شعرو شاعری

294

میر تقی میر
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
کہ میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم
سو اس عہد کو اب وفا کر چلے
شفا اپنی تقدیر ہی میں نہ تھی
کہ مقدور تک تو دوا کر چلے
پڑے ایسے اسباب پایان کار
کہ ناچار یوں جی جلا کر چلے
وہ کیا چیز ہے آہ جس کے لیے
ہر اک چیز سے دل اٹھا کر چلے
کوئی ناامیدانہ کرتے نگاہ
سو تم ہم سے منہ بھی چھپا کر چلے
بہت آرزو تھی گلی کی تری
سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے
دکھائی دیئے یوں کہ بے خود کیا
ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے
جبیں سجدہ کرتے ہی کرتے گئی
حقِ بندگی ہم ادا کر چلے
پرستش کی یاں تک کہ اے بت تجھے
نظر میں سبھوں کی خدا کر چلے
جھڑے پھول جس رنگِ گلبن سے یوں
چمن میں جہاں کے ہم آ کر چلے
نہ دیکھا غمِ دوستاں شکر ہے
ہمیں داغ اپنا دکھا کر چلے
گئی عمر در بند فکر غزل
سو اس فن کو ایسا بڑا کر چلے
کہیں کیا جو پوچھے کوئی ہم سے میرؔ
جہاں میں تم آئے تھے کیا کر چلے

علامہ اقبال
عقابی شان سے جھپٹے تھے جو بے بال و پر نکلے
ستارے شام کے خونِ شفق میں ڈوب کر نکلے
ہوئے مدفون دریا زیرِ دریا تیرنے والے
طمانچے موج کے کھاتے تھے جو بن کر گہر نکلے
غبارِ رہ گزر ہیں کیمیا پر ناز تھا جن کو
جبینیں خاک پر رکھتے تھے جو اکسیر گر نکلے
ہمارا نرم رو قاصد پیامِ زندگی لایا
خبر دیتی تھیں جن کو بجلیاں وہ بے خبر نکلے
حرم رسوا ہوا پیر حرم کی کم نگاہی سے
جوانانِ تتاری کس قدر صاحب نظر نکلے
زمیں سے نوریان آسماں پرواز کہتے تھے
یہ خاکی زندہ تر پایندہ تر تابندہ تر نکلے
جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے

نظیر اکبرآبادی
دور سے آئے تھے ساقی سن کے مے خانے کو ہم
بس ترستے ہی چلے افسوس پیمانے کو ہم
مے بھی ہے مینا بھی ہے ساغر بھی ہے ساقی نہیں
دل میں آتا ہے لگا دیں آگ مے خانے کو ہم
کیوں نہیں لیتا ہماری تو خبر اے بے خبر
کیا ترے عاشق ہوئے تھے درد و غم کھانے کو ہم
ہم کو پھنسنا تھا قفس میں کیا گلہ صیاد کا
بس ترستے ہی رہے ہیں آب اور دانے کو ہم
طاقِ ابرو میں صنم کے کیا خدائی رہ گئی
اب تو پوجیں گے اسی کافر کے بت خانے کو ہم
باغ میں لگتا نہیں صحرا سے گھبراتا ہے دل
اب کہاں لے جا کے بیٹھیں ایسے دیوانے کو ہم
کیا ہوئی تقصیر ہم سے تو بتا دے اے نظیرؔ
تاکہ شادی مرگ سمجھیں ایسے مر جانے کو ہم

امام بخش ناسخ
دل میں پوشیدہ تپِ عشق بتاں رکھتے ہیں
آگ ہم سنگ کی مانند نہاں رکھتے ہیں
تازگی ہے سخن کہنہ میں یہ بعدِ وفات
لوگ اکثر مرے جینے کا گماں رکھتے ہیں
بھا گئی کون سی وہ بات بتوں کی ورنہ
نہ کمر رکھتے ہیں کافر نہ دہاں رکھتے ہیں
مثل پروانہ نہیں کچھ زر و مال اپنے پاس
ہم فقط تم پہ فدا کرنے کو جاں رکھتے ہیں
محفلِ یار میں کچھ بات نہ نکلی منہ سے
کہنے کو شمع کی مانند زباں رکھتے ہیں
ہو گیا زرد پڑی جس کی حسینوں پہ نظر
یہ عجب گل ہیں کہ تاثیرِ خزاں رکھتے ہیں
عوضِ ملکِ جہاں ملکِ سخن ہے ناسخؔ
گو نہیں حکم رواں طبعِ رواں رکھتے ہیں

ناصر کاظمی
دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی
کچھ تو نازک مزاج ہیں ہم بھی
اور یہ چوٹ بھی نئی ہے ابھی
شور برپا ہے خانۂ دل میں
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی
بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی
تو شریکِ سخن نہیں ہے تو کیا
ہم سخن تیری خامشی ہے ابھی
یاد کے بے نشاں جزیروں سے
تیری آواز آ رہی ہے ابھی
شہر کی بے چراغ گلیوں میں
زندگی تجھ کو ڈھونڈتی ہے ابھی
سو گئے لوگ اس حویلی کے
ایک کھڑکی مگر کھلی ہے ابھی
تم تو یارو ابھی سے اٹھ بیٹھے
شہر میں رات جاگتی ہے ابھی
وقت اچھا بھی آئے گا ناصرؔ
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی

