سوشل میڈیا پرہی نہیں پاکستان بھر کی تمام افطاریوں، نجی و عوامی محافل میں ملکی سیاست ہی کا موضوع گرم رہا۔ عمران خان نے 20 رمضان تک تین بڑے جلسے اور کئی عوامی خطابات سے ہلچل مچائی ہوئی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں سوشل میڈیا پر فوج، سربراہ فوج اور عدلیہ کے خلاف اتنے بڑے پیمانے پر مہم کی کوئی مثال نہیں۔ جب فواد چوہدری جیسے افراد کے ٹوئٹر پر50 لاکھ فالوورز، شہباز گل کے 25 لاکھ فالوورز ہوں گے تو آپ اندازہ کر لیں اس جنگ کا۔ ویسے چند گرفتاریاں ضرور ہوئی ہیں اور اب اتنے دن بعد جا کر پابندی لگانے کی بات شروع ہوئی ہے جو کہ اب عمران خان کے حق میں عوامی حمایت بڑھانے کا سبب بنے گی۔ ٹی وی چینل، اس کے اینکرز میں بھی صاف تقسیم نظر آئی۔ ’امپورٹڈ حکومت نامنظور‘ کا ٹرینڈ سب سے مقبول رہا اور دو ہفتوں میں 21 لاکھ ٹوئیٹس کے ساتھ لسٹ میں مسلسل منڈلاتا رہا۔ اس ٹرینڈ سے تو حکومت اتنی گھبرائی کہ نئی وفاقی وزیر اطلاعات نے کہہ دیا کہ یہ ٹرینڈ تو جعلی ہے جسے انسان نہیں ’باٹ‘ (مطلب مشینی مدد سے) چلا رہے ہیں ۔ اس کا جواب بھی NotaBot کی صورت دیا گیا۔ اسی طرح ’عدالت آئین شکنی پر کھلی‘ کا ٹرینڈ بھی جواب میں چلایا گیا۔ PakistanNeedElections، کراچی جلسہ، پنجاب اسمبلی، وزیر اعلیٰ حمزہ شریف، پرویز الہی ، سپریم کورٹ آف پاکستان، بھی ٹرینڈ لسٹ میں بیانیے دیتے رہے۔ تحریک لبیک بھی اپریل میں اپنے شہدا کابدلہ لینے پوری قوت سے اتری اور ’قاتل اعظم عمران خان‘ کے عنوان سے 3 دن ٹرینڈ لسٹ پر چھائی رہی۔ اس دوران نئے پاکستان اور پرانے پاکستان کا شور بھی سوشل میڈیا پر بلند ہوا۔ توشہ خانہ کی گھڑی بھی بہت ڈسکس ہوئی، جسے مبینہ طور پر 50 فیصد رقم دے کر لیا گیا تھا۔ اس معاملے میں عمران خان مخالف لوگ سید منور حسن مرحوم کی بیٹی کی شادی کے تحائف کی مثال کو خاصا پروموٹ کرتے نظر آئے۔ اسی طرح نئی حکومت کی کابینہ بننے پر بھی دل چسپ موازنہ شروع ہوا۔ اس میں تعلیمی قابلیت کا فرق تو ایک طرف تھا جب کہ دوسری جانب اکثر وفاقی وزرا کی مختلف مقدمات میں نامزدگی زیر بحث رہی۔ چونکہ مقدمات میں وہ سب ضمانتوں پر باہر تھے اور کیسز کئی سال سے التوا کا شکار تھے اس لیے تادم تحریر وہ ملزم ہی شمار تھے مگر ان کو دیکھ کر لوگوں نے یہی کہا کہ اس سے بہتر وزرا تو ’نئے پاکستان‘ کے ہی تھے۔ سب سے زیادہ ردعمل پیپلز پارٹی کے عبدالقادر پٹیل کے وفاقی وزیر صحت بننے پر سامنے آیا، کیوں کہ اُن سے قبل ایک معروف ڈاکٹر اس وزارت کے امور دیکھ رہا تھا اور موصوف پر کئی قسم کے کیسز تھے۔ اسی طرح شازیہ مری پر جعلی ڈگری کیس، حنا ربانی پر بجلی چوری و دیگر پر مقدمات کی گونج بھی خوب رہی۔ اب کون سمجھائے کہ یہ مخلوط حکومت ہے اس میں یہ تو ہونا ہی تھا۔
