محترمہ ثریا
’’جناب ریحان خاں امریکا کی ایسٹرن مشی گن یونیورسٹی میں پروفیسرہیں‘ ان کی ایک نوجوان سفید فام شاگرد ثریا نے حال ہی میں اسلام قبول کیا ہے اور اپنے آپ کو اسلامی لباس سمیت دینی تقاضوں سے ہم آہنگ کر لیا ہے۔ ریحان خان صاحب اس لڑکی کے لباس اور باوقار دینی اطوار سے بہت متاثر ہوئے۔ اس سے انٹرویو کی صورت میںگفتگو کی اور شمالی امریکا میں مسلمانوں کے ایک ماہوارجریدہ ’’یونٹی ٹائمز‘‘ میں شائع کرا دیا۔ انٹرویو کا یہ تراشہ برادر عزیز پروفیسرسید وقار علی کاری صاحب نے بھجوایا ہے۔ اس کا ترجمہ ذیل میں دیا جارہا ہے۔
…٭…
سوال: قبولِ اسلام سے قبل آپ کے مذہبی رجحانات کیا تھے؟
جواب: میرا تعلق ایک پروٹسٹنٹ عیسائی خاندان سے ہے جس کے سب افراد مذہب سے دور ہیں لیکن میں بچپن ہی سے مذہب کی جانب رجحان رکھتی تھی‘ چنانچہ میری عمر دس سال کی تھی جب میں نے اپنی پڑوسیوں سے فرمائش کہ کہ وہ اتوار کو چرچ جایا کریں تو مجھے بھی ساتھ لے جایا کریں۔ چنانچہ میں وقتاً فوقتاً ان کے ساتھ گرجا جانے لگی اور جب ہائی اسکول میں پہنچی تو عیسائیت کی مختلف شاخوں اور فرقوں کے بارے میں علم حاصل کرنے لگی۔ اس سلسلے میں‘ میںنے کیتھولک مذہب کا وسیع اور گہرا مطالعہ کیا اور Methodist, Jehovahs Witness, Moramons اور Presbtyerian جیسے مذاہب کے بارے میں بھی ضروری مطالعہ کیا مگرافسوس کہ میری روح پیاسی کی پیاسی رہی۔ میرا وجدان جو کچھ طلب کرتا تھا مجھے کہیں نہ ملا۔ مثال کے طور پر میرا ضمیر کہتا تھا کہ اس کائنات کا خالق و مالک وحدۂ لاشریک ہے جب کہ عیسائیت کے سب فرقے شرک میں مبتلا ہیں اور ابہام کا شکار ہیں۔
سوال: اس صورتِ حال میں دینِ اسلام سے آپ کا تعارف کیسے اور کب ہوا؟
جواب: میں ہائی اسکول میں پڑھ رہی تھی جب مجھے مشرق وسطیٰ کے بارے میں خاصی تفصیل کے ساتھ مطالعہ کرنے کا موقع ملا اور اسی حوالے سے پہلے پہل ’’اسلام اور مسلم‘‘ کے الفاظ سے میری شناسائی ہوئی مگر اسکول کے زمانے میں میری معلومات کا دائرہ بس یہیں تک محدود رہا۔ کالج میں پہنچی تو خوش قسمتی سے وہاں مشرقِ وسطی سے تعلق رکھنے والے مسلمان طلبہ بھی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ ان سے ملاقاتیں ہوئیں تو اسلام سے تعارف ہوا اور میں اس مذہب کے اس پہلو سے بہت متاثر ہوئی کہ یہ عیسائیت اور یہودیت کی طرح جزوقتی (پارٹ ٹائم) مذہب نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے پر محیط ہے۔ اسلام چونکہ دن اور رات کے ایک ایک لمحے میں رہنمائی کرتا ہے اور عیسائیت کی مانند اس کی رفاقت کا دائرہ ایک ہفتے میں محض ایک گھنٹے تک محدود نہیں ہوتا اس لیے جب ایک شخص اسے عملی طور پر اختیار کرے تو اس کی زندگی میںنظم و ضبط‘سلیقہ اور استحکام پیدا ہو جاتا ہے اور اسلام کی یہ دوسری خوبی تھی جس نے مجھے بہت متاثرکیا۔ مجھے یقین ہو گیا کہ اسلام ایک مکمل دین اور فطرت کے عین مطابق ہے۔ چنانچہ میں نے اسے دل و جان سے قبول کر لیا۔
سوال: اس کا ردِعمل آپ کے خاندان پر کیا ہوا؟
