شہرت اور خود نمائی سے بے نیاز شاعر مخدوم محی الدین

825

شاعری اور سیاست دو علیحدہ اور متوازی میدان بلکہ دنیا ہیں۔شاعری لطیف جذبات اور احساسات کی ترجمان ہے اس کا دل بڑا نازک اور دردمند ہوتا ہے جب کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتااور اگر ہوتا بھی ہے تو پتھر کا بلکہ لوہے کا ہوتا ہے۔ اس میدان میں باپ بیٹوں کو قتل کرنے سے گریز نہیں کرتا،بیٹا باپ کے سینے پر مونگ دلنے میں نہیں ہچکچاتا۔ ایک خدا ترس اور انتہائی پرہیزگار مغل بادشاہ کے لیے کہا جاتا ہے کہ اس نے کوئی نماز چھوڑی اور نہ کوئی بھائی چھوڑا، صرف اتنا ہی نہیں بلکہ باپ کو حوالۂ زنداں کیا۔شاعر کی ذاتی زندگی جیسی بھی ہو اس کا کلام زندگی کے تمام محروم انسانوں کی ترجمانی کرتا ہے۔ تمام تضادات کے باوجود سیاست کے ریگزاروں میں کئی شاعر نمودار ہوئے۔ ان میں اکثر نے اپنی شاعری کو ضمنی طور پر ساتھ رکھا اور ساری توجہ سیاست پر رکھی۔ پاکستان کی سیاست میں چند اشخاص گزرے ہیں جنہوں نے مشق سخن جاری رکھی اور چند ایسے بھی ہیں جنہوں نے اس پتھر کو اٹھانے کی کوشش کی لیکن بھاری جان کر چوم کر رکھ دیا۔ مولانا مودودیؒ کا شمار ان افراد میں کیاجا سکتا ہے۔ ان کی جماعت میں چوٹی کے چند راہنمائوں نے اسے جاری رکھا اور صاحب ِ دیوان کہلائے۔ ملک نصراللہ خان عزیز صاحب ِ دیوان شاعر ہیں، ان کی شاعری پر مختصرتبصرہ ریڈیو کے ایک اعلیٰ افسر حمید نسیم نے اپنی سوانح ’’ناممکن کی جستجو‘‘میںیوں کیا ہے:
فیض احمد فیض نے سیاست کی وادیوں میں دبے پائوں داخل ہونے کی کوشش کی لیکن اڑنے سے پہلے ہی پر کٹ گئے۔ ایک سازش سے ان کا ناتا جوڑا گیا اور تقریباً چار سال جیل کی سیر کی۔ یہ مقدمہ پنڈی سازش کیس کہلاتا ہے۔ رہائی کے بعدانہوں نے سیاست سے الگ ہوکر اپنے خیالات کی تشہیر تک محدود کرلیا، صحافت اور تدریس کا شعبہ اپنایا۔
ہندوستان میں جوسیاسی شاعر گزرے ہیں ان میں حسرت موہانی کا شمار بلند ترین سطح پر کیا جاسکتا ہے
ہے مشقِ سخن جاری چکّی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی
مجروح سلطان پوری نے بھی سیاست میں کچھ عرصہ گزارا،جیل بھی ہوآئے۔
ان جزوقتی سیاست داں شاعروںکے علاوہ بھی ایک ایسے شاعر ہندوستان میں گزرے ہیں جن کی ساری زندگی اپنے نصب العین کی خاطر جدوجہد میں گزری ان کا نام ہے مخدوم محی الدین۔ ان کا مقام شاعری بہت بلند ہے اور ساتھ ہی اشتراکی سیاست کے اہم رکن بھی تھے۔
