جو چیز جتنی قیمتی ہوتی ہے اس کا حصول اسی قدر دشوار ہوتا ہے۔ جو مشکل چیز کو حاصل کرنا جانتا ہے وہ اس کی قدر بھی کرنا جانتا ہے۔
ہم خواتین مہنگی کراکری کی حفاظت کرنا خوب جانتی ہیں۔ مہنگے نفیس برتن کبھی گندے برتنوں والے ٹوکرے میں نہیں رکھتیں، نہ ہی چائے کا نفیس سیٹ ماسی سے دھلواتی ہیں۔ ہم اپنے مہنگے کپڑوں کو واشنگ مشین میں گھر کے دیگر میلے کپڑوں کے ساتھ دھوتے ہیں، نہ ہی انہیں دھوپ میں چھوڑ دیتے ہیں۔
اگر بازار سے زیور وغیرہ خریدنا ہو تو حفاظتی اقدامات کرکے نکلتے ہیں، زیور کے لیے محفوظ ترین جگہ سوچتے ہیں۔ پڑھ پڑھ کر دم کرتے ہیں حفاظتی دعائیں۔
کسی قیمتی چیز کو حاصل کرلینے سے زیادہ مشکل اس کی حفاظت کرنا ہوتا ہے۔ بسا اوقات اس کی حفاظت ہی زندگی کا مقصد قرار پاتی ہے۔
دنیا کی کسی بھی قیمتی شے سے زیادہ قیمتی ہماری نیکیاں ہیں۔ ہم نے رمضان کے روزے رکھے، عبادات کیں اللہ کی دی ہوئی توفیق سے۔ ہم اللہ کا شکر ادا کررہے ہیں کہ رمضان اچھا گزر گیا۔ مگر یہ جان رکھیے کہ شیطان ہم سے مایوس نہیں ہوا ہے۔ وہ ہمیں نیکی سے روکنے پر قادر نہ ہوسکا مگر ان نیکیوں کو حبط کرانے کی پوری کوشش کرے گا۔ قرآن نے ہمیں اس بڑھیا کی مثال دی جو سوت محنت سے کاتتی ہے اور پھر اسے خود ہی ٹکڑے ٹکڑے کردیتی ہے۔
قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اعمال ’’حبط‘‘ ہوجاتے ہیں، گناہ نیکیوں کو مٹا دیتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں۔ جان رکھیے جس کے پاس جتنا قیمتی سرمایہ ہوتا ہے وہ اتنا ہی چوکس ہوتا ہے اس کی حفاظت کے لیے۔
رمضان میں کی گئی نیکیوں کی حفاظت اس وقت ہمارا اہم ہدف ہونا چاہیے۔ آخر روزے میں ہم نے حلال چیزیں اسی لیے اپنے اوپر حرام کی تھیں کہ یہ اللہ کا حکم ہے۔ باقی گیارہ ماہ میں ہم حرام چیزوں سے اسی طرح بچیں۔ اس تیس روزہ ٹریننگ سیشن ’’رمضان‘‘ کا مقصد قرآن نے یہی بتایا تھا کہ ’’لعلکم تتقون‘‘ یعنی تمہاری بھوک پیاس اس تربیتی مشق کا حصہ ہے کہ تم نفس پر قابو پانا سیکھو۔
کردار سازی کی اعلیٰ ترین مشق:
شریعت نے واضح طور پر بتادیا تھا کہ روزے میں کن امور کی اجازت ہے، کن چیزوں سے روزہ فاسد ہوتا ہے اور کن سے مکروہ؟ انسان کی پبلک زندگی سب کے سامنے ہوتی ہے۔ روزہ ہماری ’’خلوت‘‘ کی زندگی کو پاکیزہ کرنے کی تربیت دیتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اگر کسی شخص نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو اللہ کو اس کی حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا اور پینا چھوڑ دے‘‘۔ (بخاری شریف)
مراد یہ کہ روزہ فاقہ کشی نہیں۔ اللہ کو تمہارے بھوکے پیاسے رہنے سے کیا خوشی ہوگی اگر تمہارے روزوں نے تقویٰ، پرہیزگاری اور خدا خوفی ہی پیدا نہ کی!! بھوک اور پیاس تو نفس کی باگیں اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے مشق کا نام تھا۔ مقصد تو کردار سازی تھا۔
