حالیہ تاریخ کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ جتنی بھی بڑی جنگیں ہوئی ہیں اُن کے پیچھے امریکا اور یورپی ممالک ہی کا ہاتھ رہا ہے۔ امریکا نے اپنی طاقت میں اضافے کے لیے بہت کچھ کیا ہے۔ وہ خود ہی جنگ پسند ذہنیت کا حامل نہیں رہا بلکہ دوسروں کو بھی جنگ پر اُکساتا رہا ہے۔ دو عظیم جنگیں اصلاً طاقت میں اضافے کی امریکا اور یورپ کی بڑھتی ہوئی بھوک ہی کا نتیجہ تھیں۔
ایک صدی کے دوران حالات بہت بدل گئے ہیں۔ فطری علوم و فنون میں غیر معمولی، بلکہ عقل کو دنگ کردینے والی پیش رفت نے آج کی دنیا کو کچھ کا کچھ بنادیا ہے۔ بڑی طاقتوں کے درمیان رسّا کشی بھی بڑھ گئی ہے۔ بڑی طاقتوں کے کھیل میں نتائج و عواقب چھوٹے اور کمزور ممالک کو جھیلنا پڑتے ہیں۔
دنیا کو جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا۔ روس اور یوکرین کے درمیان سرد جنگ ایک مدت سے چل رہی تھی۔ ایک دنیا تھی جسے یہ خدشہ لاحق تھا کہ روس کہیں یوکرین پر حملہ نہ کر بیٹھے۔ اور یہی ہوا۔ ایسا ہونا ہی تھا۔ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے یوکرین کے خلاف محض جنگ نہیں چھیڑی بلکہ تمام پڑوسی ممالک کو انتباہ بھی کیا کہ اگر کسی نے بیچ میں آنے کی کوشش کی تو اُسے بھی نہیں بخشا جائے گا۔ روس ایٹمی قوت ہے۔ ایٹمی قوت کی دھمکی کو بھلا کیونکر نظر انداز کیا جاسکتا تھا۔ معاملات جب بگڑے تو ایسے بگڑے کہ کسی کی کوشش سے درست نہ ہوسکے۔ امریکا اور یورپ کو بھی محض تماشائی کا کردار ادا کرنا پڑا ہے۔ بہت سوں کو توقع تھی کہ روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو امریکا اور یورپ مل کر یوکرین کا دفاع کریں گے مگر دونوں نے عسکری امداد کے حوالے سے چُپ سادھ لی۔ معاہدۂ شمالی بحرِ اوقیانوس کی تنظیم نیٹو کی توسیع سے متعلق کوششوں پر روس جُزبُز تھا۔ اُس نے کئی بار خبردار بھی کیا کہ اگر نیٹو کی توسیع کا عمل روکا نہ گیا اور مشرقی یورپ کے ممالک کو نیٹو کا رکن بنانے کا سلسلہ جاری رہا تو وہ خاموش نہیں بیٹھے گا اور اپنے دفاع میں کچھ بھی کر گزرے گا۔ اس انتباہ کو منہ کی فائرنگ سمجھ لیا گیا تھا۔
روس کو یوکرین پر حملہ کرنا ہی تھا۔ اِس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ مغرب طاقتوں نے مل کر نیٹو کی توسیع کے نام پر روس کو گھیرنے کی کوششیں شروع کردی تھیں۔ سوویت یونین کی تحلیل سے سرد جنگ ختم ہوگئی۔ سوویت یونین کی تحلیل کے نتیجے میں وہ تمام ممالک آزاد ہوئے جو سوویت یونین کی تشکیل سے قبل خود مختار تھے۔ کہا جانے لگا کہ روس اب کمزور پڑگیا ہے کیونکہ وہ سوویت یونین میں شامل کی جانے والی ریاستوں کی بنیاد پر مضبوط تھا۔ ولادیمیر پوٹن نے کہا کہ ایسا نہیں ہے، روس آج بھی مضبوط ہے۔ اور پھر انہوں نے روس کا استحکام ثابت کرنے کی ذہنیت کے ساتھ کام کرنا شروع کردیا۔ یوکرین پر لشکر کشی اس بات کو ثابت کرنے کے لیے ہی ہے کہ روس اب اپنی طاقت کو منوانے کی سمت چل پڑا ہے۔ صدر پوٹن نے دنیا کو بتادیا ہے کہ روس کو گھیرنے کی کوئی بھی کوشش برداشت نہیں کی جائے گی۔ اور یہ بھی کہ وہ کسی سے خوفزدہ نہیں ہوں گے۔ خوفزدہ کیا ہونا ہے؟ یوکرین پر روسی لشکر کشی کے بعد سے اب تک امریکا اور یورپ نے جو طرزِ فکر و عمل اختیار کیا ہے وہ ثابت کر رہا ہے کہ اُن میں روس سے ٹکرانے کی ہمت نہیں۔ ویسے بھی صدر پوٹن نے خبردار کردیا تھا کہ کوئی بیچ میں آیا تو ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا جائے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ روس جیسا بڑا ملک یوکرین جیسے چھوٹے ملک پر لشکر کشی کی منزل تک کیسے پہنچا۔ یہ فیصلہ کیوں کرنا پڑا؟ بسا اوقات کسی بھی طاقتور ملک کو کسی کمزور ملک پر حملے کے لیے مجبور ہونا پڑتا ہے۔ ایسا اُس وقت ہوتا ہے جب اُس بڑے ملک کا کوئی بڑا حریف چند چھوٹے ممالک کے ساتھ مل کر اُسے گھیرنے کی کوشش کرے گا۔ مثلاً بھارتی قیادت اہلِ وطن کو ڈراتی آئی ہے کہ چین نے پاکستان، بنگلا دیش، سری لنکا، بھوٹان، نیپال، میانمار وغیرہ کے ساتھ مل کر بھارت کو گھیرنے کی کوشش کی تو بھارت کو بھی کسی چھوٹے ملک پر حملے کے لیے مجبور ہونا پڑے گا۔ یہ گویا ابھی ذہن تیار کرنے والی بات ہوئی۔ خیر، امریکا اور یورپ نے مل کر روس کو جنگ کی طرف دھکیلا ہے۔ نیٹو کی توسیع کے نام پر غیر معمولی نوعیت کے فوجی اڈے روسی سرحد تک لانے کی کوشش نے روسی قیادت کو مشتعل کردیا۔ یہ بالکل فطری امر تھا۔ صدر پوٹن خبردار کرتے آرہے تھے کہ نیٹو کی توسیع کے نام پر روس کو گھیرنے کی کوشش نہ کی جائے اور اُس کی معیشت کے لیے الجھنیں پیدا کرنے کی بھی کوشش نہ کی جائے۔ اس انتباہ کو اہمیت نہیں دی گئی۔ امریکا اور یورپ یہ سمجھ بیٹھے کہ یہ محض منہ کے فائر ہیں، عملی طور پر اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ روسی صدر کے انتباہ کو سنجیدگی سے نہ لینے کا نتیجہ بھی اب ہم دیکھ رہے ہیں۔
روسی قیادت کو اس بات کا شکوہ بھی رہا ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد آزاد ہونے والی وسطِ ایشیا کی ریاستوں کو اپنے کیمپ میں لانے کے لیے امریکا اور یورپ نے بھرپور کوششیں کی ہیں۔ یہ گویا علاقے میں سرد جنگ کی سی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ وسطِ ایشیا کی مسلم ریاستوں کو بھی امریکا نے اپنے کیمپ میں لانے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔ مشرقی یورپ کی ریاستیں روس اور مغرب کی کشمکش کی چکی میں پس رہی ہیں۔ لتھوانیا، لِٹویا اور ایسٹونیا کی پوزیشن بھی مشکلات سے گِھری ہوئی ہے۔ جارجیا بھی پریشان رہا ہے۔ ایسے میں یوکرین کو نیٹو میں شامل کرنے کی باتیں کرکے وہاں اپنے امریکا و یورپ کے فوجی اڈے قائم کرنے کی کوشش نے پورے خطے کی سلامتی کو داؤ پر لگادیا ہے۔ امریکا اور یورپ کو اپنی طاقت میں اضافے کی پڑی ہے۔ وہ اس کے لیے کچھ بھی کرنے سے نہیں چُوک رہے۔ پہلے مشرقِ وسطٰی کو تاراج کیا۔ جنوبی امریکا اور جنوب مشرقی ایشیا کی متعدد ریاستوں کا بیڑا غرق کرنے کے بعد اب امریکا اور یورپ مل کر یوریشیائی خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔ سرد جنگ کے زمانے میں روس سے جڑے ہوئے ممالک (ہنگری، پولینڈ، بلغاریہ، رومانیہ، چیک جمہوریہ، لٹویا، ایسٹونیا، لتھوانیا اور سلو واکیہ جیسے ممالک اب نیٹو کا حصہ ہیں۔ نیٹو میں شمولیت کی بنیاد پر یہ بھی طے پایا کہ اگر کوئی ایسی ویسی صورتِ حال پیدا ہو تو اِن ممالک کی حفاظت کے لیے نیٹو کے فوجی دستے میدان میں اتریں گے۔ یہ گویا نیٹو کو یوریشیائی خطے میں مداخلت کی دعوت دینے کا معاملہ تھا۔
اسٹریٹجک معاملات میں رونما ہونے والی کمزوری نے روسی قیادت کو مجبور کیا کہ آگے بڑھ کر کچھ ایسا کرے جس کی بنیاد پر امریکا اور یورپ کی حوصلہ شکنی ہو۔ 2014 میں یوکرین میں سیاسی خرابی پیدا ہوئی جس کے نتیجے میں روس نواز حکومت کے سربراہ وکٹر یاکووچ کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ ہنگاموں میں 130 شہری مارے گئے۔ وکٹر یاکووچ نے بھاگ کر روس میں پناہ لی۔ تب سے اب تک یوکرین میں مغرب نواز حکومت رہی ہے۔ 2019 میں یوکرین کے آئین میں ترمیم کے ذریعے ملک کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے یورپی یونین اور نیٹو کی رکنیت یقینی بنانے کی کوششوں کی منظوری دی گئی۔ یہ روسی قیادت کے لیے خطرے کی گھنٹی تھی۔ 2021 سے روسی فوج نے یوکرین کی سرحد پر اپنی طاقت بڑھانے کا عمل شروع کیا۔ صورتِ حال اُس وقت زیادہ بگڑی جب امریکا اس معاملے میں کود پڑا اور یوکرین کی فوج کو ہتھیار فراہم کرنا شروع کردیا۔ وقت نے ثابت کردیا کہ یہ محض دکھاوا تھا۔ امریکا نے یوکرین کی قیادت کو سبز باغ دکھائے۔ جب روسی فوج نے حملہ کیا تو امریکا نے کونا پکڑلیا۔ یوکرین کو بچانے کے لیے نیٹو کی فوج آگے بڑھی نہ امریکا کی۔ امریکا اور یورپ کو اچھی طرح اندازہ تھا اور ہے کہ یوکرین کے دفاع کے لیے آگے بڑھنے کا مطلب ہے جنگ کو مغربی یورپ کی طرف بڑھانے کی دعوت دینا۔ روسی قیادت اس وقت کسی بھی نوعیت کا اشتعال برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں۔ ایسے میں امریکا اور یورپی یونین اپنی فوج یوکرین میں اتارنے کا فیصلہ کرلیں تو تیسری عالمی جنگ شروع ہوئی سمجھیے۔
یوکرین میں جاری لڑائی نے ایک دنیا کو عذاب سے دوچار کر رکھا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ رہا ہے کہ کون کس کے ساتھ کھڑا ہو۔ یہ لڑائی بظاہر روس اور یوکرین کے درمیان ہے مگر ذرا سے غور و فکر سے عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ اصل لڑائی تو امریکا اور روس کے درمیان ہے۔ اس لڑائی میں کسی ایک کا ساتھ دینے کا مطلب ہے فریقِ ثانی سے مخاصمت مول لینا۔ چین نے کُھل کر روس کا ساتھ دیا ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اس وقت چین اتنا مضبوط ہے کہ کسی سے بھی معاملے میں اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کرسکتا ہے۔ وہ امریکا اور یورپ میں سے کسی بھی دبنے کے موڈ میں دکھائی نہیں دے رہا۔ چینی صدر شی جن پنگ نے روس کے معاملے میں خاصی جارحانہ پالیسی اپنائی ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ اس مرحلے پر امریکا اور یورپ اپنی بات منواکر اسٹریٹجک معاملات میں اپنی پوزیشن مستحکم کریں۔
