ایک بوڑھا درزی اپنے کام میں مگن تھا کہ اس کا چھوٹا بیٹا دوکان میں داخل ہوا اور پرجوش آواز میں کہنے لگا بابا بابا میں نے اپنے درس کے ابتدائی قاعدے اچھی طرح یاد کر کے اپنے شیخ کو سنا دیے تھے انہوں نے مجھے امتیازی نمبروں کے ساتھ اگلی جماعت میں شامل کر لیا ہے۔
باپ نے خوش ہو کر بیٹے کا ماتھا چوما اور مبارک باد دی تو بیٹا کہنے لگا بابا آپ نے وعدہ کیا تھا کہ جب میں یہ قاعدے یاد کر لوں گا تو آپ مجھے زندگی گزارنے کا بہترین گُر سکھائیں گے بابا آج وہ وعدہ پورا کریں نا ۔
بوڑھے درزی نے کہا ہاں میرے بیٹے مجھے اچھی طرح یاد ہے میں ذرا کام سے فارغ ہو جاؤں تو پھر تمھیں کچھ حکمت کی باتیں نصیحت کرتا ہوں تم ایسا کرو ذرا وہ قینچی تو مجھے پکڑانا بیٹے نے باپ کو قینچی پکڑائی ۔
تو بوڑھے درزی نے قینچی کے ساتھ ایک بڑے کپڑے کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹنا شروع کر دیا کپڑا کاٹنے کے بعد قینچی کو زمین پر رکھے جوتوں میں پھینک دیا پھر سوئی اٹھائی اس میں دھاگہ ڈالا اور ان ٹکڑوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کر خوبصورتی سے سینے لگا ٹکڑوں کو ایک دوسرے کے ساتھ سی کر خوبصورت لباس میں بدلا اور سوئی کو سر پر بندھے عمامے میں لگا دیا پھر بچ جانے والے دھاگے کو جیب میں ڈال لیا۔
درزی کا بیٹا حیرانی سے یہ سب دیکھ رہا تھا اس سے رہا نہ گیا تو پوچھنے لگا بابا آج تو آپ نے عجیب کام کیے ہیں جو میں نے پہلے نہیں دیکھے تھے مہنگی قینچی کو زمین پر جوتوں میں اور سستی سوئی کو سر پر عمامے میں ایسا کیوں کیا ؟
اس کا درزی باپ مسکراتے ہوئے کہنے لگا بیٹا سنو میرے پاس وہ بڑا کپڑا ایک خاندان کی مانند تھا جس کو قینچی نے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹ دیا تھا تو قینچی اس شخص کی مثال ہے جو آپس میں مربوط و مضبوط رشتوں میں دراڑیں ڈال کر انہیں الگ ہونے پر مجبور کر دیتا ہے۔
سوئی کی مثال اس شخص کی ہے جو ان رشتوں کو دوبارہ ایک دوسرے کے ساتھ جوڑتا رہتا ہے اور دھاگے کی مثال ایک مدد گار کی ہے جو اگر سوئی میں نہ ہو تو وہ سی نہیں سکتی ۔
اب میرے بیٹے تم نے زندگی بھر اس نصیحت کو یاد رکھنا ہے کہ بظاہر قیمتی دکھائی دینے والے لوگ جو رشتوں کو فرقہ فرقہ کرنے والے ہیں ان کی جگہ قینچی کی مانند جوتیوں میں ہے اور ہمیشہ جوڑنے والے لوگ جو سوئی کی طرح بظاہر عام سے کیوں نہ دکھائی دیں انہیں ہمیشہ عزت و احترام سے سر پر بٹھا کر رکھنا۔
میرے بیٹے میری آخری نصیحت تم نے دیکھا کہ میں نے کام نمٹا کر دھاگے کو جیب میں رکھ لیا تھا اس سے مراد ہمیشہ اس بات کا خیال رکھنا کہ جب بھی کوئی کام کرنے کا ارادہ ہو تو آس پاس اپنے مدد گار مخلص دوست ضرور رکھنا۔
( قدیم عربی ادب سے ماخوذ حکایت)