حجاب محض سر پر رکھے جانے والے ڈیڑھ گز کپڑے کا نام نہیں ہے بلکہ اسلام کے نظامِ معاشرت میں حیا اور حجاب ایک مجموعہ احکام کا نام ہے جس میں مرد و زن کے لیے نگاہیں نیچی رکھنے سے لے کر گر کے اندر اور گھر کے باہر ستر اور پردے کی تفصیلات کے ساتھ ساتھ معاشرتی زندگی کے متعلق احکام بھی شامل ہیں۔ یہ اسلام کے نظامِ عفت و عصمت کا نام ہے جو معاشرے کو پایزگی بخشتا ہے‘ عورت کو توقیر عطا کرتا ہے خاندانوں کو مضبوط و مستحکم کرتا ہے اور باہمی اعتماد کی بحالی کے ذریعے محبتوں میں اضافہ کا باعث بنتا ہے۔ اسلام معاشرہ کی پاکیزگی اور خاندان کے تحفظ کے لیے انسان کے باطن کی اصلاح کرتا ہے۔ ہیا اور حجاب جس معاشرے کا عمومی کلچر بن جائے وہاں گویا اسلامی تہذیب کے اثرات نمایاں نظر آتے ہیں۔ حیا ایمان کا بنیادی جز ہے جس معاشرے کی بنیاد حیا اور تقویٰ پر استوار ہوتی ہے وہ معاشرہ بہترین اقدار کا مظہر بن جاتا ہے۔
ہم ایک باحیا تہذیب کے وارث ہیں ہماری تہذیب ہمارا فخر ہے‘ تہذیب سے ثقافت جنم لیتی ہے۔ اسلامی تہذیب وضع قطع اور حلیہ کا نام نہیں ہے۔ یہ لائف اسٹائل ہے‘ یہ عقیدہ نظریہ ہے۔ مغرب کا شکستہ خاندانی نظام و اقدار ہماری تہذیب کی برابری سے قاصر ہے مگر ضرورت ہے کہ خود ہم اپنی تہذیب پر فخر کریں اور اس فخر کو اپنی نسلوں میں منتقل کریں۔ آج مغرب کی تقلید کو اپنانے کی دھن میں ہمارا معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہے۔
قانون ار رویے ایسے بنائے جائیں کہ کوئی اور نور مقدم‘ صائمہ‘ قرۃ العین ظلم کا شکار نہ ہو‘ لہٰذا تہذیبوں کی کشمکش میں مغرب کی کی غالب تہذیب نے عورت کے وجود کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ کھربوں ڈالر کی انڈسٹری اس کے وجود سے وابستہ ہے‘ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرے کی ہئیت کو اسلامی قوانین کے مطابق ڈھالیں اور نبیؐ نے جو حقوق مسلم معاشرے میں رہنے والی عورت کو نہیں بلکہ پورے معاشرے کو دیے ہیں اس کی آگاہی پوری دنیا کی عورتوں دینا ہوگی۔ عورت کو اللہ تعالیٰ نے فطری طور پر شرم و حیا کا پیکر بنایا ہے اسے حجاب کی بیش قیمت تحفے سے نوازا ہے۔ بے حجابی کے جو منفی اثرات معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں اور ہماری نسل کو تباہی و بربادی کی طرف دھکیل رہے ہیں اس سے محفوظ کرنے کا بندوبست کرنا ہوگا کیوں کہ ربِ کائنات نے قرآن کا جو نظام پیش کیا ہے جسے نبیؐ نے مدینے کی اسلامی ریاست میں اس نظام کو نافذ کر کے دکھایا ہمیں اسی نظام کی ضرورت ہے۔