باقی راستے، کسی پریشانی کا سامنا کیے بغیر عاصم اور اُس کے ساتھیوں نے ایک رات دمشق سے دس کوس کے فاصلے پر ایک چھوٹی سی بستی میں قیام کیا۔ راستے کی دوسری بستیوں کی طرح اِس بستی میں بھی صرف نادار کسان اور چرواہے رہ گئے تھے۔ خوش حال لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر فرار ہوچکے تھے۔ ایک بوڑھے کسان نے اپنے جھونپڑے سے باہر نکل کر ان مسافروں کا خیر مقدم کیا اور جب عاصم نے اُس سے سرائے کے متعلق پوچھا تو اُس نے کہا۔ ’’جناب! یہاں کوئی سرائے نہیں لیکن گائوں کے سب سے بڑے رئیس کا مکان خالی پڑا ہے۔ ایک بوڑھے نوکر کے سوا وہاں کوئی نہیں۔ اگر آپ اس مکان میں ٹھہرنا پسند کریں تو اُسے کوئی اعتراض نہ ہوگا‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’ہم دمشق پہنچنا چاہتے تھے لیکن ہمارے گھوڑے تھک چکے ہیں اور ان خواتین کو بھی آرام کی ضرورت ہے۔ آج رات ہم تمہارے مہمان ہیں اور یہ فیصلہ کرنا تمہارا کام ہے کہ ہمیں کہاں ٹھہرنا چاہیے‘‘۔
کسان نے جواب دیا۔ ’’جناب! اگر آپ کے آرام کا خیال نہ ہوتا تو میں آپ کو اپنے جھونپڑے میں ٹھہرانے پر اصرار کرتا۔ لیکن میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ آپ کے لیے بستی کے رئیس کا مکان زیادہ موزوں ہوگا۔ مگر یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ آپ دمشق کیوں جارہے ہیں؟۔ آپ وہاں کے حالات سے بے خبر نہیں ہوسکتے‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’ہم وہاں کے حالات سے بے خبر نہیں ہیں لیکن ہمارے لیے وہاں پہنچنا ضروری ہے۔ اس وقت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ رات گزارنے کے لیے کوئی جائے پناہ تلاش کرنا ہے‘‘۔
’’آئیے، میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں‘‘۔ کسان نے یہ کہہ کر عاسم کے گھوڑے کی باگ پکڑ لی۔
تھوری دیر بعد وہ ایک کشادہ حویلی کے دروازے کے سامنے گھوڑوں سے اُترے۔ کسان نے مکان کے محافظ کو آواز دیں۔ ایک بوڑھا آدمی دروازہ کھول کر باہر نکلا اور بدحواس ہو کر عاصم اور اُس کے ساتھیوں کی طرف دیکھنے لگا۔
کسان نے کہا۔ ’’یہ بستی میں سرائے تلاش کررہے تھے اور میں انہیں یہاں لے آیا ہوں‘‘۔
نوکرنے عاصم کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’میرا مالک یہاں نہیں ہے لیکن اگر آپ ٹھہرنا پسند کریں تو مجھے بہت خوشی ہوگی۔ یہ سارا مکان خالی پڑا ہے۔ آئیے!‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’تمہیں ہمارے گھوروں کے لیے چارے کا بندوبست کرنا پڑے گا یہ بہت بھوکے ہیں‘‘۔
نوکر نے کہا۔ ’’جناب! آپ فکر نہ کریں‘‘۔
وہ چار دیواری کے اندر داخل ہوئے اور نوکر نے کسان سے کہا۔ ’’تم ان کے گھورے سے اصطبل میں لے جائو۔ میں ان کے لیے کھانا تیار کرتا ہوں‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’ہمارے کھانے کے لیے تمہیں کسی تکلیف کی ضرورت نہیں۔ ان حالات میں ہمارے لیے سوکھی روٹی بھی ایک نعمت ہوگی‘‘۔
نوکر نے جواب دیا۔ ’’جناب! میرے آقا نے یہاں سے روانہ ہوتے وقت یہ حکم دیا تھا کہ ہماری بھیڑیں ایرانیوں کے کام نہیں آنی چاہئیں، اس لیے میں ہر روز ایک بھیڑ کاٹ کر پڑوسیوں کو تقسیم کیا کرتا ہوں۔ آج میں نے جوبرہ ذبح کیا تھا اُس کا خاصا گوشت گھر میں پڑا ہوا ہے‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’لیکن تمہیں سب سے پہلے ہمارے گھوڑوں کے لیے چارے کا بندوبست کرنا چاہیے وہ بہ بھوکے ہیں‘‘۔
