گھریلو جھگڑے کی وجہ سے خودکشی کرنے والی لیڈی سب انسپکٹر میری روز کی آخری تحریر جو اُس نے اپنے کمرے کی ڈریسنگ ٹیبل کے شیشہ پر لکھی
اپنی ماں سے سوری کرتے ہوئے اپنی بیٹیوں کی شادی کا کسی ایسے انسان سے کرنے کے وصیت کی جو اُن کی ذمے داری اُٹھا سکے۔
میری روز تھانہ اے ڈویژن سٹی میں قائم ٹرانس جینڈر سیل کی انچارج تھی جوسٹی ڈویژن میں خواتین کے ساتھ پیش آنے والے جرائم‘ زیادتی اغوا‘ تشدد‘ ہراسمنٹ وغیرہ کے مقدمات کو دیکھتی تھیں۔ میری روز ایک انتہائی قابل پولیس افسر تھی۔
سوال یہ ہے کہ کیا خودکشی کرنے کے بجائے یہ نہیں ہو سکتا کہ اپنے راستے جدا کرلیے جائیں؟ زیادہ تر خواتین اس لیے طلاق یا خلع کا فیصلہ نہیں کرتیں اور ظلم کی چکی میں پستی رہتی ہیں انہیں میکے سے سپورٹ نہیں ملتی تو وہ بھی آخری حد تک شوہر اور سسرال والوں کا ظلم و ستم برداشت کرتی رہتی ہیں یہاں تک کہ سسرال والے اور شوہر خود ہی گھر سے نکال دیتے ہیں۔ کچھ خواتین طلاق یا خلع کی صورت میں لوگوں کی طعنے اور طنز سہنے کی طاقت نہیں رکھتیں اور وہ ان سب باتوں سے بچنے کے لیے شوہر کا ذہنی و جسمانی تشدد برداشت کرتی ہیں۔
طلاق کواب بھی ہمارے معاشرے میں ’’سماجی داغ‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ مانا کہ طلاق اسلام میں جائز ہے مگر یہ ایک انتہائی ناپسندیدہ فعل ہے۔
ہمارے معاشرے میں زیادہ تر ہندوانہ کلچر کا اثر ہے جس میں دوسری شادی کرنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف ایک زوجہ کنواری تھی جب کہ باقی ازواج مطہرات بیوہ یا طلاق یافتہ تھیں بلکہ بعض تو دو دفعہ طلاق یافتہ اور بعض دو دفعہ بیوہ بھی تھیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُم المومنین حضرت زینبؓ سے نکاح فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کرانے کو اپنی طرف منسوب فرمایا۔ واضح رہے طلاق یافتہ یا خلع یافتہ خاتون کو معیوب سمجھنا ہندوانہ سماج کی رسم ہے جب کہ اسلام میں مطلقہ عورت کی دوسری شادی کرنا معیوب نہیں بلکہ مستحسن فعل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلقہ اور بیوہ سے نکاح کر کے اس نظریے کو جڑ سے ختم کردیا کہ عورت کے لیے مطلقہ ہونا کوئی عیب کی بات ہے۔ مطلقہ خواتین سے نکاح کرنا پاکیزہ فعل ہے‘ نکاح کے ذریعے نسب بھی پاکیزہ اور محفوظ رہتے ہیں اسی لیے اسلام نے اسے نیکی کا درجہ عطا کیا ہے۔
شریعت کے مطابق ایسی خواتین کو دوسری شادی ضرور کرنی چاہیے‘ بیوہ طلاق یافتہ یا فلاح یافتہ خواتین سے شادی کرنا زیادہ افضل ہے کیوں کہ یہ عورت کا تحفظ ہے اور ایسی خواتین کو معیوب سمجھنا ہمارے معاشرے کی نحوست ہے۔ کسی بھی عورت کے لیے دوسری شادی کر کے اپنی زندگی کا نیا آغاز بہت مشکل ہوتا ہے۔ یہ کوئی نئی بحث نہیں ہے۔ لیکن جب بھی کوئی عورت دوسری شادی کرتی ہے اور زندگی کو پھر سے جینے کی کوشش کرتی ہے تو ہمارے معاشرے کا دہرا معیار نظر آتا ہے۔
بے شک آپ اپنی زندگی میں خوش ہوں، آپ کامیاب ہیں، آپ بہت سی ایسی چیزیں کر رہی ہیں جو دوسرے نہیں کر پاتے لیکن معاشرہ آپ کو بار بار یہ بات یاد کراتا ہے تو آپ خود بھی محسوس کرنے لگتے ہیں کہ شاید مجھ میں کوئی کمی رہ گئی ہے اور لوگ یہی چاہتے ہیں کہ آپ اس کمی کو محسوس کریں‘ لوگ آپ پر ترس کھاتے ہیں کہ آپ کو طلاق ہو گئی۔ زیادہ تر خواتین طلاق کے بعد سمجھتی ہیں کہ اب بس سب ختم ہو گیا۔ لیکن ایسا نہیں ہے‘ ناکام شادی کا مطلب ناکام زندگی نہیں۔
ہم نے ایسی ہی چند باہمت خواتین سے کچھ سوالات کیے جو اپنی زندگی کو پھرسے جینے کی جستجو میں مصروف ہیں۔
طلاق کے بعد خود کو کیسے سنبھالا؟
کیسے معاشرتی رویوں کا سامنا کرنا پڑا؟
شادی شدہ زندگی میں وہ مقام کب آیا جب آپ نے فیصلہ کیا بس اب بہت ہوگیا اس سے زیادہ اور نہیں؟
٭کن رشتوں نے سہارا دیا کس نے چھوڑ دیا؟
٭پہلے اور موجودہ زندگی میں کون سی زیادہ بہتر لگی؟
٭اپنے فیصلے پر کبھی پچھتاوا ہوا؟
٭وہ کون سے مسائل ہیں جو کسی عورت کو یہ کرنے سے روکتے ہیں؟
٭بچوں پر کیا اثرارت مرتب ہوئے مثبت یا منفی؟
٭ہمارا معاشرہ عورت کی دوسری شادی کو معیوب کیوں سمجھتا ہے جب کہ اسلام میں اس کی کوئی ممانعت نہیں؟
٭کیا کامیابی کے لیے عورت کا شادی شدہ ہونا ضروری ہے، غیر شادی شدہ یا طلاق یافتہ خواتین کو کس قسم کے معاشرتی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کیا سنگل خواتین خود کو کامیاب سمجھتی ہیں یا نہیں؟