بزمِ نگار ادب پاکستان کے زیر اہتمام کینیڈا سے تشریف لائی ہوئی شاعرہ نزہت اظہر کے اعزاز میں تقریب پزیرائی اور مشاعرے کا اہتمام کیا گیا اس تقریب کے دو حصے تھے پہلی نشست میں نزہت اظہر کی شخصیت و فن پر گفتگو کی گئی جس کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے کی۔ مہمانانِ خصوصی میں ڈاکٹر فاروق ستار اور ڈاکٹر شاہد ضمیر شامل تھے۔ تلاوتِ کلام مجید کی سعادت شاہدہ عروج نے حاصل کی جب کہ مہوش نواز نے نعت رسولؐ پیش کی۔ تقریب میں خالد میر نے کہا کہ نزہت اظہر غزل اور نظم کی شاعرہ ہیں ان کے کلام میںغنائیت اور نزاکتِ کلام موجود ہے‘ یہ چھوٹی بحروں میں بھی اچھے اشعار کہہ رہی ہیں۔ ڈاکٹر شاہد ضمیر نے کہاکہ نزہت اظہر کے اشعار میں ہمارے معاشرے کے شب و روز نمایاں ہیں۔ انہوں نے زندگی کے مختلف ادوار کو ہمارے سامنے رکھا۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ مشاعرے ہماری تہذیب کا حصہ ہیں اب مشاعروں میں کمی ضرور آئی ہے لیکن ابھی تک ادب سے لوگ جڑے ہوئے ہیں۔ سخن فہمی اور سخن شناسی کا دیوالیہ نہیں ہوا ہے۔ ڈاکٹر شاداب احسانی نے کہا کہ اردو مرکزی زبان ہے جو پورے پاکستان میں رابطے کی زبان بھی ہے اس کے خلاف جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب کے علم میں ہے لیکن ہم پاکستانی بیانیے سے روگردانی کریں گے تو ہم ترقی نہیں کرسکیں گے‘ ہمیں اپنی شناخت نہیں کھونی ہے۔ گلنار آفرین نے کہا کہ نزہت اظہر ایک سنجیدہ مزاج خاتون ہیں یہ کینیڈا میں ادبی انجمن کے تلے اردو ادب کی پروموٹر بھی ہیں۔ نزہت اظہر نے کہا کہ وہ بزمِ نگار ادب کی ممنون و شکر گزار ہیں کہ انہوں نے میرے لیے ایسی تقریب کا اہتمام کیا۔ میں 24 برس سے کینیڈا میں مقیم ہوں لیکن میری رگوں میں پاکستانی ثقافت اور شاعری رواں دواں ہے۔ سخاوت علی نادر نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ میں اپنی ناگزیر مصروفیات کی وجہ سے کچھ عرصے مشاعرے نہیں کرا سکا تھا اب ان شاء اللہ ہم باقاعدگی سے ہر ماہ پروگرام کریں گے۔ ہماری تنظیم قلم کاروں کی پزیرائی کے لیے مصروف عمل ہے۔ وسیم احسن نے کلماتِ تشکر ادا کیے۔ اس پروگرام کے بعد فراست رضوی اور گلنار آفرین کی صدارت میں مشاعرہ ہوا جس میں پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی مہمان خصوصی تھے جب کہ اختر سعیدی‘ اقبال خاور‘ فیاض علی خان اور نزہت اظہر مہمانان اعزازی تھیں۔ نظامت نسیم شیخ نے کی۔ اس موقع پر فراست رضوی‘ گلنار آفرین‘ ڈاکٹر شاداب احسانی‘ اختر سعیدی‘ اقبال خاور‘ فیاض علی خان‘ نزہت اظہر‘ سلیم فوز‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ نسیم شیخ‘ سحر تاب رومانی‘ وقار زیدی‘ سخاوت علی نادر‘ خالد میر‘ ضیا حیدر زیدی‘ شائستہ سحر‘ کاشف ہاشمی‘ شاہدہ عروج‘ سلمیٰ رضا سلمیٰ‘ رفیق مغل‘ صدف اظہار‘ شائق شہاب‘ کشور عدیل جعفری‘ وسیم احسن اور تاجور سلطانہ نے اپنا کلام نذرِ سامعین کیا۔ مشاعرے کے صدر فراست رضوی نے خطبۂ صدارت میں کہا کہ ہر زمانے میں شاعری کا لب و لہجہ بدلتا رہتا ہے جو شعرائے کرام حقائق نظر انداز نہیں کرتے ان کی شاعری زندہ رہتی ہے۔ ہم ظلم کے خلاف بات کریں اور مظلوم کی دادرسی کریں کہ یہ شاعری کا غیر تحریر شدہ منشور ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ’’مزاحمتی ادب‘‘ ہر زمانے میں کامیابی سے سفر کرتا ہے۔