یوکرین جنگ کے نمایاں اسباق

245

روئے ارض پر جب سے انسان نے قدم رکھا ہے تب سے اب تک طاقت کا کھیل رُکا نہیں، تھما نہیں۔ ہر عہد کے انسانوں نے زیادہ سے زیادہ طاقت کا حصول یقینی بنانے کی کوششوں کے نتیجے میں امن و سلامتی کو تہہ و بالا کیا ہے۔ یہ کھیل آج بھی جاری ہے۔ ماضیٔ بعید کا درست ریکارڈ دستیاب نہیں۔ ہم اُس عہد کے بارے میں بہت کچھ محض اندازے کی بنیاد پر کہتے ہیں یا پھر آثار کا سہارا لے کر۔ گزشتہ ڈیڑھ ہزار سال کی تاریخ البتہ ہمارے پاس خاصے منظم انداز سے موجود ہے۔ اور جب سے طباعت آسان ہوئی تب سے بہت کچھ شائع کیے جانے کا عمل بھی شروع ہوا۔ یوں انسان کو ماضی کے حوالے سے بہت کچھ گھر بیٹھے، کتب کے ذریعے، معلوم ہو جاتا ہے۔ یوکرین پر روس کی لشکر کشی نے عالمی سطح پر سلامتی کے حوالے سے کئی سوال کھڑے کردیئے ہیں۔ بہت سے ممالک اور خطے شدید عدمِ تحفظ محسوس کر رہے ہیں۔ 24 فروری کو یوکرین میں شروع ہونے والی جنگ نے پوری دنیا کو بہت کچھ سکھایا ہے۔ یوکرین جنگ سے ملنے والا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ اگر سلامتی کے ساتھ جینا ہے تو طاقتور ہونا لازم ہے۔ آئیے دیکھیں کہ یوکرین کی جنگ سے ملنے والے 6 بڑے اسباق کیا ہیں۔
پہلا سبق :
علاقائی اور عالمی سطح پر حقیقی سلامتی اور امن یقینی بنائے رکھنے کے لیے ایٹمی ہتھیار ناگزیر ہیں۔ سوویت یونین کی تحلیل کے وقت یوکرین کو بھی ایٹمی ہتھیار ترکے میں ملے تھے۔ روس نہیں چاہتا تھا کہ اُس کے سوا خطے میں کوئی ایٹمی طاقت ہو۔ اُس نے یوکرین کو سلامتی کی یقین دہانی کرائی اور ایٹمی ہتھیار تلف کرادیئے۔ اس معاملے میں امریکا اور یورپ نے بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ ایٹمی ہتھیاروں سے دست بردار ہونا یوکرین کے لیے موت کا پروانہ بن گیا۔ اگر اُس کے پاس ایٹمی ہتھیار ہوتے تو روس یوں بے فکری سے لشکر کشی نہ کر پاتا۔
دوسرا سبق :
امریکا اب کوئی ایسا ملک نہیں رہا جس پر ہر معاملے میں پورا بھروسا کیا جاسکے۔ اُس کی دی ہوئی ضمانت کی بھی اب وہ وقعت نہیں رہی جو ہوا کرتی تھی۔ امریکی قیادت کیا چاہتی ہے، یہ کھل کر سامنے نہیں آرہا۔ پہلے اُس نے افغانستان کو دوبارہ طالبان کے ہاتھوں میں جانے دیا اور اب یوکرین کو روس کے حوالے سے کرکے محض تماشا دیکھ رہا ہے۔ اس وقت مجموعی کیفیت یہ ہے کہ امریکا کی طرف سے کسی بھی معاملے میں دی جانے والی ضمانت قبول کرنے کے لیے کوئی بھی تیار نہ ہوگا۔
تیسرا سبق :
اقوامِ متحدہ بھی کوئی ایسا فورم نہیں جس پر ہر معاملے میں پورا بھروسا کیا جاسکے، فیصلہ کن اقدامات کی امید وابستہ کی جاسکے۔ اقوامِ متحدہ اب محض گفت و شنید اور تقریروں کا پلیٹ فارم ہوکر رہ گیا ہے۔ اپنے قیام سے اب تک اس ادارے نے بیشتر معاملات کو محض تماشائی کی حیثیت سے دیکھا ہے۔
چوتھا سبق :
اقوامِ متحدہ کی چھتری تلے کام کرنے والی سلامتی کونسل کسی بھی اعتبار سے کوئی ایسا فورم نہیں جو سلامتی کو یقینی بناسکے۔ اس ادارے نے بھی اب تک بیشتر معاملات میں محض تماشائی کا کردار ادا کیا ہے۔ کسی بھی اہم معاملے میں کوئی نمایاں پیش رفت اس لیے ممکن نہیں ہو پاتی کہ اس فورم کے پانچ مستقل ارکان کے پاس ویٹو پاور ہے یعنی وہ پوری کونسل کے کسی بھی فیصلے کو مسترد کرسکتے ہیں۔
پانچواں سبق :