جھوٹ بولنے کا مطلب ہم سب جانتے ہیں۔ یہاں بات کی گئی جھوٹ پر عمل کرنے کی۔ جھوٹ پر عل کرنا سارے گناہوں کی جڑ ہے۔ کیونکہ انسان جو بھی گناہ کرتا ہے وہ یا تو خدا کا حق مارتا ہے یا اس کے کسی بندے کا۔ بندے کا حق مارنا بھی اللہ ہی کی نافرمانی ہے۔ ایسے نمازی اور روزہ دار کا شریعت میں کیا مقام ہے جو سودخور ہو، یا تجارت میں دھوکا دیتا ہو۔ وہ عبادت گزار عورت جس کی پڑوسن اُس کے شر سے محفوظ نہ ہو اسے جہنم کی وعید سنائی گئی۔
اسلام میں عبادات بجائے خود مقصد نہیں ہیں، مقصد کی طرف پیش قدمی کا ذریعہ ہیں۔ اگر ہم میں سے کوئی یہ سوچتا ہے کہ جھوٹ تو رمضان میں منع تھا بقیہ گیارہ مہینے جھوٹ بول کر کام چلا سکتے ہیں، یہ کیسا تفقہ فی الدین ہے! رمضان میں اخلاقی پابندیاں صرف روزے کو بہتر بنانے کے لیے نہیں تھیں، وہ تو کردار کا حصہ بنانے کے لیے تھیں۔ ’’جھوٹ‘‘ دراصل ایک کردار کا نام ہے۔ ایک روزے دار رمضان کے بعد بھی کسی دنیاوی کامیابی کے لیے جھوٹ کا سہارا نہیں لے گا، اس لیے کہ روزے نے اس سے جھوٹ چھڑانے کی پریکٹس کرائی ہے۔
روزے کی ڈھال اور انسانی رویّے:
انسانی رویّے اس وقت سماجی سائنس کا اہم ترین موضوع ہیں۔ انسانی رویوں کی بہتری اور اس کے نتیجے میں ایک بہتر سماج کی تشکیل اس وقت کی دنیا کے اہم ترین موضوعات ہیں۔ اس پر سیکڑوں کتابیں لکھی جارہی ہیں جو ’’بیسٹ سیلر‘‘ کا ایوارڈ پارہی ہیں۔ موضوعِ بحث یہ امر ہے کہ انسان کو جذبات کے ہیجان میں نفس کو کنٹرول کرنا کیسے سکھایا جائے، یا شدید رنج و اضطراب کے مواقع پر اس کو کس طرح ذہنی صدمے سے نکالا جائے؟
روزہ بہترین انسان ہی نہیں بہترین سماج کی تشکیل کی بنیادی اینٹ ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’روزے ڈھال ہیں۔ پس جب کوئی شخص تم میں سے روزے سے ہو تو اسے چاہیے کہ نہ اس میں بدکلامی کرے اور نہ دنگا فساد کرے۔ اگر کوئی شخص اس سے گالی گلوچ کرے یا لڑے تو وہ اس سے کہہ دے کہ بھائی میں روزے سے ہوں‘‘۔ (متفق علیہ)
روزہ صرف رمضان ہی میں نہیں بلکہ اس کارزارِ حیات میں انسان کو برائیوں سے بچانے والی ڈھال ہے۔ میدانِ جنگ میں دشمن ہو، کوئی نامناسب اور غیر شائستہ رویّے سے طیش دلانے کی کوشش کرے تو روزے کی ’’ڈھال‘‘ سے اس کا مقابلہ کیا جائے۔
روزہ صرف جسم کی ضروریات سے رکنے کا نام نہیں، بلکہ اخلاقی اقدار کی عظمتوں کی نمو کا پیغام ہے۔ ایک مہینہ مسلسل اس بات کی تربیت دی گئی کہ مشتعل نہیں ہونا، لڑائی جھگڑے سے دور رہنا، کوئی تمہاری حق تلفی کرتے ہوئے غیر اخلاقی رویہ اپنائے تو تمہیں آستین نہیں چڑھانا، تمہیں دو اور دو چار نہیں کرنا، بلکہ مہذب اور باوقار لوگوں کی طرح کسی ہذیان بکتے آدمی سے یہ کہہ کر دور ہوجائو کہ ’’میں روزے سے ہوں‘‘۔
آپ ہی جانیں رمضان کے بعد کیا ہمیں ’’ڈھال‘‘ رکھ دینا چاہیے کہ اب اگلے گیارہ ماہ بعد پھر اس ڈھال کی ضرورت پڑے گی؟ مسلسل تیس دن کی تربیت اس ڈھال کو اس قدر مضبوط کردے کہ یہ اعلیٰ اخلاقی تربیت یافتہ انسان پورے سال رمضان کی اس تربیت کا عکس نظر آئے۔ یہ ڈھال اتنی پختہ ہوجائے کہ اس کو رمضان کے بعد بھی ہر بُرائی سے بچاتی رہے۔