جواب: خاندان کے ہر فرد کا ردعمل مختلف نوعیت کا تھا۔ میرے والد کا سلوک مجھ سے بہت ہی مشفقانہ رہا چنانچہ اگرچہ میں نے اسلام قبول کر نے کے ساتھ اپنا لباس بھی تبدیل کر لیا اور عام طرزِ زندگی کو یکسر نیا رنگ دے ڈالا مگر ان کی محبت اور سلوک میں کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ ایسا ہوا کہ ایک بار میری ایک پھوپھیآئی اور اس نے مجھے خوب برا بھلا کہا۔ مجھے سنکی اور قنوطی کے طعنے دیے تو میرے والد نے میری مدافعت کی۔ تاہم میری والدہ کا طرزِ عمل خوش گوار نہ تھا اور وہ میری زندگی کے انقلاب پر قطعی خوش نہ ہوئیں لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض دشواریوں کے باوجود میں خوش نصیب ہوںکہ اپنے والدین کے ہاں رہ رہی ہوں اور مجھے ان پریشانیوں سے سابقہ نہں پڑا جس کے عموماً توقع کی جاتی ہے۔
سوال: میں حیران ہوں کہ آپ کے اندر اتنا بڑا اقدام کرنے کی جرأت کیسے پیدا ہوگئی؟
جواب: آپ کی بات درست ہے کہ امریکا کے اس ماحول میں جہاں مادیت کا دور دورہ ہے اور عیش پرستی اور تفریح پسندی ہی کو زندگی کی معراج سمجھا جاتا ہے‘ وہاں اسلام قبول کرنا اور اسکی تعلیمات پر عمل کرنا بے حد مشکل کام ہے چنانچہ یہ فیصلہ کرنے سے پہلے میں نے ہزارہا بار سوچا کہ میرے والدین مجھ سے کیا سلوک کریں گے؟ میری تعلیم کا کیا بنے گا؟ اور میں اپنے حلقۂ احباب میں کیسے زندہ رہوں گی؟ چنانچہ اس نوعیت کے خدشات نے مجھے بہت پریشان کیے رکھا‘ مگر طویل اور گہرے غوروفکر کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی کہ ایک وقتی اور عارضی پریشانی کے مقابلے میں جو اسلام قبول کرنے کے نتیجے میں پیش آسکتی تھی‘ مسلمان نہ ہونے کے نتائج ذہنی اور روحانی اعتبار سے زیادہ گمبھیر ہوسکتے ہیں چنانچہ میں نے اللہ سے خوب دعائیں کیں‘ اس سے مدد اور اعانت طلب کی اور واقعی اللہ نے میری دعائیں سن لیں اور حیرت انگیز طور پر مجھے وہ ہمت اور حوصلہ عطا ہوا کہ میں اتنا بڑا فیصلہ کرنے کے قابل ہو گئی۔
سوال: آپ تو ابھی نوعمر ہیں‘ آپ کا کیا خیال ہے آپ واقعی اس فیصلے پر مستقل مزاجی سے قائم رہیں گی؟
جواب: مجھے یقین ہے کہ میں نے یہ فیصلہ خوب سوچ سمجھ کرکیا ہے اور اس میں کوئی کمزوری پیدا نہیں ہوگی۔ اندازہ کریں کہ جب میں قبول اسلام کے لیے ایک مسجد میں گئی تو وہاں کے خطیب اور امام نے مجھ پر ذرا بھی دبائو نہ ڈالا بلکہ مشورہ دیا کہ میں پہلے اسلام کے بارے میں خوب مطالعہ کرلوں اور اگر اس کے بارے میں کوئی معمولی سا بھی اعتراض ہے تو سوالات کرکے اسے رفع کر لوں‘ پھر اسلام قبول کر لوں۔ اس کے برعکس جن دنوں میں کیتھولک مذہب کا مطالعہ کر رہی تھی ایک مرتبہ میں کیتھولک چرچ میں گئی تو میرے جاننے والوں نے بہت اصرار کیا کہ اس مذہب کو فوراً قبول کرلو۔
مجھے اس امر کا بھی اعتماد ہے کہ چونکہ میں نے بہت سے مذاہب کا مطالعہ کیا ہے اور میرے شعور نے انہیں مسترد کیا ہے‘ اس لیے میں نے جس مذہب کا انتخاب کیا ہے وہ ہر لحاظ سے بہترین اور عقل کے عین مطابق ہے۔ اسی طرح میں یہ بھی بتاتی چلوں کہ میں نے دو سال سے زائد عرصے تک خوب جم کر اسلام اور اس کی تعلیمات کا مطالعہ کیا ہے اور بہت سے لوگوں سے اس کے بارے میں گفتگو کی ہیں اس لیے یہ سمجھ لیجیے کہ اسلام قبول کرنے میں نہ تو کسی جذباتیت اور عجلت پسندی کا عمل دخل ہے اور نہ اس سے کوئی دنیاوی مفاد وابستہ ہے۔ میں نے یہ فیصلہ خوب سوچ سمجھ کر کیا ہے اور ان شاء اللہ اس پر عمر بھر ثابت قدم رہوںگی۔