مخدوم محی الدین کی زندگی تین حصوں میں تقسیم کی جاسکتی ہے۔ پہلا شاعری، یہ رنگ زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی رہا، وہ اوّل تا آخر شاعر رہے۔ دوسرا ان کی سیاست اور اشتراکی افکار کی تشہیر اور تیسرا ان کی بزلہ سنجی، جملہ بازی اور حیدرآباد سے محبت پر مشتمل ہے۔ وہ بلا کے تبصرہ باز تھے، دوستوں میں ہنسی مذاق اور تفنن و طبع کے لیے چھیڑ چھاڑ کرتے رہتے تھے لیکن کسی کی دل آزاری نہ کرتے تھے۔ ان کی شخصیت پر ایک خاکہ مجتبیٰ حسن نے لکھا ہے جس میں ان کی اس خوبی کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے، اس خاکے میں ان سے منسوب کئی لطیفے درج کیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں’’مخدوم کی بزلہ سنجی اور شگفتہ مزاجی کے بے شمار واقعات مجھے یاد ہیں، اپنا مذاق آپ اڑانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ایک بار علیٰ الصبح اورینٹ ہوٹل میں پہنچ کر بیرے سے پوچھا ’’نہاری ہے؟‘‘۔بیرا بولا’’نہیں ہے‘‘۔مخدوم نے پوچھا ’’آملیٹ ہے ؟‘‘ بیرا بولا ’’نہیں ہے۔‘‘ مخدوم نے پوچھا ’’کھانے کے لیے کچھ ہے؟‘‘ بیرا بولا اس وقت تو کچھ نہیں ہے۔‘‘ اس پر مخدوم بولے ’’یہ ہوٹل ہے یا ہمارا گھر کہ یہاں کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘
مسز سروجنی نائیڈو مخدوم سے بے حد پیار کرتی تھیں۔ انھوں نے ہمیشہ ہر ایک سے مخدوم کا تعارف اپنے بیٹے کے طور پرکروایا۔ ان کی سرپرستی سے حیدرآباد میں ترقی پسند کی تحریک نے قدم جمائے۔ مجتبیٰ حسن مزید لکھتے ہیں ’’مخدوم کو حیدرآباد سے بے پناہ پیار تھا۔ جسے وہ ہمیشہ ’’وطنِ مالوف‘‘ کہا کرتے تھے۔ حیدرآباد مخدوم کے اندر تھا اور مخدوم حیدرآباد کے اندر۔ حیدرآباد کی گلی گلی میں ان کے چرچے تھے۔ حیدر آبادیوں نے انہیں ٹوٹ کر چاہا بھی۔ ڈاکٹر راج بہادر گوڑ نے تو اپنے گھر کا نام ہی ’’چنبیلی کا منڈوا‘‘ رکھ چھوڑا تھا جو مخدوم کی مشہور نظم کا عنوان ہے۔ مخدوم کی شہرت بحیثیت شاعر اور سیاست دان صرف حیدرآباد ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان میں مسلم تھی لیکن وہ خود شہرت اور خود نمائی سے بے نیاز رہے۔ مشہور شاعر کیفی اعظمی کی اہلیہ شوکت کیفی اپنی آپ بیتی ’’یاد کی رہ گزر‘‘ میں لکھتی ہیں ’’حیدرآباد کا کلچر تو یہ ہوتا تھا کہ ذرا سا امیر آدمی ہو کہ ذرا سا شہرت یافتہ ادیب یا شاعر (سوائے مخدوم محی الدین کے) اپنے سے کم تر لوگوں سے بات بھی نہیں کرتا تھا۔‘‘ مخدوم کے مزاج ‘ عاجزی اور خاکساری کے ثبوت کے لیے یہی الفاظ کافی ہیں۔
مخدوم کی زندگی کا ایک پہلو ان کی شاعری ہے۔ یہ بنیادی رنگ نہیں بلکہ اَٹوٹ اَنگ تھا، ان کی شاعری کے دو رُخ تھے۔ ایک تحریکی جس میں انہوں نے نظمیں کہیں اور ایسی نظمیں جو پڑھنے والوں میں تحریکی جذبہ پیدا کریں،ان کی سوچ کو دوسروں تک پہنچائیں اور وہ انقلاب جس کے وہ داعی تھے اس کے لیے زمین ہموار کریں‘ اردو جہان کا کون سا خطہ ہوگا جہاں ان کا یہ شعر نہ پہنچا ہو:
