صبح کو بادشاہ محل سے باہر نکلا تو یہ دیکھ کر بڑا حیران ہوا کہ دروازے کے سامنے کی ساری زمیں صاف ستھری ہو گئی ہے۔ اگلے دن صبح پھر اس نے دیکھا تو یہی حال تھا۔ اس نے زیادہ تعجب ہوا اور اس نے رات کو دروازے کے سامنے پہریدار کھڑے کر دیے۔
تیسرے دن صبح سویرے پہریدار ایک عورت کو پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے آئے۔ بادشاہ نے عورت سے پوچھا: “بتاؤ تم روز رات کو میرے محل کے دروازے کے سامنے جھاڑو کیوں دیتی ہو؟”
عورت نے کہا: “میں ایک غریب بیوہ ہوں۔ میرا ایک بیٹا ہے۔ میں آپ کی بیٹی سے اس کی شادی کی خواہش لے کر آئی تھی، لیکن آپ کے پاس یوں چلے آنے کی مجھے جرات نہیں ہوئی۔ اور پھر آپ کے پہریدار بھی تو آنے نہ دیتے۔”
کسی غریب عورت کی یہ گستاخی بھلا بادشاہ کیسے برادشت کرتا۔ اس نے غصے میں آ کر حکم دیا کہ عورت کو قتل کر دیا جائے، لیکن اس کے دائیں والے وزیر نے کہا:
“بادشاہ عالم! اس بیچاری عورت کو قتل کروانے کی کیا ضرورت ہے آپ اس کو کوئی ایسا کام بتائیے جس کو پورا کرنا اس کے بس کی بات نہ ہو۔ بس پھر یہ خود ہی محل میں آنا بند کر دے گی۔”
وزیر کی بات بادشاہ کو پسند آئی اور اس نے عورت سے کہا:
“جاؤ جا کر اپنے بیٹے سے کہنا کہ وہ میری بیٹی سے شادی کے لیے چالیس اونٹوں پر سونا لاد کر لائے۔”
“ہم بےچارے اتنا سونا کہاں سے لائیں گے؟” عورت نے اداس ہو کر سوچا اور محل سے نکل کر اپنے گھر کی راہ لی۔ گھر لوٹ کر اس نے بادشاہ کی شرط اپنے بیٹے کو بتائی تو اس نے ماں سے کہا:
“امی جان! آپ فکر نہ کیجیے۔”
اس نے جادو کے پتھر کو اپنی ہتھیلی پر رکھ کر اس سے کچھ کہا۔ بس پھر کیا تھا، صبح ہوتے ہیں غریب بیوہ کی جھونپڑی کے سامنے سونے سے لدے ہوئے چالیس اونٹ کہیں سے آ کر کھڑے ہو گئے۔
نوجوان نے ماں سے کہا:
“امی جان! آپ ان چالیس اونٹوں کو بادشاہ کے پاس لے جائیں۔”
ماں کو بڑا تعجب ہوا، لیکن وہ کچھ کہے بغیر ان چالیس اونٹوں کو ہانکتی ہوئی بادشاہ کے پاس لے گئی۔ بادشاہ کو بھی بہت تعجب ہوا، لیکن اس نے فوراً ہی ایک اور حکم صادر کر دیا۔ اس نے عورت سے کہا:
“اپنے بیٹے سے جا کر کہنا کہ وہ اپنی دلھن کے لیے ایک محل بنوائے جو سارے کا سارا خالص سونے کا ہو۔ تب ہی شادی بیاہ کی بات ہو سکتی ہے۔”
ماں اور زیادہ اداس ہو گئی اور گھر جا کر بادشاہ کی نئی فرمائش اپنے بیٹے کو سنائی۔ نوجوان نے ماں کی باتیں چپ چاپ سن لیں اور پھر اس سے کہا:
“امی جان! آپ فکر نہ کیجیے۔ خالص سونے کا محل بھی بن جائے گا۔”
صبح سویرے دریا کے کنارے ایک عالیشان محل کھڑا ہو گیا جو سارے کا سارا خالص سونے کا تھا۔ ایسا محل اس وقت تک کسی نے نہیں دیکھا تھا۔
ماں نے بادشاہ کے پاس جا کر کہا:
“بادشاہ عالم لیجیے محل تیار ہے۔ ذرا باہر چل کر اس کو دیکھیے تو۔”
بادشاہ اپنے وزیروں کے ساتھ باہر آیا اور محل دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا۔ اب تو اس کو ٹال مٹول کرنے کی کوئی صورت نظر نہ آئی اور اس نے غریب نوجوان سے اپنی بیٹی کی شادی کر دی۔
بادشاہ کے محل میں ایک چڑیل رہتی تھی۔ اس نے راز معلوم کرنے کا عہد کیا کہ ایک غریب نے راتوں رات ایسا عالیشان محل کیسے بنوا لیا، وہ بھی سونے کا۔ یہ عہد کر کے وہ مزاج پرسی کے بہانے شہزادی کے پاس آئی اور اس کو اس بات پر تیار کر لیا کہ وہ اپنے شوہر سے کسی طرح یہ راز معلوم کرے۔ چناں چہ اپنی بیوی کے اصرار پر نوجوان نے بتایا!
“میرے پاس جادو کا ایک پتھر ہے۔ اس کی مدد سے میں جو کچھ چاہوں حاصل کر سکتا ہوں۔”
“تم اس جادو کے پتھر کو کہاں رکھتے ہو؟” بیوی نے پوچھا۔
“میں اس کو اپنے منہ میں زبان کے نیچے رکھتا ہوں۔” نوجوان نے جواب دیا۔
اگلے ہی دن شہزادی نے یہ سب باتیں چڑیل کو بتا دیں۔ اسی روز رات کو نوجوان گہری نیند سو گیا تو چڑیل نے آ کر آہستہ سے اس کے منہ سے جادو کا پتھر نکال لیا اور فوراً اس کو حکم دیا۔
“اے جادو کے پتھر! سونے کے محل کو شہزادی کے ساتھ ہی بادشاہ کے باغ میں منتقل کر دو اور غریب نوجوان پہلے جہاں تھا اسے وہی پہنچا دو۔”
ایک ہی لمحہ بعد سونے کا محل بادشاہ کے باغ میں کھڑا تھا۔ نوجوان نے آنکھیں کھولیں تو اس نے دیکھا کہ نہ محل ہے، نہ شہزادی اور وہ خود اپنی بوسیدہ جھونپڑی کے اندر پڑا ہوا ہے۔ پاس ہی اس کی ماں بیٹھی رو رہی ہے اور ایک کونے میں کتا، بلی اور چوہا اس کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
“ہائے میری بدقسمتی!” نوجوان مایوس ہو کر کہہ اٹھا۔ “جادو کا پتھر گم ہو گیا ہے۔ اب میں کیا کروں؟” یہ کہہ کر اس نے اپنے آپ کو اوندھے منہ مٹی کے فرش پر گرا دیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ کتے، بلی اور چوہے کو نوجوان پر رحم آ گیا۔
ان میں سے ہر ایک اپنے دل میں سوچنے لگا کہ اب آخر کیا کیا جائے، وہ سوچ ہی رہے تھے کہ اچانک کتا بھونک اٹھا، بلی میاؤں میاؤں کر اٹھی، چوہا چیں چیں کرنے لگا۔ وہ تینوں دوڑتے ہوئے جھونپڑی سے باہر نکلے اور نظروں سے اوجھل ہو گئے۔
(جاری ہے)