رمضان المبارک کا چاند نظر آتے ہی بچوں نے خوشی سے شور مچا دیا اُن کے دل میں خوشی کے لڈو پھوٹ پڑے ایسے میں ننھا انس بھی خوشی سے ایک ٹانگ پہ اچھلنے لگا۔ اب تو ہر روز خاص اہتمام ہوا کرے گا سحری اور افطاری کا عمائمہ نے چیختے ہوئے سب بچوں کو کہا ”میں بھی اپنی مما سے کہہ کر روز افطاری میں چنا چاٹ اور پکوڑے بنوایا کروں گی۔
”میں بھی لازمی روزہ رکھوں گا ننھے انس نے اپنی مما سے کہا ۔بیٹا تم ابھی کافی چھوٹے ہو ،گرمی بھی ہے دیکھ لو بہت لگے گا تم کو روزہ…نہیں…نہیں…میں لازمی رکھوں گا روزہ علنتا، عمائمہ ،حماد اور معاذ سب روزے رکھتے ہیں وہ مجھ اکیلے کا مذاق اڑائیں گے ۔
ٹھیک ہے بیٹا جیسے تمہاری مرضی اللہ میرے بیٹے کو ہمت وحوصلہ دے اس سے زیادہ اور خوشی کی میرے لیے کیا بات ہو گی ۔
ماہ رمضان تو نیکیوں اور عبادتوں کا مہینہ ہے اس برکت والے مہینے میں سب بچے دل کھول کر عبادات کریں گے اور دعائیں مانگیں گے۔
صبح سحری کے وقت سب بچے ٹائم سے اٹھ گئے بڑی اماں نے سب بچوں کو آوازیں دے کر اٹھا دیا۔ بچوں نے مزے سے سحری کھائی اور پھر فجر کی اذان شروع ہو گئی ۔اذان کے ہونے کے کچھ دیر بعد بڑی اماں اپنے کمرے میں نماز پڑھنے چلی گئیں ۔بچوں نے بھی نماز ادا کی اور بڑی اماں کے کمرے میں آکر ان کے پاس بیٹھ کر قرآن پاک کی تلاوت کرنے لگے ۔
یہ نظارہ اتنا پر کیف اور روحانیت سے بھر پور تھا انس کی مما نے دروازے سے جھانکا اور ہولے سے مسکرا کر پلٹ گئیں۔
بچے ٹائم پاس کے لئے روز کوئی نہ کوئی گیم کھیلتے کبھی پڑھائی کرتے اور پھر آرام کرتے ۔آج سب کا روزہ تھا انہوں نے پلان کیا کیوں نہ صحن میں کرکٹ میچ کھیلا جائے اس طرح اچھا ٹائم پاس ہوجائے گا اور پھر ظہر کے ٹائم تک کھیل کر نماز پڑھیں گے اور اپنے ملک کی سلامتی کے لئے دعا مانگیں گے ۔
ننھا انس بھی اُن کے ساتھ میچ میں پیش پیش تھا۔ حماد اور معاذ بہت شریر تھے انہوں نے سوچا کیوں نہ آج زیادہ بولنگ انس سے کروائی جائے ۔علنتا اور عمائمہ نے بھی اُن کی ہاں میں ہاں ملائی ۔پہلے عمائمہ اور معاذ بیٹنگ کرنے لگے اور انس بولنگ۔
پھر کیا تھا تھوڑی دیر بعد عمائمہ تو آؤٹ ہو گئی اور علنتا اس کی جگہ آگئی ۔حماد فیلڈنگ کر رہا تھا وہ ان سب سے بڑا تھا جلدی سے بال کیچ کر لیتا تاکہ ساتھ والوں کے گھر بال نہ چلی جائے ۔بڑی اماں نے بچوں کو میچ کھیلتے دیکھا تو اپنے کمرے میں سے تسبیح کرتے ہوئے باہر آئیں۔
”بچو !اتنی دھوپ ہے اب بس کرو تم سب کے روزے ہیں روزہ لگ جائے گا اور انس تو ابھی بہت چھوٹا ہے اس کا پہلا روزہ ہے اس کا خیال کرو کیوں اس کو اتنا بھگا رہے ہو ۔
علنتا بولی !دادی امی بس تھوڑا سا اور کھیل لیں پھر ہم کمرے میں آجاتے ہیں ۔
بڑی اماں بڑبڑاتے ہوئے اپنے کمرے میں آگئی ۔اب اتنا بھاگ بھاگ کر انس پیاس سے نڈھال ہو گیا مگر اس ننھی سی جان نے اُف نہ کی اور جوش وولولے سے کھیلتا رہا۔ اتنے میں حماد کے ابو گھر میں داخل ہوئے انہوں نے بچوں کو ڈانٹا اور اندر جانے کو کہا سب بچے سر پٹ بھاگے بلا اور بال چھوڑ کر ۔
