نصیحت

212

کھیل کود ہر بچے کو اچھا لگتا ہے۔ لیکن جب یہ شوق حد سے بڑھ جائے تو نقصان کا باعث بن جاتا ہے۔ اسی طرح قاسم کو بھی کچھ زیادہ ہی کھیل کود پسند تھا اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ ہر وقت کھیلے،سارا دن باہر دوستوں کے ساتھ کھیلتا رہے اور جب گھر آئے تو سارا وقت کارٹون دیکھے۔ آج بھی قاسم اسکول سے آنے کے بعد مسلسل کھیل رہا تھا۔ اس کی امی نے کئی بار یاد دلایا کہ اس کو اسکول کا کام بھی کرنا ہے لیکن وہ سنی ان سنی کر جاتا۔ ابھی بھی وہ پوری شام دوستوں کے ساتھ کھیلنے کے بعد اب ٹی وی کھول کر بیٹھ گیا ۔
قاسم بیٹا! آپ نے ابھی تک ہوم ورک کیا ہے کب کریں گے؟ چلیں ٹی وی بند کریں اور اپنا بیگ لے کر آئیں۔ اب آپ تیسری جماعت میں پڑھتے ہیں۔ آپ کو اپنے کام کا خود خیال ہونا چاہیے۔
امی! ’’میں باہر سے کھیل کر آرہا ہوں مجھے بہت گرمی لگ رہی ہے میں نہانے جا رہا ہوں‘‘۔ قاسم ٹی وی بند کر کے نہانے کے لیے چلا گیا۔
’’پڑھنے کا جب بھی کہو اسے کچھ نہ کچھ یا آجاتا ہے۔‘‘امی نے بڑبڑاتے ہوئے کہا اور باورچی خانے کی طرف چل دیں۔
قاسم نے نہانے میں جان بوجھ کر کافی دیر لگائی نہاکر آکر وہ خاموشی سے ایک کونے میں بیٹھ کر کھیلنے لگا۔ امی کھانا پکانے میں مصروف تھیں اچانک انہیں پھر خیال آیا کہ قاسم کو ہوم ورک کرانا ہے اس سے پہلے بھی وہ غسل خانے کے کئی چکر لگا چکی تھیں۔
قاسم… قاسم! ’’کہاں ہو بھئی‘‘ امی نے آواز لگائی۔ ’’میں نے کہا تھا نا کہ نہانے کے بعد آپ ہوم ورک لے کر آئیںگے۔‘‘امی نے غصہ سے کہا۔
امی! ’’مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے قاسم نے رونی صورت بناتے ہوئے کہا‘‘۔
اب قاسم کی امی کیا کرتیں اٹھیں معلوم تھا کہ کھانا کھائے بغیر وہ کسی طرح پڑھنے کے لیے راضی نہیں ہو گا کیوں کہ وہ پڑھنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ وہ اس طرح وقت ضائع کرتا ہے اور کھانے میں بھی بہت وقت لگائے گا۔
انہوں نے اسے کھانا دیتے وقت سمجھایا۔ بیٹا! پرھنے لکھنے سے انسان کے اندر سمجھ آتی ہے، انسان کی عزت میں اضافہ ہوتا ہے، اسے اس بات کی سمجھ آتی ہے کون سا کام کیسے کرنا ہے، کیا صحیح ہے کیا غلط ہے، پڑھ لکھ کر آپ اچھے انسان بن سکتے ہو اور اچھی طرح رزق حلال کما سکتے ہو۔ قاسم کی امی اکثر اسے اسی طرح ہی سمجھاتی تھیں وہ بظاہر تو سن رہا ہوتا لیکن دل سے ان باتوں کو سمجھنے کی کبھی کوشش نہیں کرتا۔ اسی طرح وقت گزرتا گیا پڑھائی کی طرف توجہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ زیادہ پڑھ نہیں سکا اس کے بہن بھائی خوب پڑھ لکھ گئے۔ والدین نے کوشش کرکے اسے پرچیون کی دوکان کرا دی۔ گزر بسر ٹھیک ہی ہو رہا تھا۔ لیکن وہ واضح محسوس کرتا تھا کہ جو عزت اس کے پڑھے لکھے بہن بھائیوں کی ہے اس کی بالکل بھی نہیں۔ خاندان تو خاندان باہر کے لوگ بھی ان کی عزت کرتے اور ان سے مشورے کرتے۔ان کے درمیان وہ اپنے آپ کو بہت ہی کم تر محسوس کرتا۔ اب اسے اپنی ماں کی باتیں یاد آتیں تھیں۔ لیکن اس کا وقت اس کے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ وہ اب اپنے بچوں کو سمجھاتا تھا بالکل اپنی ماں کی طرح ان ہی الفاظ میں اور وہ بھی بالکل اسی کی طرح سنی ان سنی کر جاتے وہ پریشان ہو کر سوچتا کہ اس کی ماں بھی اس کے لیے اسی طرح ہی پریشان ہوتی ہوگی۔ واقعی جو نصیحت سے نہیں سمھجتے انہیں وقت سمھجاتا ہے۔

حصہ