بوسٹن یونیورسٹی میں فلسفہ کے ایک استاد لی میکنٹائر کی کتاب ہے پوسٹ ٹرتھ۔ کتاب میں وہ کہتا ہے کہ ہم ایک ایسی دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں جہاں درست حقائق کو مصنوعی یا متبادل حقائق سے تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ یہ دور نظریاتی بالا دستی کے دعوے کا ہے۔ عمران خان کا بیانیہ اس کی بہترین مثال ہے۔ پاکستان میں حالیہ دنوں بڑی دل چسپ سیاسی صورت حال یوں پیدا ہوئی جسے ہم اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ایک جماعت جو کہ اپنی نہاد میں مکمل سیکولر ہے وہ اب اسلام اور مغرب مخالف بیانیہ کی نمائندہ بن کر سامنے آگئی ہے جب کہ اس کے مقابلے پر دیگر سیکولر جماعتیں کھڑی ہیں۔ اس طرح جو اسمبلی میں موجود سیکولر جماعتوں کے درمیان ایک آئینی بحران پیدا ہوا، اِس میں دینی جماعتیں اپنے تشخص کے ساتھ کہیں نظر نہیں آرہی تھیں۔ 4 سال سے حکومت کرنے والی ایک سیکولر جماعت کا یہ دعوی ہے کہ میری اسلام پسندی، مغرب مخالف اور استعمار غلامی کے خلاف بیانیہ کی وجہ سے مجھے نکالا گیا ہے، اب باقی جو بھی ہیں وہ سب مغرب یا امریکا کی ہمنوا بھی ہیں اور ساتھ ساتھ آزادی دشمن و اسلام دشمن بھی ہیں۔ اب اس صورت حال ایک مطلب تو یہ ہے کہ کیا اب اسلامی جماعتوں کے بیانیے بھی سیکولر جماعتیں ہائی جیک کریں گی؟ پہلے ہی سیاسی طور پر اسلامی جماعتوں کے ہاتھ کچھ نہیں ہے، اس لیے اسلامی جماعتیں ان معنوں میں حالت سکتہ میں ہیں کہ ناموس رسالتﷺ، اسلامی نظام، مدینہ ریاست سے لے کر امریکا مخالف بیانیہ کو اب ایک سیکولر جماعت کتنے مزے سے ’’ـکولونائز ‘‘کر رہی ہے ۔ اب اگر وہ زیادہ پاپولر ہو جاتی ہے، پہلے سےزیادہ ووٹ لے لیتی ہے تو جمہوری تناظر میں اسلامی جماعتیں کہاں کھڑی ہوں گی؟ اس لیے بھی کیوں کہ مذہبی جماعتوں نے اپنے نظریاتی نعروں اور بنیادی اٹھان پر مبنی نعروں کو ترک کر کے ازخود نظام کی خدمت اور اس میں پرفارمنس یعنی کارکردگی والی سیاست کا نعرہ لگایا۔ دینی جماعتوں نے پوری حکمت عملی اور دیانت داری سے عوام کی خدمت، کارکردگی، مسائل کے حل، کرپشن سے پاک ہونے کے نعرے عوام میں اُتارے، مگر اچانک سے ایک سیکولر جماعت اُن کے چھوڑے ہوئے نعرے اُچک کر لے گئیں۔ اَب سوشل میڈیا پر اظہار جذبات کا عالم یہ ہے کہ اسلامی جماعتوں کے کارکن، ووٹر، حامیان، متعلقین بھی یہ کہہ ر ہےہیں کہ امریکا نے تو عمران خان کو نکالا ہے، قربانی تو اُس نے دی ہے، اسلامو فوبیا کے خلاف تو وہ بولتا ہے تو تم کہاں ہو؟ اس کو کہتے ہیں پوسٹ ٹرتھ پالیٹیکس یا پوسٹ فیکٹ پالیٹیکس۔ مطلب ایسی سیاست جو درست حقائق کو مسخ کرکے مسلط کردہ حقائق پر کھڑے ہوں، جن کا بنیادی مقصد حقائق کی جانب متوجہ نہ ہونے دیا جائے۔ اس لیے جلسہ بھی ’امر بالمعروف‘ ہو جاتا ہے۔ اس طرح عوامی جذبات کے ساتھ کھیلا جاتا ہے کہ عوام کو ان نعروں میں ہی تسکین ملتی ہے اور وہ شعور کی جانب جانے کے بجائے سلوگن کے پیچھے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
موجودہ سیاسی صورت حال پوسٹ ٹرتھ پالیٹیکس کا نتیجہ ہے۔ اس بنیاد پر سیاسی سلوگن و بیانیے کھڑے کرنا کہ لوگ حقائق کو نہ دیکھ پائیں کیوں کہ اس میں اصل جنگ حقیقت کے ساتھ ہو رہی ہوتی ہے۔ عمران خان نے کیسے یہ پوسٹ ٹرتھ پالیٹیکس کی‘ یہ سمجھنا یوں بہت آسان ہے کہ آپ کسی عمران خان کے نئے نئے حامی کو کہیں کہ عمران خان نے آئین توڑا ہے، اس کو آئین کی کتاب سے شقیں نکال کر دکھائیں، سپریم کورٹ کا فیصلہ دکھائیں، تاریخ سے سمجھانا شروع کریں تو آپ اس کو کسی طور قائل نہ کر سکیں گے جب وہ آپ کو کہے گا کہ اچھا یہ بتا دو کہ رات 12 بجے عدالت کیسے کھلی؟ اس کی کیا تاریخ ہے؟ بس یہاں آپ کے دلائل کی ساری گاڑی پنکچر ہوجائے گی اور آپ کے دلائل ردی کی ٹوکری کی نذر ہو جائیں گے۔ اسی طرح آپ جب کہو گے کہ اس کو تو خاتم النبیین بولنا بھی نہیں آتا، اس نے تو فرانسیسی سفیر کے معاملے پر اپنے کئی مسلمانوں کو شہید کروا دیا تو آپ کو جواب ملے گا کہ عمران خان نے پورے مغرب کے سامنے ’’اسلامو فوبیا‘‘ کو منوایا ہے اور اس نے ایسا عظیم کام کیا جو مغرب کے سامنے کوئی نہ کرسکا پس وہی سچا عاشق رسول ہے۔ جب عمران ٹرمپ سے ملنے گیا تو پشاوری چپل اور شلوار قمیض پہنی تھی۔ اس نے او آئی سی کرائی۔ یہ مثال ہے اسپانٹینیس توجہ لینے کی، سلوگن پالیٹیکس کی جس میں شعور نہیں صرف سلوگن کام کرتا ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ چینی حکومت نے عمران کو نکالا تو یہ زیادہ معقول بات ہو سکتی ہے کہ عمران خان نے سی پیک پر کام رکوایا تھا۔ مگر کوئی سوال نہیں کرے گا کہ امریکا کیوں ایسا کرے گا؟ یہ پوسٹ ٹرتھ پالیٹیکس کی تازہ مثال ہے۔
پاکستان میں اس طرز سیاست کو بڑھاوا عمران خان نے دیا اور اپنے آپ کو تیسری قوت قرار دیا، قائد اعظم کا متبادل بنا کر ابھارا، اپنی شخصیت کے گرد، جس کے مقابلے میں صرف چور اور ڈاکو ہیں‘ وہ واحد ایمان دار ہے۔ تبدیلی سے لے کر مدینہ کی ریاست پھر امریکی غلامی سے آزادی۔ اس کے درمیان کرکٹ کے میٹا فرس۔ جیسے آخری گیند تک، میں کپتان ہوں، ماسٹر اسٹروک، چھکا مار دیا۔ یہی نہیں عمران خان نے ایک کاغذ لہرایا، پھر اسپیکر نے لہرایا پھر ڈپٹی اسپیکر نے لہرایا۔ یہ تمام سلوگن ہی سلوگن ہوتے ہیں، اندر کچھ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہےکہ سوشل میڈیا کو کسی لمحے پی ٹی آئی نے نظر انداز نہیں کیا جو اس کا اصل اوریجن ہے۔ کوئی یہ نہیں جانتا کہ خط تھا کہ نہیں، کس نے لکھا، کیوں لکھا؟ کیا سفیر کا خط لکھنے کے یہ معنی ہو سکتے ہیں جو عمران خان نے اُٹھائے؟ اس لیے کوئی فیکٹ چیک نہیں ہوتا بس جذبات یہ بنا دیے جائیں کہ امریکا نے عمران خان کو نکالا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہم سب تو قانون ویسے ہی توڑتے ہیں، مگر عمران خان نے تو اتنے بڑے مقصد کے لیے قانون توڑا جس کا توڑنا تو کوئی جرم ہی نہیں۔ ایک بندہ چار سال کچھ نہیں کر سکا، پوری معیشت تباہ کر گیا، مگر لوگ اس کے پیچھے پہلے سے زیادہ چل پڑے صرف بیانیوں اور سلوگن کی وجہ سے۔ کوئی سوچنے کو تیار ہی نہیں ہوتا کہ اعلیٰ ریاستی عہدے اسپیکر کے طور پر ایک شخص بھری اسمبلی میں یہ کہہ دیتا ہے کہ ’’میرے لیے آئین اہم نہیں عمران اہم ہے۔‘‘ اس بات کو سب سنتے ہیں مگر کوئی اہمیت ہی نہیں دیتا کہ آئین کے مقابلے میں عمران خان کی اہمیت زیادہ ہے۔ دیکھا جائے تو یہ بیانیہ تو تمام کالعدم تنظیموں کے بیانیوں کو بھی پس پشت ڈال دیتا ہے۔ اس عمل میں لوگ ’جہل‘ کے مقام پر اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ وہ اپنے لیڈر کے سحر میں اس کے حکم پر ’فوری الیکشن‘ کا مطالبہ شروع کر دیتے ہیں، تو ایسے میں کوئی یہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتے کہ جو قوتیں عدم اعتماد سے آپ کو ہٹا سکتی ہیں تو وہ آپ کو الیکشن میں کیوں، کیسے آنے دیں گی؟ کوئی سوال نہیں کر رہا کہ جس فوج کو آپ ہم سے گالی دلوا رہے ہیں وہ کیوں آپ کو دوبارہ سر پر بیٹھائے گی؟ ٹی ایل پی بھی رو رہی ہے کہ جس بندے نے سب سے زیادہ گولیاں چلائیں عاشقان مصطفیٰﷺ پر آج اس کے خلاف بھی ملعون گیرٹ ویلڈر ٹوئیٹ کر رہا ہے، سارا نظام عدلیہ، امریکا اور فوج سب اس کے خلاف ہیں اور وہ صرف سلوگن کی بنیاد پر ناموس رسالت کا چیمپئن بن گیا ہے ۔
اس ہفتے بلقیس ایدھی کے انتقال پر بھی ایک ٹرینڈ ان کی خدمات کے لیے بنا۔ تحریک منہاج القرآن نے لاہور میں امسال بھی سب سے بڑے اجتماعی اعتکاف کی تشہیر ’’اعتکاف سٹی2022‘‘ کے ہیش ٹیگ کو ٹرینڈ بنا کر کی۔ بھارت میں مسلمانوں پر جاری تشدد کے واقعات میں اس ہفتے مزید اضافہ ہوا، جہانگیر پوری وائلینس کے ہیش ٹیگ نے بھارت میں ٹرینڈ کرا۔ حکومت نے ناجائز تعمیرات کی آڑ لے کر مسجد کو بھی نشانہ بنا ڈالا۔ بھارتی رکن پارلیمان اسدالدین اویسی نے ٹویٹ میں کہا ’’حکومت نے غریب مسلمانوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی ہے۔ تجاوزات کے نام پر مدھیہ پردیش اور اتر پردیش کی طرح یہاں بھی یہ مسلمانوں کے گھر مسمار کریں گے۔ کوئی نوٹس نہیں، عدالت جانے کا کوئی موقع نہیں۔ یہ مسلمانوں کو زندہ رہنے کی جرات کرنے کی سزا دی جا رہی ہے۔‘‘