کسی دوسرے کی بدتہذیبی یا نامناسب رویّے پر اگر ہم اسی کی سطح پر اُتر آئیں تو گویا ہم نے اپنی ڈھال میں خود شگاف پیدا کرلیا۔
سوچنے کا مقام یہ ہے کہ کیا رمضان ہی کے لیے یہ ڈھال تھی؟ بعداز رمضان ہم اس ڈھال کو کاٹھ کباڑ میں ڈال دیں کہ اب اس کی کیا ضرورت؟
ایک فرد یا ایک گروہ زیادتی کا مرتکب ہو اور تمام اخلاقی حدود پھاندلے۔ جواب میں دوسرا فرد یا گروہ اینٹ کا جواب پتھر سے دے تو اس سماج کی وہی حالت ہوتی ہے جو اِس وقت ہم اپنے سماج کی دیکھ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اپنے سیاسی قائدین کی حمایت میں کارکنان تمام اخلاقی حدود کو پامال کردیتے ہیں۔ دونوں طرف سے وہ کاری وار ہوتے ہیں کہ یہ ڈھال ٹوٹ کر پارہ پارہ ہوجاتی ہے۔
رمضان نے یہ ڈھال ہمارے حوالے کی۔ ایک ماہ کے روزے ہماری اس ڈھال کو ایسے پالش کرچکے ہوں کہ بقیہ گیارہ ماہ دشمن کے وار ڈھال پر رُکتے رہیں، بُرائی کے مواقع پیدا بھی ہوں تو نفسِ امّارہ کی اِتنی تربیت ہوچکی ہو کہ جس طرح روزے دار رمضان میں یہ کہہ کر کہ ’’میں روزے سے ہوں‘‘ خود کو لایعنی لڑائی جھگڑوں سے دور کرلیتا ہے، یہ کردار کی پختگی اس کی ذات کا شعوری حصہ بن جائے۔ ایسا نہ ہو کہ ماہ شوال کے چاند کے ساتھ ہی یہ اخلاقی تربیت لباس کی دھول کی طرح ایک جھٹکے سے اُتر جائے۔
درسِ خود احتسابی:
فرمایا گیا کہ ’’جس شخص نے رمضان میں قیام کیا ایمان اور احتساب کے ساتھ، تو معاف کردیے جائیں گے اس کے وہ قصور جو اس نے پہلے کیے ہوں گے‘‘۔ (متفق علیہ)
اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ رمضان کے روزے اور تراویح نے پچھلا ناپسندیدہ ریکارڈ تلف کردیا، اب اگلے سال کے لیے پھر آزادی کا پروانہ ہاتھ آگیا۔ اگلے برس رمضان میں پھر روزے رکھ کر پچھلے برس کے گناہ بخشوا لیں گے۔ کیا سود کھانے والے، کرپشن کرنے والے، غریبوں کا خون چوس کر اپنی تجارت چمکانے والے، رشتے داروں کے حقوق غصب کرنے والے اگلے رمضان میں پھر کھڑے ہوکر بخشش کا پروانہ حاصل کرلیں گے؟
ان پاکیزہ دینی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ ان تعلیمات کے اوّلین مخاطب وہ نفوسِ قدسی تھے جو سمعنا و اطعنا کی عملی تصویر تھے۔ جو خوشنودیِ رب کے جویا تھے۔ جن سے بشری کمزوری سے کوئی قصور سرزد ہوجاتا تھا تو وہ اصرار نہیں کرتے تھے، فوراً توبہ اور استغفار کے دامن میں پناہ لیتے تھے۔
رمضان کا بابرکت مہینہ ہمیں دعوتِ احتساب دے کر گیا ہے کہ پچھلے برس کے گناہ بخشوانے کی خواہش کے ساتھ بقیہ زندگی گناہوں سے بچنے کی مشق کریں۔ اپنا ایسا بے لاگ احتساب کریں کہ گناہ کی طرف پلٹنا آگ میں کود جانے کے مترادف محسوس ہو۔
رمضان ایمان کی آبیاری کے لیے دل کی مٹی نرم کرکے گیا ہے۔ اپنے ایمان کی قدر کریں اور اس کی بڑھوتری کے لیے سعی وجہد کریں۔ یہ خود احتسابی صرف رمضان کے روز و شب کے ساتھ مختص نہ تھی۔ رمضان نے احتساب کی دعوت دی کہ اپنا حساب کرلیں قبل اس کے کہ احتساب کے کٹہرے میں کھڑے کیے جائیں!!
