’’امی… امی! اویس نے میرے سارے کھلونے گرا دے۔ یہ مجھے بہت تنگ کرتا ہے۔‘‘ زبیر نے کچن میں آکر اپنی امی سے شکایت کی وہ کھانا پکانے میں مصروف تھیں۔
’’بیٹا وہ تمہارا چھوٹا بھائی ہے۔وہ تمہارے ساتھ کھیلنا چاہتا ہے۔ امی نے اسے سمجھایا۔
مجھے نہیں کھیلنا اس کے ساتھ اسے نہیں معلوم کیسے کھیلتے ہیں یہ سارا کھیل خراب کر دیتا ہے۔
’’بیٹا وہ ابھی صرف تین سال کا ہی تو ہے۔‘‘
پتا نہیں یہ کب بڑا ہو گا زبیر پیر پٹختا ہوا باہر چلا گیا۔
زبیر چھ سال کا تھا کچھ سال پہلے وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا سب اس کے ناز اٹھاتے تھے والدین کی پوری توجہ بھی اسی کی طرف رہتی۔ اس وقت وہ چاہتا تھا کہ اس کا کوئی چھوٹا بھائی ہو جس سے وہ کھیلے اور جب اس کا چھوٹا بھائی آیا تو وہ بہت خوش تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ اس کو احساس ہوا کہ اس کی اہمیت بہت کم ہو کر رہ گئی ہے جو بھی گھر آتا ننھے اویس کو اٹھا کر خوب پیار کرتا دیر تک اس بات پر بحث ہوتی کہ اس کی شکل کس سے ملتی ہے کوئی دادا سے ملاتا تو کوئی نانی سے کوئی کہتا کہ ناک تو بالکل اپنے ابا جیسی ہے۔ ہر وقت اسی کی باتیں اب اسے اپنے بھائی سے جلن ہونے لگی تھی۔
پھر ایک دن تو وہ صرف اویس سے اپنا کھلونا لینا چاہتا تھا کھلونا چھینتے وقت پتا نہیں کب اویس کا ہاتھ زخمی ہو گیا۔ وہ بہت زور سے رویا تھا اس کی انگلی سے خون نکل رہا تھا زبیر نے یہ سب جان بوجھ کر نہیں کیا تھا وہ تو بس اپنا کھلونا واپس لینا چاہتا تھا۔امی جلدی سے کمرے میں آئی اویس کے ہاتھ سے خون نکلتے دیکھ کر انہوں نے زبیر کو بہت زور سے ڈانٹا۔ اس سے پہلے کبھی اسے امی نے اس طرح نہیں ڈانٹاتھا۔ جب سے اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ کبھی اویس سے بات نہیں کرے گا اور نہ ہی اس کے ساتھ کھیلے گا کیوں کے اس کی وجہ سے اسے ڈانٹ پڑی ہے۔ وہ سوچنا پہلے کتنا اچھا تھا سب صرف مجھ سے پیار کرتے تھے ہر چیز صرف میرے لیے ہی ہوتی تھی۔ رانی خالہ اور پھوپو صرف میرے لیے ہی چیزیں لاتیں تھیں اب تو آدھی چاکلیٹ اویس کو بھی دینی پڑتی ہے۔کئی روز سے اویس کی طبیعت خراب تھی اس کا بخار اتر نہیں رہا تھا بخار بھی کافی تیز ہو جاتا۔ ایک دن وہ اسکول سے آیا تو گھر میں پھوپو آئی ہوئی تھیں پھوپو نے اسے بتایا کہ اویس کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی تھی اس لیے ڈاکٹر نے اسے ایڈمٹ کر لیا ہے امی ابو بھی اس کے ساتھ ہی ہیں۔
چلو اچھا ہے کچھ دن تو میں آرام سے کھیل سکوں گا۔ زبیر نے دل ہی دل میں سوچا۔ زبیر نے اپنے سارے کھلونے نکالے اور کھیلنے لگا کچھ دیر تو اسے مزہ آیا لیکن اسے کچھ کمی کا احساس ہونے لگا اسے بار بار اویس کا خیال آتا۔ کیسے وہ بھاگتا ہوا آتا تھا اور سارے کھلونے نیچے گرا دیتا اور کھلونے گرانے کے بعد زور سے ہنستا زبیر سوچ کر خود ہی خود مسکرا دیا۔ پتا نہیں کیوں اس کا دل چاہنے لگا کے وہ کہیں سے آئے اور سارے کھلونے بکھیر دے اب وہ کھلونوں سے بور ہونے لگا تھا اب اس کو اویس بہت شدت سے یاد آرہا تھا اس کو ایسا لگ رہا تھا کہ وہ بہت اکیلا ہے۔ اب وہ صحن میں بیٹھ کر اپنے بھائی کے آنے کی دعائیں کر رہا تھا۔
’’اللہ تعالیٰ میں اب اپنے بھائی کا بہت خیال رکھوں گا اسے اپنے کھلونے بھی دوں گا۔ اللہ تعالیٰ آپ میرے بھائی کو جلدی سے ٹھیک کر دیں اسے میرے پاس واپس لے آئیں۔
دوسرے دن ہی اویس گھر واپس آگیا تھا اب اس کا بخار بھی اتر چکا تھا۔ اور زبیر کی پوری کوشش تھی کہ وہ ایک اچھا بڑا بھائی ہے۔