ہر ملک کے اپنے مخصوص مفادات ہوتے ہیں اور اُس کی تمام پالیسیاں اُن مفادات کے تابع ہوتی ہیں۔ کوئی بھی ملک کسی کی جنگ میں ایک خاص حد سے زیادہ مدد نہیں کرسکتا۔ یوکرین کے معاملے میں امریکا اور یورپ نے جو روش اختیار کی ہے اُس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کوئی بھی ملک اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنائے رکھنے میں کیا کرسکتا ہے۔ امریکا خود کو واحد سپر پاور کہلواتا ہے مگر اُس نے بھی اپنے مفادات سے دست بردار ہونے سے گریز کرتے ہوئے یوکرین کو بے یار و مددگار چھوڑنے کو ترجیح دی۔ اس معاملے میں امریکی قیادت نے اس بات کی پروا بھی نہ کی کہ اُن کی ساکھ کر بہت بڑا دھبّا لگ سکتا ہے۔
چھٹا سبق :
دنیا بھر میں جمہوری اقدار تیزی سے کمزور پڑتی جارہی ہیں۔ آمرانہ طرزِ حکومت کی مقبولیت بڑھ رہی ہے۔ اس طرزِ حکومت کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اِس میں فیصلے تیزی سے کرلیے جاتے ہیں۔ عام آدمی کو یہ طرزِ حکومت اس لیے بھاتا ہے کہ بعض معاملات میں تیزی سے کیے جانے والے فیصلوں کے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ اور پھر یوں بھی ہے کہ جمہوریت پسند قوتوں نے باہمی مناقشوں کے ذریعے اِس بہترین طرزِ حکومت کو محض تماشا بنادیا ہے۔
یوکرین میں جاری جنگ ایک نہ ایک دن ختم ہوگی۔ کون جیتے گا، یہ ابھی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اس نوعیت کی جنگ میں ہارنے والا ہارتا نہیں اور جیتنے والا جیتتا نہیں۔ روس نے یوکرین کو تباہ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی مگر خود اُس کا بھی بہت نقصان ہوا ہے۔ ایسے میں سوچا جاسکتا ہے کہ یوکرین کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے بعد بھی روس کے لیے شادیانے بجانے کی گنجائش پیدا نہیں ہوسکے گی۔ اس جنگ میں فتح بھی شکست ہی کے برابر ہوگی۔ روس کبھی یوکرین کے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانے میں کامیاب نہ ہوسکے گا۔ یوکرین کی طرف سے ہونے والی شدید مزاحمت اُسی وقت روکی جاسکے گی جب روس دارالحکومت کیف پر قبضہ کرے، یوکرین کے صدر زیلنسکی کو مار ڈالے یا اُنہیں وطن چھوڑنے پر مجبور کرے۔ اب یہ جنگ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے لیے عزت کا مسئلہ بن گئی ہے۔ اس جنگ کے اثرات کا دائرہ وسعت اختیار کرتا جارہا ہے۔ عالمی امور پر اس جنگ کے اثرات انتہائی پریشان کن ہیں۔
ایک بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ اب معاہدۂ شمالی بحرِ اوقیانوس کی تنظیم (نیٹو) کیا کرے گی۔ اس جنگ میں اب چاہے کوئی بھی جیتے، ایک بات طے ہے۔ یہ کہ دنیا بھر میں بہت کچھ تبدیل ہوکر رہے گا۔ اب تک تو سب کی نظر ایشیا پر تھی۔ ایشیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں سوچا جارہا تھا، اندازے قائم کیے جارہے تھے۔ اب یورپ توجہ کا مرکز بنتا جارہا ہے۔ گزشتہ نومبر میں فرانس کے صدر میکراں نے 30 ممالک کے اتحاد نیٹو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُس کا ذہن مردہ ہوچکا ہے یعنی ’’کلینیکل ڈیتھ‘‘ واقع ہوچکی ہے۔ روس کی لشکر کشی کے بعد نیٹو کی سوچ میں تبدیلی ناگزیر ہے۔ اب نیٹو کے ارکان دوبارہ منظم ہوکر آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے۔ یوکرین کی جنگ امریکا اور یورپ کے تعلقات بہتر بنانے کا عمل بھی شروع کرسکتی ہے۔ خیر، اس حوالے سے کسی فوری پیش رفت کی توقع نہیں کی جاسکتی کیونکہ یورپ کی متعدد ریاستیں تمام معاملات میں امریکا پر بھروسا کرنے کو تیار نہیں۔ جرمنی اور فرانس اس معاملے میں الگ روش پر چل رہے ہیں۔