حیات لے کے چلو کائنات لے کے چلو
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو
مخدوم مذہب کے پابندنہ تھے تو اس سے بالکل بیگانہ بھی نہ تھے۔ ان کی بہو نصیرہ نصرت محی الدین نے اپنے مضمون (مشمولہ نیا آدم: مخدوم نمبر) میں اس واقعہ کا ذکر کیا ہے کہ ایک دن شعبان کی فاتحہ دینے کے لیے گھر میں کوئی مرد سوائے مخدوم کے موجود نہ تھاتو بہو نے ان سے فاتحہ دینے کو کہا۔ مخدوم نے نہایت خشوع و خصوع سے وضو کیا اور یہ فرض ادا کیا۔ ان کے اس عمل پر بہو کو تعجب ہوا تو انہوں نے کہا ’’ہم نے قرآن طوطے کی طرح نہیں پڑھاہم تو تفسیر بھی کرسکتے ہیں۔‘‘
پروفیسر شفقت رضوی کی تحقیق کے مطابق مخدوم کی شاعری کی ابتداء 1933کے لگ بھگ ہوئی جب وہ جامعہ عثمانیہ میں بی اے کے طالب علم تھے‘ ایک انٹر ویو میں وہ کہتے ہیں ’’مجھے امیر مینائی کی غزلیں اور عظمت اللہ خاں کی نظمیں بہت پسند تھیں اور میں میر و غالب سے بھی متاثر تھا۔ اس دور کے شعرا اقبال، فانی اور اصغر سے اور پھر حفیظ کے گیتوں، جوش اور اختر شیرانی کی نظموں سے۔‘‘رسالہ صبا، مخدوم نمبر معروف صحافی عبدالکریم عابد جنہوں نے اپنی ابتدائی زندگی کا طویل عرصہ حیدر آباد دکن میں گزارا‘ اپنی کتاب ’’سفر آدھی صدی کا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ مخدوم، قائد اعظم اور مولانا مودودیؒ کے بارے میں مخالفانہ اور متعصبانہ رائے نہیں رکھتے تھے۔
مخدوم نے اپنے نام کو ہی اپنا تخلّص بنایا تاہم اس کا استعمال بڑی کفایت سے کیا ہے۔ پروفیسر شفقت رضوی کی تحقیق بتاتی ہے کہ تخلّص کا استعمال صرف تین غزلوں میں کیا ہے۔مزاج کے اعتبار سے وہ اس حد تک لاابالی تھے کہ کبھی اپنا کلام رسائل میںشائع کروانے کا اہتمام نہیں کیا۔
ابراہیم جلیس کے انتقال پر لکھے گئے تعزیتی مضمون میں حمایت علی شاعر لکھتے ہیں ’’حیدرآباد کی ادبی زندگی کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز مخدوم محی الدین کے نام سے ہوتا ہے انہیں کے سائے سائے ادیبوںاور شاعروںکا ایک ایسا قافلہ چلا جس کا ہرفرد اپنی جگہ ایک مقام رکھتا ہے۔
احسان دانش کی رائے دیکھتے ہیں ’’مخدوم ایک پیکر خلوص ہیں، وہ اپنے شاعر و ادب میں سب کچھ وہی لکھتے ہیں جو ان کی روح کی آواز ہے اور یہ وصف بہت کم لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ شعر و ادب میں خلوص کے گوشے تلاش کیے جائیں گے تو مخدوم کا کلام سرِ فہرست آئے گا۔ مخدوم کا میدانِ عمل بڑا وسیع ہے اور اسی عملی جدوجہد نے ان کی شاعری اور ادب کے کینوس کو بھی وسیع کر دیا ہے۔‘‘ (ماہنامہ صبا ،مخدوم نمبر۔)