عام آدمی پارٹی کے رہنما راگھو چڈھا نے کہا کہ ’’اگر بلڈوزر چلانا ہے تو بی جے پی کے ہیڈ کورارٹرز پر چلائیے۔ فساد رک جائے گا۔ یہ دنگے فساد یہی لوگ کروا رہے ہیں۔‘‘ اسی طرح فلسطین میں مسجد اقصیٰ میں یہودی پولیس کی دراندازی اور حملوں کی فوٹیجز نے بھی سوشل میڈیا پر توجہ لی۔ کئی وڈیوز خود انگریزوں کی جانب سے بنا کر ڈالی گئیں جن میں اسرائیلی پولیس معصوم فلسطینی بچوں پر تشدد کر رہی ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان نے ایک بار پھر فلسطینی مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے 21 اپریل کو ملک گیر احتجاج کی اپیل کی۔
اب آپ دوبارہ دیکھیں کہ امریکا مخالف بیانیہ رکھنے والا، اسلام کا درد رکھنے والا، فلسطین کی پوری صورت حال پر ایسا خاموش ہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ ویسے بھی کراچی جلسہ سے عمران خان مستقل اپنے بیانیے میں تبدیلی یا ’یو ٹرن‘ لا رہا ہے، یہ اس کی سیاست کا مرکزی نقطہ ہے مگر افسوس تو اُن لوگوں پر ہے جو اس صورت حال کو شعوری طور پر نہیں سمجھ رہے۔ ان بیانیوں کی اثر انگیزی کی شدت اتنی تھی کہ ایک پوسٹ واٹس ایپ پر بہت وائرل رہی، اس سے اندازہ کیجیے ’’ـپاکستان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی پولیٹیکل پولرائزیشن اب عدم برداشت کی صورت ہم سب کے گھروں اور نجی تعلقات میں آ چکی ہے۔ سیاسی تفریق اب دلوں میں تفریق لانے لگی ہے۔ باہمی احترام باقی نہیں رہا۔ سنجیدہ احباب کی زبان بگڑتی جا رہی ہے۔ درجنوں دوست و احباب ایک دوسرے کو سوشل میڈیا پر ان فرینڈ کر رہے ہیں۔ گھریلو تعلقات بھی باہمی تفریق اور بے ادبی کی صورت حال سے دوچار ہیں۔ کیا یہ مناسب ہے کہ ہم ایک ایسی صورت حال کی وجہ سے آپس میں بدظن ہوں جس میں براہِ راست ہمارا کوئی ہاتھ بھی نہیں۔ ہمیں اپنے جیسے عام انسانوں کی زندگیوں کو سہل بنانا اور ان کو ہنستا بستا دیکھنا چاہیے، دین کے بتائے راستے کو اپنائیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ لیڈروں کی وجہ سے دین اور ایمان کو ہاتھ سے گنوا بیٹھیں۔ کم از کم یہ ضرور کریں کہ اسکرین ٹائم کم کرلیں اور بلاتحقیق صرف مزے لینے یا کسی کو نیچا دکھانے کی خاطر پوسٹیں پھیلانے سے پرہیز کرلیں، بہت کچھ بہتر ہو جائے گا۔‘‘ اس پوسٹ میں ایک ایسی حقیقت بیان کی گئی تھی جو میں نے بھی لوگوں سے میل ملاپ کے دوران محسوس کی۔