نظام رامپوری
انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اٹھا کے ہاتھ
دیکھا جو مجھ کو چھوڑ دیئے مسکرا کے ہاتھ
بے ساختہ نگاہیں جو آپس میں مل گئیں
کیا منہ پر اس نے رکھ لیے آنکھیں چرا کے ہاتھ
یہ بھی نیا ستم ہے حنا تو لگائیں غیر
اور اس کی داد چاہیں وہ مجھ کو دکھا کے ہاتھ
بے اختیار ہو کے جو میں پاؤں پر گرا
ٹھوڑی کے نیچے اس نے دھرا مسکرا کے ہاتھ
گر دل کو بس میں پائیں تو ناصح تری سنیں
اپنی تو مرگ و زیست ہے اس بے وفا کے ہاتھ
قاصد ترے بیاں سے دل ایسا ٹھہر گیا
گویا کسی نے رکھ دیا سینے پہ آ کے ہاتھ
اے دل کچھ اور بات کی رغبت نہ دے مجھے
سننی پڑیں گی سیکڑوں اس کو لگا کے ہاتھ
وہ کچھ کسی کا کہہ کے ستانا سدا مجھے
وہ کھینچ لینا پردے سے اپنا دکھا کے ہاتھ
دیکھا جو کچھ رکا مجھے تو کس تپاک سے
گردن میں میری ڈال دیئے آپ آ کے ہاتھ
پھر کیوں نہ چاک ہو جو ہیں زور آزمائیاں
باندھوں گا پھر دوپٹہ سے اس بے خطا کے ہاتھ
کوچے سے تیرے اٹھیں تو پھر جائیں ہم کہاں
بیٹھے ہیں یاں تو دونوں جہاں سے اٹھا کے ہاتھ
پہچانا پھر تو کیا ہی ندامت ہوئی انہیں
پنڈت سمجھ کے مجھ کو اور اپنا دکھا کے ہاتھ
دینا وہ اس کا ساغر مے یاد ہے نظامؔ
منہ پھیر کر ادھر کو ادھر کو بڑھا کے ہاتھ

نوشین گیلانی
گریز شب سے سحر سے کلام رکھتے تھے
کبھی وہ دن تھے کہ زلفوں میں شام رکھتے تھے
تمھارے ہاتھ لگے ہیں تو جو کرو سو کرو
وگرنہ تم سے تو ہم سو غلام رکھتے تھے
ہمیں بھی گھیر لیا گھر کے زعم نے تو کھلا
کچھ اور لوگ بھی اس میں کلام رکھتے تھے
یہ اور بات ہے ہمیں دوستی نہ راس آئی
ہوا تھی ساتھ تو خوشبو مقام رکھتے تھے
نجانے کون سی رت سے بچھڑ گئے وہ لوگ
جو اپنے دل میں بہت مقام رکھتے تھے
وہ آتو جاتا کبھی ہم تو اس کے رستوں پر
دیئے تو جلائے ہوئے صبح و شام رکھتے تھے

ولی محمد ولی
جسے عشق کا تیر کاری لگے
اسے زندگی کیوں نہ بھاری لگے
نہ چھوڑے محبت دم مرگ تک
جسے یار جانی سوں یاری لگے
نہ ہووے اسے جگ میں ہرگز قرار
جسے عشق کی بے قراری لگے
ہر اک وقت مجھ عاشق پاک کوں
پیارے تری بات پیاری لگے
ولیؔ کوں کہے تو اگر یک بچن
رقیباں کے دل میں کٹاری لگے

یگانہ چنگیزی
مجھے دل کی خطا پر یاسؔ شرمانا نہیں آتا
پرایا جرم اپنے نام لکھوانا نہیں آتا
مجھے اے ناخدا آخر کسی کو منہ دکھانا ہے
بہانہ کر کے تنہا پار اتر جانا نہیں آتا
مصیبت کا پہاڑ آخر کسی دن کٹ ہی جائے گا
مجھے سر مار کر تیشے سے مر جانا نہیں آتا
دل بے حوصلہ ہے اک ذرا سی ٹھیس کا مہماں
وہ آنسو کیا پیے گا جس کو غم کھانا نہیں آتا
سراپا راز ہوں میں کیا بتاؤں کون ہوں کیا ہوں
سمجھتا ہوں مگر دنیا کو سمجھانا نہیں آتا
کیفی اعظمی
لائی پھر اک لغزش مستانہ تیرے شہر میں
پھر بنیں گی مسجدیں مے خانہ تیرے شہر میں
آج پھر ٹوٹیں گی تیرے گھر کی نازک کھڑکیاں
آج پھر دیکھا گیا دیوانہ تیرے شہر میں
جرم ہے تیری گلی سے سر جھکا کر لوٹنا
کفر ہے پتھراؤ سے گھبرانا تیرے شہر میں
شاہ نامے لکھے ہیں کھنڈرات کی ہر اینٹ پر
ہر جگہ ہے دفن اک افسانہ تیرے شہر میں
کچھ کنیزیں جو حریم ناز میں ہیں باریاب
مانگتی ہیں جان و دل نذرانہ تیرے شہر میں
ننگی سڑکوں پر بھٹک کر دیکھ جب مرتی ہے رات
رینگتا ہے ہر طرف ویرانہ تیرے شہر میں

کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر
ہر لحظہ مکیں دل میں تری یاد رہے گی
بستی یہ اجڑنے پہ بھی آباد رہے گی
ہے ہستیٔ عاشق کا بس اتنا ہی فسانہ
برباد تھی برباد ہے برباد رہے گی
ہے عشق وہ نعمت جو خریدی نہیں جاتی
یہ شے ہے خداداد خداداد رہے گی
وہ آئے بھی تو ضبط سے لب ہل نہ سکیں گے
فریاد مری تشنۂ فریاد رہے گی
یہ حسن ستم کوش ستم کوش ہے کب تک
کب تک یہ نظر بانیٔ بیداد رہے گی
وہ زلف پریشاں کا سنوارے نہ سنورنا
وہ ان کے بگڑنے کی ادا یاد رہے گی

سکندر علی وجد
خوش جمالوں کی یاد آتی ہے
بے مثالوں کی یاد آتی ہے
باعث رشک مہر و ماہ تھے جو
ان ہلالوں کی یاد آتی ہے
جن کی آنکھوں میں تھا سرور غزل
ان غزالوں کی یاد آتی ہے
سادگی لا جواب ہے جن کی
ان سوالوں کی یاد آتی ہے

سلام ؔمچھلی شہری
ہوا زمانے کی ساقی بدل تو سکتی ہے
حیات ساغر رنگیں میں ڈھل تو سکتی ہے
بس اک لطیف تبسم بس اک حسین نظر
مریض دل کی یہ حالت سنبھل تو سکتی ہے
جہاں سے چھوڑ رہے ہو مجھے اندھیرے میں
وہیں سے راہ محبت نکل تو سکتی ہے
پھر اپنے غنچۂ زخم جگر کا کیا ہوگا
نسیم صبح مری سمت چل تو سکتی ہے
تری نگاہ کرم کی قسم ہے اب بھی مجھے
یہی یقین کہ دنیا بدل تو سکتی ہے
سلامؔ جام و سبو کی یہ شاعری معلوم
وگرنہ اپنی طبیعت بہل تو سکتی ہے

مائل خیرآبادی
دنیا میں ہم جو اپنی حقیقت کو پا گئے
تو زندگی کے راز سمجھ میں سب آ گئے
یہ سوچتے ہیں صرف یہی سوچتے ہیں اب
ہم تیرے در پہ لائے گئے ہیں کہ آ گئے
کلیوں کو کھل کے ہنسنے کا انداز آ گیا
گلشن میں آ کے تم جو ذرا مسکرا گئے
اپنا مقام بھی متعین نہ کر سکے
وہ کیا کہیں گے دہر میں کیا آئے کیا گئے
زیبا تھا ان کو دعوئے تعمیر گلستاں
جو بجلیوں میں رہ کے نشیمن بنا گئے
اک ہم ہیں راہ ڈھونڈ رہے ہیں ادھر ادھر
اک وہ ہیں خوش نصیب جو منزل کو پا گئے
راہ وفا میں آئے ہیں وہ مرحلے جہاں
مائلؔ بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگا گئے

ہاشم علی خاں دلازاک
نگاہیں جھک گئیں آیا شباب آہستہ آہستہ
پڑا آنکھوں پہ پلکوں کا حجاب آہستہ آہستہ
سوالی بن کے جب مشتاق نظریں پڑ گئیں ان پر
نگاہوں نے دیا ان کی جواب آہستہ آہستہ
کبھی اشکوں کے طوفاں میں کبھی مژگاں سے داماں میں
لہو کا دل بہا یوں بے حساب آہستہ آہستہ
اسی امید پر تو جی رہے ہیں ہجر کے مارے
کبھی تو رخ سے اٹھے گی نقاب آہستہ آہستہ
خیالوں سے رخ زیبا جو اکثر دیکھ لیتا ہے
مٹا جاتا ہے وہ بھی کیف خواب آہستہ آہستہ
رخ زیبا پہ لہریں لیتی ہیں کچھ اس طرح زلفیں
کہ جیسے چاند پر چھائے سحاب آہستہ آہستہ
متاع زندگی سمجھا تھا سوز غم کو میں ہاشمؔ
مٹا جانا ہے وہ بھی اضطراب آہستہ آہستہ

حصہ