پاکستان کے لیے یہ بھی فیصلہ کن گھڑی ہے۔ امریکی قیادت اس بات پر خاصی برہم دکھائی دے رہی ہے کہ پاکستان نے یوکرین کے معاملے میں روسی قیادت کے ساتھ کھڑے ہونے کو ترجیح دی ہے۔ یوکرین اور روس کے درمیان کشیدگی کے نقطۂ عروج کے لمحات میں عمران خان نے وزیر اعظم کی حیثیت سے روس کے دارالحکومت ماسکو جاکر صدر پوٹن سے ملاقات کی جو یہ بتانے کے لیے تھی کہ اب ہر معاملے میں امریکا کی بات نہیں مانی جائے گی اور اُس کا ناجائز دباؤ برداشت نہیں کیا جائے گا۔ روس کا ساتھ دے کر پاکستان کو بھی متعدد معاملات میں بہت کچھ کھونا پڑے گا۔ مگر خیر، سیاست و معیشت میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہم ایک زمانے تک امریکا اور یورپ کے ساتھ رہے ہیں۔ اِس دوران ہمیں کیا ملا ہے؟ کیا ہم یہ حقیقت نظر انداز کرسکتے ہیں کہ امریکا اور یورپ نے ہمارے لیے پنپنے کی گنجائش نہیں چھوڑی؟ آج اگر پاکستانی بڑی تعداد میں امریکا اور یورپ میں بسے ہوئے ہیں تو اس میں حیرت کیا بات ہے؟ ہم تو پھر دوست رہے ہیں، کٹر دشمن ممالک کے باشندے بھی امریکا اور یورپ میں بھرپور آزادی کے ساتھ بسے ہوئے ہیں اور مختلف شعبوں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ امریکا اور یورپ ہمارے لیے سب سے بڑی برآمدی منڈیاں ہیں مگر ہم یہ بھی نہ بھولیں کہ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے ذریعے مشکیں بھی تو ہماری ہی کسی جاتی ہیں۔ اب تک تو معاملہ : ’’وہی قتل بھی کرے ہے، وہی لے ثواب اُلٹا ‘‘والا رہا ہے۔ اس وقت پاکستان میں جو ماحول پایا جارہا ہے اُس کے دباؤ کے تحت اگر امریکا اور یورپ اپنی پالیسیوں میں تھوڑی بہت تبدیلی لائیں تو اچھی بات ہے۔ اس میں پاکستان ہی کا فائدہ ہے۔ ہر معاملے میں اُن کی ہر بات ماننے کا نتیجہ بھی ہم نے دیکھا اور بھگتا ہے۔ ایسے میں تھوڑی بہت پسوڑی ڈالنے میں کیا ہرج ہے؟ لوگ ڈرا رہے ہیں کہ بہت کچھ ہاتھ سے جاتا رہے گا۔ سوال یہ ہے کہ ہمیں اُن سے ملا ہی کیا ہے جو جاتا رہے گا۔
بھارت کے لیے بھی یہ بہت مشکل وقت ہے۔ وہ ایک زمانے سے وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہا ہے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو نے ملک کو سوویت کیمپ میں ڈالا تھا اور ساتھ ہی ساتھ ناوابستہ تحریک کی بنیاد بھی رکھی تھی! بھارت کہنے کو غیر جانب دار تھا اور ساتھ ہی ساتھ مغرب اور سوویت یونین دونوں سے مزے لُوٹ رہا تھا۔ یہ سلسلہ چالیس سال تک چلا۔ سرد جنگ کے خاتمے پر بھارت کے لیے غیر جانب دار رہنے کا ناٹک جاری رکھنا دشوار ہوگیا۔ بھارتی تجزیہ کار آج بھی بونگیاں مار رہے ہیں کہ غیر جانب دار رہ کر بھارت نے بہت کچھ کھویا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بھارت غیر جانب دار رہا کب ہے؟ وہ تو ابتدا ہی سے مغرب کا دلدادہ و پرستار رہا ہے۔ بھارت کے لاکھوں نالج ورکرز امریکا اور یورپ میں کام کر رہے ہیں۔ یورپ میں بسے ہوئے غیر یورپی باشندوں میں بھارتی باشندے بہت نمایاں ہیں۔ اس پر بھی دعویٰ یہ کیا جارہا ہے کہ بھارت تو غیر جانب دار ہے۔ سوویت دور میں بھی بھارت اسلحہ اور دیگر اہم اشیا حاصل کرتا رہا۔ یہ دو کشتیوں کا سفر اب ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔ بھارت کو آج بھی دفاعی ساز و سامان میں سب زیادہ سے روس پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں بھارتی قیادت کے لیے روس کو ناراض کرنا بھی ممکن نہیں۔ یہ عقل کا سَودا بھی نہیں۔ دوسری طرف امریکا اور یورپ چاہتے ہیں کہ بھارت کُھل کر اُن کا ساتھ دے۔ امریکا اور یورپ کے وزرائے خارجہ کی نئی دہلی میں آنیاں جانیاں لگی ہوئی ہیں۔ چین کو اپنے وزیر خارجہ کو بھیجنا پڑا ہے تاکہ بھارتی قیادت سے دو ٹوک انداز سے بات کرے۔ امریکا اور یورپ چاہتے ہیں کہ بھارت اس مرحلے پر روس سے سستا خام تیل نہ خریدے۔ روس پر امریکا اور یورپ نے پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں۔ بھارت تیل خریدنے کے لیے تیار ہے کیونکہ بنیا ذہنیت اُسے ایسا کرنے پر اُکسا رہی ہے۔ روس کو اس وقت خریدار درکار ہیں تاکہ معیشت مضبوط رہے۔ بھارت اُسے یہ سہولت دے رہا ہے۔ یہ گویا امریکا اور یورپ کو ناراض کرنا ہے۔ یوکرین کے بحران نے بھارتی قیادت کو عجیب ہی ’’اگنی پریکشا‘‘ سے دوچار کردیا ہے۔ امریکا کہتا ہے کہ ’’لکشمن ریکھا‘‘ پار نہ کرنا اور دوسری طرف روس کہہ رہا ہے کہ ہمارے ساتھ راس لیلا نہ رچائی تو پھر دو طرفہ تعلقات میں ہولی ہوگی نہ دیوالی!
بہر کیف، ایک بار پھر سرد جنگ کا سا ماحول پیدا ہو رہا ہے۔ ایک طرف امریکا اور یورپ ہیں جبکہ دوسری طرف چین، روس، پاکستان، ایران، شمالی کوریا، جنوب مشرقی ایشیا اور وسطِ ایشیا کی ریاستیں ہیں۔ اب تک امریکا اور روس کے درمیان کشمکش ہی کے نتیجے میں جنگیں ہوئی ہیں اور کئی ممالک برباد ہوئے ہیں۔ ان برباد ممالک کی فہرست میں اب یوکرین کا نام بھی جُڑ گیا ہے۔ 1953 میں امریکا اور روس کی جنگ نے کوریا کو تقسیم کردیا۔ یہ تقسیم اب تک برقرار ہے۔ دوسری جنگِ عظیم نے جرمنی کو بھی تقسیم کیا تھا۔ یہ تقسیم 1990 کے عشرے کے ابتدائی لمحات میں ختم ہوئی جب برلن کی دیوار گری۔ 1968 میں امریکا اور روس کے درمیان کشمکش کے نتیجے میں چیکو سلو والیہ کی جنگ ہوئی۔ ان دو طاقتوں کی رَسّا کشی کے باعث ہی سابق یوگو سلاویہ میں بوسنیا ہرزیگووینا، سربیا اور کروشیا کے نقشے تبدیل ہوتے گئے۔
اگر یوکرین کی جنگ پھیلی اور اُس کے یورپی پڑوسی بھی لپیٹ میں آئے تو ایک ایسی جنگ شروع ہوسکتی ہے جس میں دنیا کا بہت کچھ داؤ پر لگ سکتا ہے۔ امریکا اور روس کے درمیان جاری رَسّا کشی تیسری عالمی جنگ کی راہ ہموار کرکے دنیا کو مزید تقسیم کرسکتی ہے، مزید تباہی پھیلا سکتی ہے۔ اگر جنگ نہ بھی چھڑے تو سرد جنگ بہر حال جاری رہے گی۔ ایک نئی سرد جنگ دنیا کا مقدر بننے کو ہے۔ امریکا اور یورپ اپنی طاقت میں اضافے لیے بدحواسی میں کوئی غلط قدم اٹھاکر دنیا کا امن غارت کرسکتے ہیں۔