فرحت کی لذت:
روزے دار کے لیے جو دو فرحتیں رکھی گئی تھیں ایک افطار کے وقت کی اور دوسری ربّ سے ملاقات کے وقت کی فرحت۔
ماہ رمضان نے افطار کے وقت کی فرحت سے ہمکنار کیا لیکن ربّ سے ملاقات اُس وقت ’’فرحت‘‘ میں بدلے گی جب ایک مسلمان کا روزہ پوری زندگی پر حاوی ہو۔
جس ’’تقویٰ‘‘ یعنی بچنے کی تربیت رمضان نے مہیا کی اس خوفِ خدا سے گناہوں سے بچنے کی اُمنگ دل میں جاگ جائے۔ روزے نے جو روحانی تربیت مہیا کی، جو پہرے بٹھائے، جب روکا رُک گئے، جب کہا گیا اب کھالو تو گویا پابندیوں کے تالے ٹوٹ گئے۔ 30 دن کی مسلسل مشق سے خدا کے حاضر و ناظر ہونے کا وہ احساس جو ماہ رمضان میں وضو کرتے ہوئے بھی محتاط رکھتا تھا کہ وضو کا پانی کلی کرتے ہوئے حلق میں نہ چلا جائے، تقویٰ اسی احتیاط کا متقاضی ہے۔ دامن کا جو حصہ اُلجھ جائے وہ کانٹوں کے حوالے کرکے صراط مستقیم کی راہ کھوٹی نہ کی جائے۔
رمضان کے روزوں کی دو ہی تو مصلحتیں بیان کی گئی تھیں۔ ایک یہ کہ لعلکم تتقون (البقرہ 183) اور دوسری یہ کہ مسلمان اس نعمت پر شکر ادا کریں جو قرآن کی صورت میں ماہِ رمضان میں عطا کی گئی۔ ’’لتکبرواللہ علی ماھذکم ولعلکم تشکرون‘‘ تاکہ تم اللہ کی تکبیر کرو اور اس کا شکر ادا کرو اُس ہدایت پر جو اس نے تمہیں دی ہے۔ (البقرہ: 185) اس کا شکر ادا کرنے کی صورت صرف زبانی نہیں ہے بلکہ حقیقی شکر یہ ہے کہ اس کی رہنمائی سے عملاً زندگی کی تاریک راہوں میں اجالا کریں۔ اگر رمضان المبارک میں کسی نے قرآن کو اس نظر سے دیکھا اور سمجھنے کی کوشش کی کہ قرآن نے انفرادی ہی نہیں اجتماعی زندگی کے متعلق بھی مکمل ہدایات دی ہیں۔ معاشرتی زندگی، خانگی زندگی، تمدن، ریاست کا آئین، خارجہ امور، پبلک اور پرائیویٹ زندگی ان پر حکمرانی قرآن کی ہوگی، تو واقعی وہ مبارک باد کا مستحق ہے کہ اس نے رمضان کے پیغام کو سمجھا۔
مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں ’’رمضان کے روزوں کا حقیقی فائدہ آپ اسی طرح اُٹھا سکتے ہیں کہ ایک مہینے تک جو اخلاقی تربیت ان روزوں نے آپ کو دی ہے، عید کے بعد آپ اس کو نکال کر اپنے اندر سے پھینک نہ دیں، بلکہ باقی گیارہ مہینے اس کے اثرات کو اپنی زندگی میں کام کرنے کا موقع دیں۔ یہ فائدہ اگر کسی شخص نے اس رمضان سے حاصل کرلیا تو وہ واقعی پوری پوری مبارک باد کا مستحق ہے کہ اس نے اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت پالی۔“ (تفہیمات چہارم)
سچ تو یہ ہے کہ عید بھی اسی کی ہے جس نے رمضان سے زندگی کی راہوں کو منور کیا۔
لیس العید لمن لبس الجدید
انما العید لمن خاف الوعید
عید اس کی نہیں ہے جس نے نئے کپڑے پہنے، عید تو اس کی ہے جو آخرت کے برے انجام سے ڈرا۔
لیس العید لمن شرب و اکل
انما العید لمن اخلص لللّٰہ العمل
عید اس کی نہیں ہے جو کھانے پینے میں مگن رہا
عید تو اس کی ہے جس نے اپنے عمل کو اللہ کے لیے خاص کرلیا۔
لیس العید لمن رکب المطایا
انما العید لمن ترک الخطایا
عید اس کی نہیں ہے جو سواریوں پر چڑھا
عید تو اس کی ہے جس نے خطائیں ترک کردیں