دعوتی تبلیغی جماعتوں کو معاشرے کی خرابیوں کی نشاندہی کرنی چاہیےممتاز عالم دین مفتی منیب الرحمٰن کا اظہار خیال
سوال : علماء کے طبقے سے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اجتہاد کا دروازہ صدیوں سے بند کیا ہوا ہے اس کی وجہ سے امت جمود کا شکار ہے؟
مفتی منیب الرحمٰن:
آپ کو ایک لطیفہ سناتا ہوں ایک جگہ کچھ اہل علم بیٹھے تھے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے پروفیسر نے مجھ سے کہا کہ سعودیہ والوں کو آپ سے بڑا گلہ ہے ان کا مطلب یہ تھا کہ میں میدان میں آکر ان کی حمایت کروں میں نے کہا کہ مجھے اس سے زیادہ گلہ ہے ان سے انہوں نے ایک محدود طبقے کو قریب کرلیا اور باقی جو مسلمان ہیں ان سے تعلق توڑ لیا میں نے کہا کہ آپ بتائیں پاکستان اہل سنہ و الجماعت سے سعودی عرب نے کسی سطح پر کوئی انٹرکشن کیا میں نے ان سے کہا کہ وہ ہم سے مکالمہ کریں ہم تیار ہیں۔ آپ حرمین طیبین کے محافظ و خادم کہلاتے ہیں۔ کسٹوڈین کہلاتیہیں آپ امت کو مجتمع کرنے کی کوئی تدبیر کریں لیکن نہیں کرتے۔ آپ انتشار کو کم کرنے کی کوشش کریں لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں ساری خرابیوں کا مجموعہ ہے۔ حکمران وسیع النظر ہونے چاہیں۔ یہ جو چینلوں پر کہا جارہا ہے کہ اجتہاد کا دروازہ بند کردیا ہے تو ان کی مہربانی ہوگی کہ وہ بتادیں کہاں تالے لگے ہوئے ہیں۔ اجتہاد کا دروازہ کبھی بھی بند نہیں ہوتا۔ اجتہاد کا مطلب تو یہ ہوتا ہے کہ جو مسئلہ یا نئی صورتحال درپیش ہوگئی ہے تو امت کے اہل فکر اور اہل علم اہل نظر ہیں وہ قرآن و سنت کی روشنی میں ان نئے مسائل کے حل نکالیں کبھی کبھی ابتدا میں اختلاف ہوتے ہیں پھر آخر کار ایک نقطے پر مجتمع ہوجاتے ہیں۔ اجتہاد ایک آن گوئنگ پراسس ہے۔ جاری عمل کا نام ہے یہ کبھی بھی بند نہیں ہوسکتا۔ فقہی مسائل میں بھی بند نہیں ہوسکتا‘ نئی تحقیقات ہمارے سامنے آتی ہین اور ہمارے ہاں فقہ میں ان کو حوادث النوازل کہتے ہیں کہ جب نئی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے جس کا حل ہماری قدیم فقہی سرمائے میں نہین ہے جس طرح اعلیٰ عدالتیں کرتی ہیں جن کو ہم عدالتی نظام کہتے ہیں کہ بعض عدالتی نظائر سے راہ نمائی حاصل کرتے ہیں بعض اوقات کوئی راہ نمائی نہ ملے پھر وہ اپنا نیا اجتہاد کرتے ہیں نئی سوچ دیتے ہیں یہی ہماری فقہ میں بھی ہے اجتہاد کوئی توحید پر تو ہونا نہیں ہے اجتہاد تصور نبوت و رسالت پر بھی نہیں ہونا اجتہاد اس پر بھی نہیں ہونا کہ قرآن میں سے کسی کو قبول کرنا ہے کس کو رد کرنا ہے معاذ اللہ یا احادیث میں۔ اجتہاد اس کا نام ہے کہ ہم اپنے پیس مدہ مسائل کا حل کیسے نکالیں۔ اس لیے اجتہاد کا دروازہ بند نہیں کھلا ہے ہاں بعض لوگ یہ چاہتے ہیں کہ خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں۔ کس درجہ ہوئے بے توفیق فقیہاں حرم
