کہا جاتا ہے رشتے ہی زندگی کا رنگ ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی نے فاصلے کم کردیے مگر رشتوں کی بہار اگر ہر سو پھیلی نہ ہو تو زندگی کتنی پھیکی پڑجاتی ہے، اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں۔ سو، رشتے تو ہر سو بکھرے ہوتے ہیں۔ اب یہ ایک سمجھ دار ذہن پہ منحصر ہے کہ کس طرح رشتوں کی بہار سے اپنے لیے ہر رنگ اور ہر طرح کے پھول سجا کر زندگی کو خوب صورت بناتا ہے اور کس طرح ان سے زندگی کا لطف اٹھاتا ہے۔ زندگی گزرتے وقت کا نام ہے اور وقت تو کٹ ہی جانا ہے، سو کیوں نا اپنے پرائے سب کو محبت بانٹ کر رشتوں کی قدر کریں، کیوں کہ رشتے بہت قیمتی ہوتے ہیں۔ ایسی ہی ایک کہانی ندا کی ہے جس کو وقت کی اونچ نیچ نے سمجھایا کہ زندگی کی بہار رشتوں کی چہچہاہٹ میں پوشیدہ ہے۔
’’اس کو موزے کیوں پہنا دیے اتنی گرمی میں! بچہ شرابور ہوجائے گا پسینے میں، گرمی دانے پھر کیا باقی گھر والوں کو ہوں گے؟‘‘امی نے تقریباً ڈانٹتے ہوئے کہا۔
’’وہ امی ایکچولی…‘‘
’’ہیں کیا کہہ رہی ہو؟‘‘
ندا کی ’’ایکچولی‘‘ ساس کو سمجھ نہ آئی۔
’’وہ امی دراصل شوز کے ساتھ سوکس سوٹ کرتے ہیں… میرا مطلب ہے جوتوں کے ساتھ موزے ٹھیک لگتے ہیں… پارٹی میں جانا ہے نا۔‘‘ ندا نے صفائی دی۔
’’ہاں تو یہ کوئی دلہن کا دادا ہے جو سب پہلے اس سے مل کر آگے بڑھیں گے؟ ڈھائی ماں کا بچہ ہے، اتارو اس کے لوکس!‘‘
’’امی سوکس، اچھا میں اتار دیتی ہوں۔‘‘ ندا نے بادل نخواستہ بچے کے موزے اتارے۔
ندا اور ماجد کی پسند کی شادی تھی، ماجد نے ندا سے کہا تھا کہ اماں کچھ دیسی مزاج کی ہیں، مگر دل کی بہت اچھی ہیں، ہم دونوں ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے ہیں، میں ہی ان کا سب کچھ ہوں، ہم نے مل کر زندگی کے نشیب و فراز دیکھے ہیں، لہٰذا ان کا بہت خیال رکھنا پلیز۔
اور ندا نے بھی ساتھ نبھانے کا وعدہ کیا تھا۔ لہٰذا وہ ہر سختی گرمی کو خوش اسلوبی سے برداشت کرنے کی پوری کوشش کرتی۔
پارٹی سے واپس آکر ندا کا تھکن سے برا حال تھا، ریان بھی سو رہا تھا، ندا کچھ دیر سستانے کو بستر پر لیٹ گئی کہ ایک لمبی پھونک سے سا کی آنکھ کھلی۔
’’پھووو… پھوووو…‘‘
ایک لمحے کو ندا ڈر سی گئی، اسے سمجھ نہ آیا کہ کیا ہوا ہے۔
’’تمہاری اور گڈے کی نظر اُتار رہی تھی، چاند کا ٹکڑا لگ رہی تھیں۔‘‘
’’کون، میں؟‘‘ندا نے مسکراتے ہوئے سوال کیا۔
’’نہیں، ریان کی آنکھیں، لاؤ اس کے کپڑے بدلوا دوں۔‘‘
ندا کی خوش فہمی ہوا میں اُڑ گئی۔ اس نے اٹھنا چاہا۔
’’لیٹی رہو، میں منہ بھی دھلاؤں گی، پتا نہیں کس نے لپ اسٹک والے پیار کیے ہوں گے۔‘‘یہ کہہ کر انہوں نے ابکائی کا منہ بنایا اور گڈے کو اٹھا کر لے گئیں۔