نوکر نے کہا۔ ’’جناب! اگر آپ پچاس گھوڑے لے کر آتے تو بھی ہمارے گھاس کے ذخیرے میں کمی نہ آتی‘‘۔
عاصم نے یوسیبیا اور فسطینہ کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ ’’آپ اندر تشریف لے جائیے میں گھوڑے بندھوا کر آتا ہوں‘‘۔
تھوڑی دیر بعد یوسیبیا اور فسطینہ ایک کشادہ کمرے میں بیٹھی سرگوشیاں کررہی تھیں۔ عاصم خرجین اٹھائے اندر داخل ہوا اور اُس نے ایک کرسی پر بیٹھ کر اطمینان کا سانس لیتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے امید نہ تھی کہ اِس بستی میں ہمیں اتنی آرام داہ جگہ مل جائے گی۔ یہ نوکر کوئی نیک آدمی معلوم ہوتا ہے‘‘۔
یوسیبیا نے کہا۔ ’’آپ کو یقین ہے کہ یہاں ہمیں کوئی خطرہ نہیں‘‘۔
عاصم نے اطمینان سے جواب دیا۔ ’’مجھے یقین ہے کہ اب اگر آپ یہ اعلان کردیں کہ آپ ایرانی ہیں تو بھی آپ کو کوئی خطرہ نہیں، اس بستی میں صرف وہ نادار لوگ رہ گئے ہیں جو اپنے لیے رومیوں یا ایرانیوں کی غلامی میں کوئی فرق محسوس نہیں کرتے۔ وہ آدمی جو ہمیں یہاں لے کر آیا تھا، یہ کہہ رہا تھا کہ ہم بھیڑوں کا گلہ ہیں، اور بھیڑوں کے لیے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اُن کی اون اور ان کا گوشت رومیوں کے کام آتا ہے یا ایرانیوں کے‘‘۔
یوسیبیا نے کہا۔ ’’اب اس بات کا تو ڈر نہیں رہا کہ کوئی ہمارا پیچھا کررہا ہے لیکن مجھے معلوم نہیں کہ دمشق پہنچ کر ہم کن حالات کا سامنا کریں گے‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’دمشق میں ایرانی لشکر کا کوئی عہدہ دار آپ کے شوہر کے نام سے ناواقف نہ ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ وہاں آپ کے والد کی حیثیت عام رومیوں سے مختلف ہوگی۔ پھر یہ بھی ممکن ہے کہ نئے قیصر نے آپ کو شوہر کو رہا کردیا ہو اور وہ دمشق پہنچ چکے ہوں‘‘۔
فسطینہ بولی۔ ’’اگر میرے ابا جان قید سے رہا ہوچکے ہوتے تو وہ دمشق میں ہمارا انتظار کرنے کی بجائے فوج لے کر یروشلم پہنچنے کی کوشش کرتے‘‘۔
یوسیبیا نے غور سے عاصم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’بیٹا! تمہارے والدین زندہ ہیں؟‘‘۔
’’نہیں‘‘۔ اُس نے جواب دیا۔
وہ قدرے توقف کے بعد بولی۔ ’’مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں تمہیں ایک مدت سے جانتی ہوں اور تمہیں بیٹا کہتے ہوئے مجھے ایک طرح کی خوشی اور تسکین محسوس ہوتی ہے۔ لیکن ابھی تک مجھے یہ پوچھنے کا موقع نہیں ملا کہ تم کن حالات میں اپنے گھر سے نکلے ہو۔ تمہاری صورت ان انسانوں سے مختلف ہے جو کسی کے ساتھ بُرائی یا زیادتی کرسکتے ہیں۔ میں تمہیں بیٹا کہہ چکی ہوں اور ایک ماں کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے دُکھ درد میں شریک ہو، بُرا نہ مانو تو میں تمہاری سرگزشت سننا چاہتی ہوں۔ اگر میں تمہاری کوئی مدد نہ کرسکی تو کم از کم تمہیں تسلی ضرور دے سکوں گی۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’میں آپ کا شکر گزار ہوں لیکن میری سرگزشت سن کر آپ کو ایک ذہنی کوفت کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔ ممکن ہے آپ بھی مجھے ایک دیوانہ سمجھنے لگیں‘‘۔
’’نہیں، بیٹا! تم سنائو‘‘۔