یہ ہم سے نہیں ہوسکتا کہ اب یہ صورتحال ہوگئی ہے تو ہم قرآن کو بدل دیں ہم تو قرآن کی تعبیر کریں گے۔تشریح کریں گ ے حدیث کا انتباق کریں گے۔
سوال : دین کا بنیادی تصور دو چیزوں پر ہے تقویٰ اور علم لیکن ہمارے معاشرے میں دونوں چیزوں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں ہے معاشرے کا سکہ رائج الوقت دولت‘ شہرت او رطاق تہے اس کا کیا سبب ہے اور ا س سے نجات کیسے مل سکتی ہے؟
مفتی منیب الرحمٰن: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آثار قیامت کے بارے میں بتایا تھا کہ کس کس طرح کے حالات آئیں گے ان میں سے ایک یہ تھا کہ معاشرے میں کسی کی تکریم ‘ احترام ‘ عزت اس بنیاد پر کی جائے کہ وہ آپ کو کتنا نقصان پہنچاسکتا ہے۔ اس کے شر سے ‘ اس کے فساد سے یا اس کی دہشت سے اس کید اداگیری سے‘ اس کی بدمعاشی سے بچنے کے لیے لوگ عزت کریں تو کیا ہمار امعاشرہ اس دور سے نہیں گزرا۔اس طرح فرمایا کہ گانے بجانے والوں کا آلات لہو و لعب کا دور دورا ہوجائے گا۔ فرمایا شراب نوشی بدکاری عام ہوجائے گی‘ ہمارے ہاں کوئی گانے والا انڈی اکا مرجائے تو ہمارا میڈیا آسمان سر پر اٹھالے گا کبھی ہمارے میڈیا نے صاحب علم کی تکریم کی ‘ کبھی کسی صاح: علم کے اٹھ جانے پر اتنا خراج تحسین پیش کیا‘ مجموعی قومی مزاج میں خیر کا غلبہ نظر نہیں آتا ہونا تو یہ چاہیے کہ صاح: علم اور صاحب تقویٰ کی تکریم ہو ان کو لوگ علم ‘ کردار اور تقوے کی وجہ سے آگے بھیجیں لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ اس سے نجات کی صورت یہ ہے کہ اہل دین متحد ہوں مجتمع ہوں لوگوں کو تعلیم دیں آپس میں وحدت پیدا کریں شاید بتدریج بہتری آجائے۔
سوال : معاشرے میں ایک طرف تو مذہبیت بڑھ رہی ہے دوسری طرف جھوٹ‘ منافقت‘ دھوکا‘ بے ایمانی‘ انسان کی تذلیل‘ لاقانونیت‘ بدکرداری بھی بڑھتی جارہی ہیں ایسا کیوں ہے؟
مفتی منیب الرحمٰن:
اسے آپ یوں تو تعبیر کرسکتے ہیں کہ معاشرے میں مذہبی رجحانات میں اضافہ ہورہا ہے یہ آپ نہیں کہہ سکتے کہ غالب آچکے ہیں آپ مجھے بتائیں کہ پنج وقتہ نماز میں وہ لوگ ہوتے ہیں جو جمعہ میں ہوتے ہیں اور ہر جمعہ وہ لوگ ہوتے ہ یں جو عید میں ہوتے ہیں کیا عید میں بھی سو فیصد لوگ ہوتے ہیں سارے لوگ اگر آجائیں تو مساجد میں جگہ نہ رہے ابھی بھی اصلاح کی بڑی گنجائش موجود ہے۔د وسرا یہ ہے کہ ہماری دعوتی اور تبلیغی جماعتیں ہیں ان کو چند نکات تک محدود ہونے کے بجائے معاشرے کی خرابیوں کی نشاندہی کرنی چاہیے امربالمعروف آسان ہے کہ میں آپ سے کہوں کہ آیئے نماز پڑھیں۔ آپ آگئے تو الحمدللہ‘ ماشاء اللہ۔
فقیرانہ آئے صدا کر چلے میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے۔