انس میچ میں اتنا مگن تھا وہ باہر سے کمرے میں آیا تو اس کے ذہن سے نکل چکا تھا کہ اس کا روزہ ہے ۔پیاس کی شدت سے نڈھال وہ سیدھا فریج کی جانب بڑھا پانی پینے کے لئے اتنے میں علنتا نے اسے دیکھ لیا لیکن وہ دروازے کی آؤٹ میں چھپ کر اسے دیکھنے لگی ۔
انس نے جلدی سے فریج کھولا اور پانی کی بولت کا ڈھکن کھول کر غٹا غٹ پینے لگا۔ علنتا نے شور مچا دیا:”انس نے روزہ توڑ لیا ۔۔۔انس نے روزہ توڑ لیا”۔۔۔معاذ اور عمائمہ بھی شور سن کر کمرے میں آگئے اور سب ہنسنے لگے ۔
معاذ نے کہا کیوں انس صاحب آپ کو بہت شوق تھا روزے کا اب توڑ بھی لیا اب دیکھنا تمہارے ابو تمہاری پٹائی کریں گے بڑے دعوے کر رہے تھے کہ میں بھی روزہ رکھوں گا ابھی تو آدھا ٹائم پڑا ہے ۔
انس نے وہیں زمین پہ پانی والی بوتل پھینکی اور ڈر کر اپنے کمرے میں آگیا اور زار وقطار رونے لگا ۔یا اللہ یہ مجھ سے کیا ہو گیا اب بابا مجھ سے ناراض ہونگے اور ماریں گے بھی وہ نڈھال ساہو کر بستر پر لیٹ گیا ۔ظہر کا وقت ہو گیا تھا لیکن وہ اتنا پریشان تھا کہ اسے نماز پڑھنا بھی بھول گئی ۔
اچانک بڑی اماں اپنی تسبیح ڈھونڈتے ہوئے اس کے کمرے میں آئی تو دیکھا کہ انس منہ پہ ہاتھ رکھ کر ہچکیوں سے رو رہا تھا اس نے تو آج اپنے ابو سے فرمائش کی تھی سائیکل کی کیونکہ اس کے ابو نے خود کہا تھا کہ میں اپنے پیارے بیٹے کو نئی سائیکل لے کر دوں گا اگر یہ روزہ پورا کرے گا اب تو سائیکل بھول گئی اور ڈانٹ ذہن میں سما گئی اس کی امی نے کہا تھا آج میں افطاری میں سب ڈشز اپنے بیٹے کی فیورٹ بناؤں گی۔
”انس بیٹا کیا ہو ااتنے افسردہ کیوں ہو نماز پڑھ لی آپ نے “انس نے نفی میں سر ہلا دیا اور رونے لگا ۔بڑی اماں نے آگے بڑھ کر اسے ساتھ لگا لیا اور پوچھا کسی نے مارا ہے میرے لعل کو ؟پھر انس نے ساری روداد اپنی نانی جان کوسنا دی ۔
نانی جان مسکرا کر بولیں آپ کو کس نے کہا آپ کا روزہ ٹوٹ گیا۔ انس بولا علنتا اور معاذ نے بیٹا میری بات غور سے سنو۔ آپ نے تو بھول کر پانی پیا ہے آپ کو کون سا یاد تھا کہ آپ کا روزہ ہے بھول سے کچھ کھاپی لینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔
ہاں! اگر جان بوجھ کر یا چوری چھپ کے کچھ کھایا پیا جائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔اُٹھو میرا بچہ وضو کرو اور نماز پڑھو میں اور ان بچوں کی خبر لیتی ہوں اگر علنتا نے دیکھ لیا تھا تو فوراً روک دیتی نہ کہ چھپ کر دیکھتی رہی اصل گنہگار تو وہ ہے علنتا دروازے کی لوٹ سے ساری باتیں سن رہی تھی اس نے انس اور بڑی اماں سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی ۔
بڑی اماں نے کہا اب نماز پڑھو اور اللہ تعالیٰ سے بھی معافی مانگو ننھی سے جان انس کو تم نے اتنا پریشان کیا پھر انس نے وضو کرکے نماز پڑھی اور اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا اس کا بھروسا نہیں ٹوٹا۔