یوکرین کی جنگ یورپی ممالک کو ایک بار پھر دفاعی بجٹ میں اضافے کی طرف لے جائے گی۔ اب تک یورپی ممالک اپنے بجٹ کا محض تین چار فیصد ہی دفاعی معاملات پر خرچ کرتے آئے ہیں۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ امریکا اُن کی سلامتی کا ضامن ہے۔ یوکرین کی جنگ کے شروع ہوتے ہی جرمنی سمیت کئی یورپی ممالک نے اپنا دفاعی بجٹ 6 فیصد کردیا ہے۔ یہ بجٹ بڑھتا ہی جائے گا اور ایشیا میں بھی دفاعی بجٹ میں اضافے کی دوڑ شروع ہوسکتی ہے۔ بحیرۂ بالٹک اور بحیرۂ اسود کے چھوٹے چھوٹے ممالک میں اب نیٹو کے فوجی اڈے بنیں گے۔ تخفیفِ اسلحہ کا فلسفہ دھرا کا دھرا ہی رہ جائے گا اور دنیا ایک بار پھر ہتھیاروں کی دوڑ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے گی۔
یوکرین کی جنگ اِس اعتبار سے منفرد ہے کہ 1965 کے بعد پہلی بار کسی جنگ میں ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی دی گئی ہے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ یوکرین کی جنگ میں کیمیائی اور جراثیمی ہتھیار استعمال کرنے کی باتیں بھی جاتی رہی ہیں۔ اس نوعیت کی دھمکیاں پوری دنیا کے لیے خطرناک ہیں۔
دنیا بھر میں تیزی سے مقبول ہوتی ہوئی آمریت معاشی معاملات پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ جب کسی ریاست کے فیصلے کسی فرد یا محض چھوٹی سی جماعت کی مرضی اور سوچ کے تابع ہوں تب معاملات الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ متعدد ریاستوں کو آمریت نے مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے۔ اختیارات جب کسی فرد میں مرتکز ہوجائیں تو ریاستیں داؤ پر لگ جاتی ہیں۔ قدرتی وسائل نے بھی آمریت کو فروغ دیا ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال ممالک کو چند افراد اپنی مٹھی میں لیتے ہیں اور اپنی مرضی کے فیصلوں سے صرف اپنی جیبیں اور تجوریاں بھرتے ہیں۔ روس کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ روس میں تیل اور گیس کے وافر ذخائر ہیں۔ یورپ اپنی ضرورت کا 40 فیصد تیل روس سے خریدتا ہے۔ یوکرین کی جنگ کے بعد اب یورپی ممالک تیل کے لیے ایران اور وینیزوئیلا کی طرف دیکھیں گے۔ یورپی یونین اب قطر اور آذر بائیجان جیسے ممالک سے بھی تیل خریدنے میں دلچسپی لے گی۔ عام مشاہدے کی بات یہ ہے کہ جب جب تیل کی تجارت بڑھتی ہے تب آمریت بھی تیزی سے فروغ پاتی ہے۔ تیل اور گیس کی فروخت سے متعلقہ ممالک کے عوام سے زیادہ حکمرانوں کو فوائد پہنچتے ہیں۔ ایسے ممالک کے مطلق العنان آمر جمہوریت کو کچلنے پر خاص توجہ دیتے ہیں۔ ایسے ممالک سے تیل خریدنے کا مطلب آمروں کے ہاتھ مضبوط کرنا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ایسے ممالک سے تیل خریدنے کے بجائے ضرورت مند ممالک کو شمسی توانائی کی طرف جانا چاہیے۔ مغربی ممالک کو ’’گرین مینہیٹن پروجیکٹ‘‘ پر دھیان دینا چاہیے۔
عالمی معیشت میں ایک بڑی تبدیلی یہ بھی آنے والی ہے کہ چین کو زیادہ پیر پسارنے کا موقع ملے گا۔ یوکرین پر لشکر کشی کے بعد مغرب کی بہت سی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے روس سے بوریا بستر لپیٹ لیا ہے۔ یہ کمپنیاں اب روس میں پھر قدم نہیں رکھیں گی۔ اس خلا کو پُر کرنے کے لیے چینی کمپنیاں آگے بڑھیں گی اور روس میں کاروبار جمائیں گی۔ مغربی حکومتوں نے یہ نکتہ، شاید جذبات میں، نظر انداز کردیا کہ جس چین کو وہ کمزور دیکھنا چاہتے ہیں وہ روس کی ضرورت پوری کرنے پر مزید مضبوط ہوگا اور اِس کے نتیجے میں روس بھی مضبوط ہوگا کیونکہ دو طرفہ تجارتی و مالیاتی معاملات زیادہ تیزی سے پروان چڑھیں گے۔ ایسی صورت میں چین کو ایک عظیم قوت کے روپ میں زیادہ قبولیت نصیب ہوگی۔ چین پہلے ہی طاقت کے ایک بڑے مرکز کی حیثیت سے ابھر کر امریکا کے سامنے آ کھڑا ہوا ہے۔