سوال: آپ نے اسلام قبول کرکے کیا حاصل کیا ہے؟
جواب: اعداد و شمار کے حولے سے یا دو اوردو چار کے انداز میں یہ بتانا کہ مسلمان ہو کر میں نے یہ اور یہ کچھ حاصل کیا ہے‘ خاصا مشکل ہے۔ تاہم اسلام قبول کرکے سب سے بڑی کامیابی یہ ملی کہ زندگی میں وقار اور ڈسپلن کا چلن پیدا ہوا۔ شب و روز کو مقصدیت نصیب ہوئی اور وہ خلا کی کیفیت جو دل و دماغ پر چھائی رہتی تھی‘ ختم ہوگئی۔ پھر یہ نعمت بھی کچھ کم نہیں کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کی اطاعت انسان کے اندرون کو سکون اور تزکیہ سے مالا مال کرتے ہیں۔ روح میں رفعت اور مقاصد میں بلندی کا احساس پیدا ہوتا ہے اور انسان سخت سے سخت حالات میں پریشانی اور مایوسی سے محفوظ رہتا ہے۔ اللہ کا احسان ہے کہ اسلام کی تعلیمات پر عمل نے میری زندگی کے ہر پہلو کو مثبت طور پر تبدیل کیا ہے۔ ان میں سے بعض تبدیلیاں واضح اور انقلابی نوعیت کی ہیں جب کہ بعض کا تعلق ذہن اور ارادے سے ہے اور وہ اسی نسبت سے لطیف اور غیر نمایاں ہیں۔
سوال: آپ نے اپنے بالوں کو ڈھانپا ہوا ہے‘ امریکا کے عریاں ماحول میں آپ کو یہ کیسا لگتا ہے؟
جواب: اس ضمن میں میرے وہی احساسات ہیں جو ایک باعمل مسلمان عورت کے ہو سکتے ہیں۔ میں نے اپنا سر ڈھانپ کر دراصل اس ماحول کی آلودگیوں کے خلاف تحفظ حاصل کیا ہے اور عام عورت نیم برہنگی کی وجہ سے جس خوف اور سراسیمگی کی کیفیت میں مبتلا رہتی ہیں اس سے خاصی حد تک نجات پائی ہے۔ پھر میرا سر کو ڈھانپنا ایک قسم کا اعلان بھی ہے کہ میں مسلمان ہوں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں اللہ نے جو حکم دیا ہے میں اس کی پیروی کر رہی ہوں۔
سوال: آپ کے نزدیک اس کا سبب کیا ہے کہ امریکا میں جو لوگ اپنا مذہب تبدیل کرتے ہیں‘ ان کی غالب اکثریت اسلام کی آغوش میں آتی ہے؟
جواب: میرا یقین ہے کہ جو بے شمار لوگ اسلام کی طرف لپکے چلے آرہے ہیں‘ انہیں اس امرکا احساس ہو گیا ہے کہ موجودہ مغربی طرزِ زندگی نہ تو اخلاقی قدروں کی پرورش کرتی ہے نہ یہ کسی باوقار اور صاف ستھرے اسلوبِ حیات کو پروان چڑھاتی ہے جب کہ اس کے برعکس اسلام کی صورت میں وہ ایسی صداقت سے بہرہ ور ہوتے ہیں جو انہیں بلند ترین اخلاقی معیارات عطا کرتی ہے اور ان معیارات کو حاصل کرنے کا وہ مطمع نظر دیتی ہے جو حقیقت پسندی پر مبنی ہے‘ فطری ہے اور باوقار بھی۔ خاص اور اہم ترین بات یہ ہے کہ اسلام مغرب کی تنگ نظری سے بہت بلند بالا ہے اور انسانوںکو مادّیت اور نسل پرستی سے ہٹا کر خالص انسانی شرف کی بنا پر مخاطب کرتا ہے۔
سوال: امریکا میں اسلام قبول کرنے والوں کی اکثریت سیاہ فاموں پر مشتمل ہے‘ آپ کے خیال میں یہ مبارک پیغام سفید فاموں تک رسائی حاصل کرنے میں کیوں کامیاب نہیں ہوسکا؟
جواب: اس معاملے میں‘ میں کوئی ماہرانہ رائی تو نہیں دے سکتی تاہم میرا ایک نقطۂ نظر ہے اور وہ یہ کہ جو لوگ اسلام قبول کرتے ہیں وہ بالعموم موجودہ نظام کے ستم زدہ ہوتے ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ امریکا میں بے چارے سیاہ فام بڑے ہی مظلوم ہیں اور جب وہ دائرۂ اسلام میں آتے ہیں تو انہیں حقارت اور ظلم و جور کے بجائے محبت‘ مساوات اور احترام ملتا ہے تو ان کی پریشان اور افسردہ روحوں کو قرار مل جاتا ہے۔