لیکن شراب خانے سے پکڑ کر لانا یہ ذرا مشکل کام ہے نہی عن المنکر کو بھی ایڈریس کرنا چاہیے اور جمعہ کے اجتماعات میں بھی منکرات کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے اس کی کمی ہے منکرات والے ذرا طاقتور بھی ہوتے ہیں ان کو چیلنج کرنا ضرور ہے۔
سوال: سوال یہ ہے کہ وہ لوگ جو عبادات میں موجود ہیں نماز‘ روزہ‘ حج وغیرہ کر بھی رہے ہیں ساتھ میں ان برائیوں میں مبتلا ہیں جن کا ذکر آچکا ہے؟
مفتی منیب الرحمٰن:
ہماری فلموں یا ڈراموں میں دکھاتے تھے ابھی چوری کررہا ہے پھر دکھایا کہ مصلح بچھایا اور نماز پڑھ رہا ہے اس سے پوچھا یہ کیا تو اس نے جواب دیا وہ میرا پیشہ ہے یہ میرا فرض ہے اس دوئی نے بھی خراب کیا میں پاکستان چیمبرز آف کامرس کے استقبال رمضان کے پروگرام میں گیا میں نے کہا کہ لوگ طعن کرتے ہیں کہ جتنے ہمارے صنعتکار ہیں اکثریت اچھے لوگ ہیں نمازیں پڑھتے ہیں‘ عمرے کرتے ہیں‘ حج پر جاتے ہیں لیکن جتنے بے حیائی کے اشتہارات ہیں ان ہی کے ہیں رمضان میں بھی ٹی وی پروگراموں کو اسپانسر کریں گے تو یہ نہیں کریں گے کہ مذہبی آگاہی کا پروگرام کرو ہم اس کو اسپانسر کریں گے جس میں ہلہ گلہ ہوگا جس میں اچھل کود ہوگی بے اعتدالی ہوگی اس کو اسپانسر کریں گے یہ عمل تضاد ہے اس عملی تضاد و نفاق سے نکلنا ہوگا۔
فرائیڈے اسپیشل: ہمارے معاشرے میں وعظ اور تلقین کا کام بڑے پیمانے پر ہورہا ہے لاکھوں علما ہر جمعہ میں خطاب کرتے ہیں لیکن ان باتوں کا اثر معاشرے میں نظر نہیں آتا۔ ایک فکر یہ ہے کہ علماء کے الفاظ کی تاثیر ختم ہوگئی ہے جس کی وجہ ان کے قول و فعل میں تضاد ہے؟
مفتی منیب الرحمٰن:
علما میں بھی تضاد نہیں ہونا چاہیے۔ علمائے بنی اسرائیل کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھلا دیتے ہوحالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو۔ ایک تو یہ ہے کہ تضاد سے تاثیر نہیں ہوتی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا تھ اکہ اے اللہ میں اس علم سے پناہ مانگتا ہوں جو نفع نہ دے۔ علم نفع رساں ہونا چاہیے تاثر بھی ہے لوگ آتے ہیں میں نہیں کہتا کہ انقلاب برپا ہوگیا ہے لیکن جب سے آزاد میڈیا آیا ہے پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ ممبر کا ایکسس زیادہ ہی اب الیکٹرونک میڈیا کی ایکسس بڑھ گئی ہے وہ جو خرابیاں پیدا کرتے ہیں ان کی رسائی پوری دنیا تک ہے ممبر سے جو بولے گا ان کی رسائی ان تک ہے جو سامنے بیٹھے گا وہ چند سو ہیں یا چند ہزار ہیں۔ میڈیا غالب طور پر ماڈریشن کا لبرلزم کا ‘ آزادی کا ‘ بے راہ روی کا ‘کا داعی ہے کیونکہ ان چیزوں کے فروغ پانے سے اس کا کاروبار فروغ پاتا ہے میڈیا کے لیے کوئی ضابطہ اخلاق ہونا چاہیے میں میڈیا مالکان سے کہتا ہوں کہ وہ خود ضابطہ اخلاق وضع کریں ان کو بھی ذمے داری قبول کرنی چاہیے۔