اگلے دن اس دعوت کے بعد بھی ندا کے منہ میں چھالے ہوگئے، وہ جب مرچ مصالحوں والے مرغن کھانے کھاتی، اس کے منہ میں چھالے ہوجاتے۔ جب اس نے امی سے اس بات کا ذکر کیا تو…
’’ہائے اللہ! میرے گڈے کی خیر، وہ تو ماں کا دودھ ہی پیتا ہے، اللہ پوچھے ان بازار کے کھانے بنانے والوں سے، ہر کھانے میں خراب چربی ڈالتے ہیں،ہائے بچی کھائے گی کیسے۔‘‘
اور پھر خود ہی انہوں نے ندا کا ہونٹ پکڑ کے اوپر کرلیا، دن میں تارے نظر آگئے۔
’’اتے بڑے بڑے سفید چھالے… یا اللہ یا اللہ…‘‘
پھر وہ یکدم اٹھیں اور کہیں چلی گئیں۔ واپسی پر ان کے ہاتھ میں دہی، سلاد کے پتے، کھیرے اور ہری سبزیاں موجود تھیں۔
’’ان سے تمہارے منہ میں آرام آئے گا۔‘‘
ہانپتی کانپتی امی کہہ رہی تھیں۔
’’میں کاٹ رہی ہوں، فی الحال پانی پیو، پانی کی کمی نہ ہونے پائے، جگر میں ویسے ہی گرمی بھری ہوئی ہے۔‘‘
دن یونہی گزرتے رہے، اماں کو ایک دن ندا نے الٹا ہاتھ دباتے دیکھا اور پھر کوئی دوسرا کام ہونے کی وجہ سے نظرانداز کردیا۔ رات کو اماں کے سینے میں شدید درد اٹھا، سب کی تکلیف پر شور مچانے والی، اپنی تکلیف پر کوئی خاص واویلا نہیں کررہی تھیں۔ ماجد اماں کو ہسپتال لے گئے۔ دو دن اماں سی سی یو میں رہیں، دل کا دورہ تھا، حالت خطرے میں تھی۔
ادھر ندا،جو اماں کی باتوں سے پریشان ہوکر دل میں کبھی کبھی الگ گھر کی تمنا کرتی، خالی گھر اس کو کاٹ کھانے کو دوڑ رہا تھا۔ ابھی ادھر اماں کی آواز کی گونج، اِدھر ریان سے لاڈ کی آوازیں، یا اللہ میں کہاں جاؤں!
’’ماں کو بائی پاس کے لیے لے کر جارہے ہیں، دعا کرنا۔‘‘ ماجد کا پیغام آیا۔آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔
’’گرمی دانے پھر کیا باقی گھر والوں کو ہوںگے۔‘‘
’’اماں مجھے معاف کردیں…میں نے آپ کی قدر نہیں کی۔‘‘
’’پتا نہیں کس نے لپ اسٹک والے پیار کیے ہوں گے۔‘‘
’’میرے گھر کی، میری زندگی کی بہار آپ ہیں۔‘‘
’’ان سے تمہارے منہ میں آرام آئے گا۔‘‘
’’اے اللہ! امی کو آرام دے دے۔‘‘
نہ جانے کتنی دیر نئے زمانے کی ندا اپنی ساس کے لیے سجدوں میں روتی رہی۔ وجہ رشتوں سے ملنے والی محبت تھی، احساس تھا، دل کے فاصلوں کو کم کرنے والے میٹھے بول تھے، اور پھر گھٹا ٹوپ اندھیروں کے بعد ایک روشن صبح بھیجنے والا رب خلوص سے مانگی گئی دعائیں رد نہیں کرتا۔
’’امی کی حالت خطرے سے باہر ہے۔‘‘ماجد نے ندا کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔
’’کیا میں مل سکتی ہوں؟‘‘
’’تمہیں ہی لینے آیا ہوں، وہ پوچھ رہی ہیں تمہارا۔‘‘
ندا نے آنسو صاف کیے اور امی کے پاس پہنچ گئی۔
’’اماں، میری پیاری اماں!‘‘
’’میرے گھر کی رونق، میری زندگی کی بہار…‘‘
’’اماں! آپ کو زیادہ بولنا نہیں ہے۔‘‘ ماجد نے ٹوکا اور پھر سوچنے لگا: اللہ نے زندگی کا سکون اور گھر کی رونق ان عورتوں کے ہاتھ ہی رکھی ہے۔ اللہ سب کے گھر کی بہار سلامت رکھے، آمین۔