سیاہ فاموں کے اسلام کی طرف لپکنے کاایک سبب اور بھی ہے‘ وہ جان گئے ہیں کہ افریقہ میں ان کے آبا و اجداد کا مذہب اسلام تھا اورجب انہیں زبردستی اغوا کرکے امریکا لایا گیا تو ان سے یہ نعمت چھین لی گئی چنانچہ اسلام قبول کرکے دراصل وہ اپنے اصل دین کی طرف لوٹتے ہیں۔
سوال:امریکا کے اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ یہ واویلا کرتے نہیں تھکتے کہ اسلام کا رویہ عورت کے معاملے میں غیر مناسب ہے۔ آپ ایک تعلیم یافتہ سفید فام خاتون ہیں‘ اس کے بارے میں آپ کا تاثر کیا ہے؟
جواب: اس سوال کا جواب اتنے تھوڑے وقت میں نہیں دیا جاسکتا۔ یہ موضوع تو ایک کتاب کا متقاضی ہے۔ مختصراً کہوں گی کہ یہ بات حقیقت کے برعکس ہے اور یہ الزام عموماً ان لوگوں کی طرف سے دہرایا جاتا ہے جو اسلامی تعلیمات سے یکسر بے خبر ہیں۔ وہ فرض کر لیتے ہیں کہ جب اسلامی معاشرت میں مرد اور عورت کا میدانِ کار الگ الگ ہے تو لازماً عورت ظلم کا شکار ہوتی ہے حالانکہ معاملہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔
اس کے برعکس میں اپنے ملک کی صورتِ حال پیش کرتی ہوں۔ یہاں برابری اور مساوات کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ معاشرے میں عورت وہ سب کچھ کرے جو مرد کرتا ہے۔ لیکن عملاً ہوتا یہ ہے کہ عورت مرد کی طرح کماتی بھی ہے اور گھر کا بھی سارا کام کرتی ہے جہاں مرد اس کے ساتھ شراکت نہیں کرتا۔ پھر ظاہر ہے مساوات کہاں رہی؟ اور جن گھرانوں میں ماں اور باپ دونوں کام کرتے ہیں وہاں بچوں کا جو حال ہوتا ہے وہ ظلم اور استحصال کی ایک افسوس ناک مثال ہے۔ اس معاملے کا ایک اور پہلو بھی ہے‘ یورپ کے ذرائع ابلاغ اور اخبارات عام طور پر عالمِ اسلام کی حکومتوں کے طرزِ عمل اور مختلف افراد کے ذاتی رویے سے سمجھ لیتے ہیں کہ یہی کچھ اسلام کی تعلیم ہے‘ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ان دونوں میں فرق کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا فرض ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات پر ان کی صحیح روح کے ساتھ عمل کریں اور غیر مسلموں کے سامنے اسلام کے سچے ترجمان بنیں۔
سوال: امریکا میں جو غیر مسلم خواتین اسلام قبول کرنا چاہتی ہیں ان کے نام آپ کا پیغام کیا ہے؟
جواب: ان بہنوں کے لیے میرا مشورہ یہ ہے کہ وہ اسلام کے بارے میں زیادہ سے زیادہ کتابوں کا مطالعہ کریں اور خوب توجہ سے غوروفکر کریں۔ میں اسی راستے سے اسلام کی منزل مقصود پر پہنچی ہوں۔ دوسری بات یہ ہے کہ خوف زدہ ہرگز نہ ہوں اگر آپ نے صراط مستقیم تک پہنچنے کا ارادہ کر لیا تو خدا اپنے فضل سے آپ کی مدد فرمائے گا۔
سوال: آپ میری لائق شاگرد ہیں‘ میں معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ مستقبل میں آپ اپنی صلاحیتوں کو خدمتِ دین کے لیے کس طرح کام میں لائیں گی؟
جواب: میرا ارادہ ہے کہ میں کسی اسلامک اسکول میں ٹیچر بن جائوں‘ اپنے شاگردوں تک اسلام کی سچی تعلیم منتقل کروں اور دوسرے لوگوں تک بھی اسلام کا سچا پیغام پہنچائوں۔ مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ میں اپنے اس ارادے میں کامیاب ہو جائوں گی۔