا حق دار۔ انسان اگر خود کچھ نہیں تو اُس کا اپنے خاندان یا گروہ پر فخر کرنا اپنی حماقت کو ظاہر کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ یہ پیمانہ بھی غلط ثابت ہوا۔
اب رہ گئے علم اور تقویٰ۔ ہماری تہذیب میں ان دونوں عناصر کو بہت اہمیت حاصل رہی ہے۔ علم وہ واحد چیز ہے جس کے بارے میں ایک حدیث میں آیا ہے کہ اس پر رشک جائز ہے۔ خود اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کو انسانوں کی برتری اور کمتری کا پیمانہ بتایا ہے۔ جو جتنا زیادہ متقی ہے وہ اللہ کے اتنے ہی زیادہ نزدیک ہے۔ تو گویا عزت کے حقیقی پیمانے صرف دو ہیں۔ اب ذرا اس حوالے سے اپنے ’’اسلامی‘‘ معاشرے کا جائزہ لیجیے اور دیکھیے کہ اس میں عزت و ذلت کے پیمانے کیا ہیں اور اس اعتبار سے یہ معاشرہ کتنا اسلامی ہے؟ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ بھی دیکھیے کہ ہزار کوششوں کے بعد اس معاشرے کے اسلامی بننے کے کتنے امکانات ہیں؟ اور اس میں تبدیلی لانے کے لیے ہمیں کیا کیا کچھ کرنا پڑے گا؟
اب ذرا ہم عام زندگی کے تجربات کا رُخ کرتے ہیں اور یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ عام زندگی میں عزت و ذلت کے تصورات کس طرح کام کرتے ہیں اور وہ کس حد تک درست ہیں؟
اگر ہمیں کوئی گالی تو کیا صرف بُرا بھی کہہ دے تو ہم آگ بگولہ ہوجاتے ہیں اور اس میں اپنی ہتک محسوس کرتے ہیں۔ حالاں کہ اس میں ہتک کی کوئی بات نہیں، خاص طور پر اس صورت میں جب ہم کسی شخص کے بیان کے مطابق نہ ہوں۔ مگر ہم اس کے باوجود بھی مشتعل ہوجاتے ہیں۔ اس اعتبار سے معاشرے میں عزت کا پیمانہ یہ ہوا کہ ہمارے بارے میں کسی قسم کی منفی رائے کا اظہار نہ کیا جائے۔ تو گویا جس کے بارے میں منفی رائے کا اظہار نہ کیا جائے وہ باعزت شخص کہلاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ عزت کا یہ پیمانہ بھی جعلی ہے۔
اس کے علاوہ ہمارے رہنے سہنے کے معاملات، شادی بیاہ کے تصورات اور زندگی کے دیگر معاملات میں اسی طرح کے پیمانے بنے ہوئے ہیں اور ہمارا معاشرہ جی جان سے نہ صرف یہ کہ ان پر یقین کررہا ہے بلکہ ان کی تقویت کے لیے بھی کام کررہا ہے۔
اس پوری صورتِ حال سے ایک بہت ہی ہولناک نتیجہ برآمد ہوتا ہے، اور وہ یہ کہ ہماری تمام اجتماعی سرگرمیاں جھوٹے پیمانوں کی تشکیل، تقویت، استحکام اور وسعت کے لیے استعمال ہورہی ہیں۔ اگر ایسا ہے تو ہماری تمام سرگرمیاں کس قدر نفرت انگیز اور غیر انسانی ہیں۔ اس اعتبار سے ان سرگرمیوں میں اُلجھنے کے باعث ہماری اذیتیں، مشکلات اور رنج و الم کتنے غیر حقیقی اور اضافی ہیں اور ہم خدا کے رحم و کرم کے کتنے کم حق دار ہیں!!
مگر یہ باتیں اب کس کی سمجھ میں آئیں گی!!؟؟ کیا آپ کی سمجھ میں آتی ہیں؟؟

حصہ