یوکرین جنگ کے بعد روس متعدد ممالک، بالخصوص یورپ پر، سائبر حملوں میں تیزی لائے گا۔ روس میں میڈیا کو زیادہ کنٹرول کرے گا اُنہیں سائبر حملوں کے لیے بروئے کار لائے گا۔ یہ بھی جنگ ہی کی ایک شکل ہوگی۔ حالات کی روش دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ چاہے دیر سے ہی سہی، امریکا اور یورپ مل کر یوکرین کی مدد کے لیے آگے آسکتے ہیں۔
یوکرین پر روسی لشکر کشی شروع ہوتے ہی امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور دوسرے بہت سے مغربی اور غیر مغربی ممالک نے یوکرین میں موجود اپنے شہریوں کو ہدایت کی کہ حالات خطرناک ہونے کا انتظار کیے بغیر وہ یوکرین سے نکل آئیں۔ روس اور چین کے تعلقات بہت اچھے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ یوکرین پر لشکر کشی کے حوالے سے چین کے پاس پہلے سے اطلاعات موجود ہیں مگر حیرت انگیز امر یہ ہے کہ چینی قیادت نے یوکرین میں اپنے باشندوں کو خبردار کرنا مناسب نہ جانا۔ اور معاملہ محض یہیں تک نہیں رُکا۔ اُس نے جنگ کے دوران اپنے شہریوں کو نکالنے پر بھی کچھ خاص توجہ نہیں دی۔ یوکرین میں پھنسے ہوئے چینی باشندے وہاں سے نکلنے میں اپنی محنت سے کامیاب ہوئے۔ چینی قیادت نے یوکرین جنگ کے حوالے سے روس کا کھل کر ساتھ دیا۔ چینی باشندوں نے بھی سوشل میڈیا پر یوکرین کے مزاحمت کاروں اور خواتین کا تمسخر اڑایا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یوکرین میں چینی باشندوں کے خلاف فضا تیار ہوئی اور مقامی لوگوں نے چینی باشندوں کو اشیائے خور و نوش کی فروخت تک روک دی۔ یوکرین میں متعدد چینی باشندے بھوکے مرگئے۔ نپوپیترووسک نامی شہر میں دو یوکرینی باشندوں نے چینی باشندوں کا پچھا کرکے اُن پر گولیاں برسائیں۔ دارالحکومت کیف میں پھنسے ہوئے بہت سے چینی طلبہ اپنے سفارت خانے پہنچے جنہیں پولینڈ، ہنگری اور رومانیہ بھیجنے کا اہتمام کیا گیا تاہم خرچ انفرادی سطح پر برداشت کیا گیا۔ جن طلبہ نے فی کس ساڑھے چار لاکھ روپے ادا نہیں کیے اُنہیں چینی سفارت خانے نے طیارے میں سوار ہونے نہ دیا۔
یوکرین کی جنگ ایک نئے عہد کی ابتدا ہے۔ اس موڑ سے دنیا بہت عجیب معاملات کی طرف رواں ہوگی۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہر دور میں طاقتوروں نے صرف کمزوروں کو مارا ہے، دبوچا ہے۔ یوکرین کا بھی یہی کیس ہے۔ اب کمزور ممالک کے لیے فکر مند ہونے کے گھڑیاں شروع ہوئی ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک کے لیے بھی یہ وقت سوچنے اور معیاری پالیسیاں تیار کرنے کا ہے۔ اندرونی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کو ایک طرف ہٹاکر ایسی پالیسیاں تیار کرنے کا ہے جن کے ذریعے ہم رَسّا کشی میں مصروف طاقتوں سے اپنے تعلقات متوازن رکھ سکیں۔ ہم چین، روس، امریکا اور یورپی یونین میں سے کسی کو بھی نظر انداز نہیں کرسکتے۔ بھارت سے بھی تعلقات بہتر ہونے چاہئیں تاکہ خطے میں کشیدگی کم ہو، ترقی اور استحکام کی راہ ہموار ہو۔ یوکرین کی جنگ ہمیں بھی بہت کچھ سکھا رہی ہے۔ ہم نہ سیکھنا چاہیں تو اور بات ہے۔

حصہ