’’لیلیٰ کے خطوط‘‘ کے مصنف قاضی عبدالغفارکا تبصرہ دیکھتے ہیں ’’ایک شاعر کی روح مخدوم کے کلام میں زندگی کی حرارت پیدا کرتی ہے، وہ بے چین، مجروح بے محابا اور بے پناہ روح، وہ ان کے ہر مصرع کی رگ رگ میں گرم خون کی طرح دوڑ رہی ہے اور عہدِ جدید کا یہی سب سے بلند مقام ہونا چاہیے۔ شاعر مخدوم کی صحیح یہ تعریف ہے کہ وہ ایک مغنیٔ آتش نفس ہے۔‘‘ (ماہنامہ صبا، مخدوم نمبر۔)
سجاد ظہیر اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ’’ایک شاعر کی حیثیت سے مخدوم ان حلقوں میں بھی مقبول ہیں جو ان کی ادبی حیثیت اور وقار کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن ان کی سیاست سے یا تو اختلاف رکھتے ہیں یا اسے اہمیت نہیں دیتے۔‘‘ (ماہنامہ حیات ،نئی دہلی،شمارہ 2008)
لاتعداد ایسے لوگ بھی ہیںجو ان کے نظریے کے حامی نہیں رہے۔ نظریے سے اختلاف ان کا تھا لیکن وہ اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ مخدوم نے نظریہ کو ذاتی مفاد کا ذریعہ نہیں بنایا ۔
سبطِ حسن دسمبر 1943کو مخدوم کے نام لکھے گئے خط میں فرماتے ہیں۔ ’’ہم بلا خوف تردید یہ کہہ سکتے ہیں کہ تمہاری شاعری عصرِ حاضر کے اضطراب اور احساس کی آئینہ دار ضرور ہے۔ تمہارے فنی شعور میں ہر جگہ سماجی شعور کی روح ضرور تڑپتی نظر آتی ہے۔ 1935 کے دور کی تمہاری نظمیں محرومی کے احساس سے خالی نہیں ہیں اور خالی کیسے ہوتیں؟ جوانی کا آغاز، عشق کی ابتدا،جذبات کی شدّت، اس پر وارداتِ قلب کو موضوع کرنے کی صلاحیت، پھر تیر کیوں کر خطا کرتا۔ ’انتظار‘ کی گھڑیاں گزاری گئیں:
رات بھر دیدۂ نمناک میں لہراتے رہے
سانس کی طرح سے آپ آتے رہے جاتے رہے
سبطِ حسن لکھتے ہیں’’ مخدوم کی شاعری ان کی زندگی کی مظہر ہے شروع کی سادہ نگاری اور بعد کی علامتی شاعری کے اندرونی ربط کا سلسلہ شعور کے وسیع اور عمیق تر ہونے سے مل جاتا ہے۔ اس بات کو مخدوم نے خود بھی اسی طرح ظاہر کیا ہے۔ شاعر اپنے دل میں چھپی ہوئی روشنی اور تاریکی کی آویزش کو اور روحانی کرب و اضطراب کی علامتوں کو اجاگر کرتا ہے اور شعر میں ڈھالتا ہے۔‘‘
آل احمد سرور کہتے ہیں مخدوم کا شعر پڑھنے کا انداز بڑا دلکش تھا۔میں نے کشمیر میں ایک مشاعرے میں ان سے کہا تھا کہ’’ مخدوم! تم واقعی جادوگر ہو‘‘ یہ سن کر وہ بہت محظوظ ہوئے اور کہنے لگے کہ بچپن میں مجھے قرأت سکھائی گئی تھی یہ اُسی کا فیضان ہے۔ مخدوم پورے حیدرآباد کے لاڈلے تھے۔ شفقت رضوی نے ایک ہم پہلو واضح کیا ہے ’’مزدور کا ذکر کیا لڑکیاںاور ان کے سرپرست بھی مخدوم پرکامل اعتمادرکھتے تھے وہ نوجوان لڑکیوں کے جھرمٹ میں فقرے بازی کریں، لطیفہ گوئی کریں، ہنسیں ہنسائیں اس پر کوئی معترض نہ ہوتا تھا سب جانتے تھے کہ ان کی زبان سے لغزش ہوگی اور نہ ان کے عمل سے۔
