عادلانہ نظام اخلاق

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی گھر میں نماز پڑھے تو ایک نماز کا ثواب ہے، قبیلے کی مسجد میں 25 نمازوں کا ثواب اور جامع مسجد میں 500 نمازوں کا ثواب، مسجد اقصیٰ میں 05 ہزار نمازوں کا ثواب اور میری مسجد میں 50 ہزار نمازوں کا ثواب، اور مسجد حرام میں ایک لاکھ نمازوں کے برابر ثواب ہے۔ (ابن ماجہ)۔
ایسے نظام کو جو عدل کے اصول پر قائم کیا گیا ہو، اخلاقیات کی اصطلاح میں عادلانہ نظامِ اخلاق کہتے ہیں۔ اس سے مراد ایک ایسا نظام ِاجتماعی ہے جو بقدرِ امکان ہر شخص کو اپنی زندگی کی تکمیل اور نصب العین کے حصول میں مدد دے۔ ہر شخص اپنی جگہ پر آزاد و خودمختار، لیکن ایک ہی کل پُرزے کی طرح ایک دوسرے سے وابستہ، ایک دوسرے کا صحیح تمدنی صورت میں محتاج، مگر ہر قسم کی بے جا قیود اور پابندیوں سے محفوظ، اپنے فرائض کی ادائیگی میں پورے شوق و محنت سے مصروف، اور اپنی محنتوں کے نتائج سے کامل طور پر بہرہ مند ہو، اپنی استعداد کے مطابق ترقی کرنے کے لیے ہر شخص کی راہ کھلی ہو، چھوٹے بڑے کی اس میں بے جا تمیز نہ ہو، امیر و غریب اور قوی و ضعیف کا امتیاز اٹھ جائے، ضعیف قوی کا غلام نہ ہو، اور طاقت ور کمزور کو نہ کھا جائے، ایسے نظامِ اجتماعی کا تقاضا یہ ہے کہ جو شخص راہِ عدل سے تجاوز کرے اور اخلاقی فساد کا باعث ہو اُس کا زور توڑ دیا جائے، اُس کی پوری بیخ کنی کی جائے اور ہر بااخلاق و فرض شناس شہری کا فرض ہو کہ اُس کی ناپاک ہستی سے جماعت کو پاک کرکے اجتماعی مفاد کی حفاظت کرے۔
یہی عادلانہ نظام وسعت اختیار کرکے بین الاقوامی عدل قائم کرتا ہے۔ جس طرح اس کا مقصد یہ ہے کہ ایک فرد یا افراد کسی فرد یا جماعت پر مستولی نہ ہونے پائیں، اسی طرح اس کا مقصد یہ بھی ہے کہ ایک جماعت دوسری جماعت پر قابض ہوکر اس کی اخلاقی ترقی کو نہ روک دے۔ بلکہ علم الاخلاق اوّل الذکر کے مقابلے میں مؤخرالذکر کو زیادہ اہمیت دیتا ہے، کیونکہ بین الافرادی فساد کے مقابلے میں بین الاقوامی فساد زیادہ مہلک، خطرناک اور ہمہ گیر ہوتا ہے۔ پس اخلاقی نقطہ نظر سے ایک قوم یا جماعت کی حکومت کسی دوسری قوم یا جماعت پر خواہ کیسی ہی منصفانہ اور مشفقانہ ہو، مگر وہ ایک بدترین اخلاقی مصیبت ہے جس کو دفع کرنا تمام اخلاقی فرائض سے زیادہ اہم قدم ہے۔ عادلانہ نظام کی پہلی شرط یہ ہے کہ وہ قوم کے حسبِ دل خواہ ہو اور ہر قوم اپنے مفاد کو ترقی دینے اور اپنے نصب العین کو حاصل کرنے کے پورے ذرائع استعمال کرنے میں آزاد ہو، اور ظاہر ہے کہ جب ایک دوسری قوم اس پر حاکم ہوگی تو خواہ وہ کتنی ہی نرمی و شفقت سے اس پر حکومت کرے، مگر یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنے مفاد کے مقابلے میں اُس کے مفاد کو ترجیح دے اور اپنے ذرائع کو اُس کے نصب العین کے حصول پر صرف کرے۔ اسی طرح یہ بھی ایک امر واقع ہے کہ ایک قوم یا جماعت جب ایک عرصے تک کسی قوم یا جماعت کی حکومت میں رہتی ہے تو رفتہ رفتہ اس کی اخلاقی ترقی رک کر انحطاط کی جانب مائل ہوجاتی ہے۔ غلامی جو ایک بدترین اخلاقی بیماری ہے اُس کے رگ و پے میں اثر کر جاتی ہے اور اِس کے ساتھ ہی اُس کے اندر سے اعتماد علی النفس، خود داری، بلند حوصلگی جیسی اخلاقی فضیلتیں نکل کر احتیاجِ غیر، دنایت، تسفل اور ایسی ہی دوسری برائیاں پیدا ہوجاتی ہیں جو بجائے خود ایک قوم کے لیے شدید اخلاقی مصیبت ہے۔ ظاہر ہے کہ علم الاخلاق انسانوں کی ایک پوری آبادی کو اس طرح درجہ عزت سے گرتا ہوا نہیں دیکھ سکتا، اور نہ وہ برداشت کرسکتا ہے کہ ایک قوم اخلاقی ترقی سے محروم ہوجائے۔ اسی لیے وہ ایک جماعت پر دوسری جماعت کی حکومت کو دنیا میں سب سے بڑا گناہ قرار دیتا ہے، ایسا گناہ کہ تمام اور ذمائمِ اخلاق کو اس سے کچھ نسبت نہیں، بلکہ درحقیقت اس کے نزدیک یہ تمام اخلاقی گناہوں کی جڑ ہے۔
پس جو جماعتیں اپنی کثرت کی وجہ سے چھوٹی جماعتوں کو، یا چھوٹی جماعتیں اپنی قوت کی وجہ سے بڑی جماعتوں کو غلام بناکر ان کی ترقی و تکمیل کی قابلیتیں سلب کرنے کی کوشش کرتی ہیں، وہ اس قابل نہیں کہ دنیا میں ان کو زندہ رہنے کا حق دیا جائے۔ وہ دنیا میں برائی کو پھیلاتی ہیں، اپنے اغراض و فوائد کے لیے اپنی ہی طرح کے دوسرے انسانوں کو بے جا طریقے پر اپنا دستِ نگر بناتی ہیں، اپنے فوائد پر دوسروں کے فوائد کو قربان کرتی ہیں، دوسروں کی قوتوں اور قابلیتوں کو اپنی اغراض کا غلام بناکر انھیں خود انہی کی محنت و مشفقت کے فوائد سے محروم کرتی ہیں، اور انسانیت کے ایک حصے کو اپنے مقاصد کے لیے ذلت و خواری میں جبراً رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ایسی قومیں تکمیل انسانیت کی راہ میں ایک روک ہیں اور بنی نوع انسانی کے حق میں شیطان سے زیادہ خطرناک، دنیا کے اخلاقی جسم میں ان کی حیثیت پھوڑے اور ناسور کی سی ہے۔ اور ان کے وجود سے دنیا کو پاک کردینا ایک بہترین اخلاقی خدمت ہے۔ ہر زمانے کے مقدس اور پاک انسانوں کی بڑی کوشش یہ رہی ہے کہ اس قسم کے ظالمانہ نظاموں سے انسانی زندگی کو آزاد کردیں۔ اور ہمیشہ وہ لوگ جو عملی اخلاق کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں، ان کا سب سے پہلا فرض یہ رہا ہے کہ اپنی پوری توجہ دنیا سے ظالمانہ نظاموں کو مٹانے پر صرف کریں۔ اخلاقِ عمل کی تکمیل، یا دوسرے الفاظ میں خود انسانیت کی تکمیل صرف اسی صورت میں ہوسکتی ہے کہ دنیا سے تمام ظالمانہ نظام اٹھ جائیں اور ایک قوم پر دوسری قوم کی حکومت کا طریقہ بالکل مٹا دیا جائے۔ کیونکہ یہ بداخلاقیوں کا سرچشمہ ہے، اور جب تک سرچشمہ بند نہیں ہوتا اُس وقت تک بداخلاقی کے سیلاب کو کون روک سکتا ہے؟
(تفہیم احکام القرآن، جلد اوّل)

حصہ