کئی لوگوں نے لکھا ہے کہ دوستوں میں بحث و مباحث کے دوران مخدوم طیش میںآجاتے اور لگتا کہ ہاتھا پائی ہوجائے گی، لیکن اس اختلافِ رائے کو انہوں نے اس بزم تک ہی رکھا، ذہن پر سوار نہ کیا، گویا ’رات گئی بات گئی‘ تک محدود رکھا۔ ان کی اس وقت کی کیفیت کو غالب نے یوں بیان کیا ہے۔ ؎ بک گیا ہوں جنونمیںکیاکیا کچھ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی زندہ دلی ان کی فطرت کاحصہ تھی،لطیفہ ایجاد کرناان کی زندگی کا ایک جزو لاینفک بن گیا تھا،اس کے ساتھ ہی ان میں آنسوئوں کو ضبط کرنے اورسسکیوںکو سینے میںدبا لینے کا حوصلہ بھی تھا،غم و اندوہ کی انتہائی حالت میں بھی اپنی شگفتہ بیانی اور لطیفہ تخلیق کرنے سے باز نہیں آتے تھے۔ وہ کہتا رہا ’’ ہنستے رہو اور ہاتھ ملاتے رہوکہ فرصت دیوانگی ہے‘‘۔(رسالہ صبا: ص92)
وہ اسمبلی کے ممبر بھی بنے لیکن اپنا معیار زندگی بلند نہ کیا،زندگی کی ضروریات کو محدود رکھا،حیدرآباد کی سڑکوںپر کبھی پیدل،کبھی سائیکل پر،اور کبھی رکشا پر نظر آتے۔ظاہر پرستی،نمائش پسندی اور دکھاوا ان میں کبھی پیدا نہ ہوا۔اپنی حالت زار پر کبھی پشیمانی نہ ہوئی، جگر مرادآبادی یاد آگئے ع ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہے۔ان میں قائدانہ شان تھی نہ شاعرانہ شوکت!کالج کے زمانے کی گہری نیلی شیروانی برسوں ان کا ’’یونیفارم‘‘تھا،جامعہ چھوٹ گیا مگر وہ شیروانی نہ چھوٹی۔یہاںتک کہ اس کا رنگ بھی اصلی حالت پر قائم نہ رہا۔اس شیروانی کو کبھی دھوبی کے گھر یا گھاٹ جانا نصیب نہ ہوا۔ایک تو اس لیے کہ دھلائی کون دیتادوسرے شیروانی کانعم البدل کیا ہوتا؟
مخدوم کمیونسٹ تھے، لیکن اس گروہ سے تعلق نہیں رکھتے تھے جودہریت، شرک اور الحاد کو کمیونزم کا لازمہ سمجھتے ہیں۔انھوں نے بچپن سخت مذہبی گھرانے میںگزارا۔ اس کے اثرات کبھی فنا نہیں ہوئے۔انھیں قدرت نے عمر مختصر دی61 برس اور چھ ماہ کی زندگی میں وہ ایسے نقوش چھوڑ گئے کہ ان کی وفات کے 45 سال بعد بھی اردو دنیا اور بالخصوص حیدرآباد دکن میں ہر شخص کو عزیز ہیں۔ ان کی موت پرسجاد ظہیر کا تبصرہ یہ ہے’’اگر مخدوم کی اچانک اور قبل ازوقت وفات ہوئی تو اس کا سبب یہی ہے کہ مخدوم نے اپنے جسم اور اپنی ذات کو ان کا وہ تھوڑا سا حق دینے سے انکار کردیاجس صحت کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری تھا۔‘‘(نیا آدم:مخدوم نمبر:ص 132)
مخدوم کا انتقال اگست1969میں ہوا اور عجیب اتفاق ہے کہ کمیونزم کا زوال اسی دور میں شروع ہوا۔ وہ نظریہ جہاں سے چلا تھا وہیں اس کے تابوت میں آخری کیل نصب کردی گئی۔ معروف مذہبی اور سیاسی مفکّر مولانا مودودی کی پیشن گوئی درست ثابت ہوئی کہ بہت جلد وقت آئے گا کہ اشتراکیت کو روس میں بھی جگہ نہیں ملے گی۔

حصہ