یوسیبیا کے اصرار پر عاصم نے ماضی کے وہ واقعات بیان کردیے جن کے باعث اُس کے لیے یثرب کی زمین تنگ ہوچکی تھی۔
فسطینہ کی موجودگی کا احساس کرتے ہوئے اُس نے سمیرا سے اپنی محبت کی داستان کی تفصیلات میں جانے کی کوشش نہ کی لیکن اپنی گفتگو کے دوران میں جب کبھی وہ فسطینہ کی طرف دیکھتا تو اُسے ایسا محسوس ہوتا کہ اُس کی ذہین نگاہیں، اُس کے احساس کی گہرائیوں میں جھانک رہی ہیں۔
جب وہ عدی کے گھر کا آخری منظر بیان کرنے کے بعد خاموش ہوگیا تو فسطینہ کی آنکھوں سے آنسو چھلک رہے تھے اور وہ اپنی ماں سے یہ کہہ رہی تھی۔ ’’امی! مجھے اب بھی سمیرا کی موت کا یقین نہیں آتا۔ میں سوچ رہی تھی کہ جب یہ اپنے وطن سے روانہ ہوئے ہوں گے تو وہ ان کے ساتھ ہوگی۔ اور پھر اُس کی علالت یا کسی اور مجبوری کے باعث یہ اُسے راستے کی کسی بستی یا شہر میں چھوڑ آئے ہوں گے۔ مجھے یہ بات بھی بعید ازقیاس معلوم نہیں ہوتی تھی کہ ان کے دشمنوں نے پیچھا کیا ہوگا اور وہ سمیرا کو چھین کر واپس لے گئے ہوں گے۔ امی! اگر کوئی ایسی بات ہوتی تو میں ہر روز یہ دُعا کیا کرتی کہ وہ انہیں مل جائے۔ میں اپنے ابا جان سے التجا کرتی کہ وہ ان کی مدد کریں۔ میں کسریٰ کے پاس جا کر یہ فریاد کرتی کہ میں سین کی بیٹی ہوں اور یہ ہمارے محسن ہیں، اس لیے ان کی اعانت آپ پر فرض ہے۔ امی جان! اُسے مرنا نہیں چاہیے تھا۔ کاش یہ تھوڑی دیر پہلے اُن کے گھر پہنچ جاتے‘‘۔ فسطینہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور اُس کی آواز سسکیوں میں تبدیل ہوچکی تھی۔
یوسیبیا نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’بیٹی! موت کے سامنے کسی کا زور نہیں چلتا۔ اب تم ان کے لیے یہ دُعا کیا کرو کہ خدا انہیں صبر اور ہمت دے‘‘۔
تھوڑی دیر بعد نوکر کھانا لے کر گیا اور وہ دسترخوان پر بیٹھ گئے۔ عاصم کھانے سے فارغ ہوتے ہی دوسرے کمرے میں چلا گیا اور یوسیبیا اور فسطینہ اُسی کمرے میں سو گئیں۔
پچھلے پہر یوسیبیا نے فسطینہ کو جھنجھوڑ کر گہری نیند سے بیدار کیا اور کہا۔ ’’بیٹی! اب صبح ہورہی ہے، سفر کی تیاری کرو‘‘۔ فسطینہ نے آنکھیں ملتے ہوئے کہا۔ ’’امی جان! ابھی بہت رات باقی ہے، انہوں نے کہا تھا کہ پچھلے پہر گھوڑے تیار کرکے ہمیں جگادیں گے‘‘۔
’’بیٹی! میں نے ساتھ کے کمرے کا دروازہ کھلنے کی آہٹ سنی تھی۔ میرا خیال ہے کہ وہ اصطبل کی طرف گیا تھا‘‘۔
’’اچھا! اُٹھتی ہوں‘‘۔ فسطینہ نے انگڑائی لے کر کروٹ بدلتے ہوئے کہا۔
ماں نے پوچھا۔ ’’بیٹی! تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟‘‘۔
’’ہاں، امی جان! میں بالکل ٹھیک ہوں لیکن ابھی میرا اُٹھنے کو جی نہیں چاہتا‘‘۔
صحن میں پائوں کی آہٹ سنائی دی اور پھر کسی نے آہستہ سے دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے کہا۔ ’’فسطینہ!‘‘۔
یہ عاصم کی آواز تھی فسطینہ نے جلدی سے اُٹھ کر دروازہ کھولا تو وہ ایک رومی کی بجائے ایک عرب کے لباس میں اُس کے سامنے کھڑا تھا۔ اُس نے کہا۔ ’’اس سے آگے میں رومی لباس میں سفر کرنا خطرناک سمجھتا ہوں۔ وہ نوکر مجھے دیکھ کر ڈر گیا تھا۔ اُس نے یہ خیال کیا تھاکہ رومی فوج کا کوئی عرب دستہ یہاں پہنچ گیا ہے۔ میں نے بڑی مشکل سے اُسے تسلی دی ہے۔ گھورے تیار ہیں۔ آپ جلدی سے تیار ہو کر اصطبل میں آجائیں میں وہاں آپ کا انتظار کرتا ہوں‘‘۔
O
چند میل اور سفر کرنے کے بعد انہیں دمشق کے حسین مناظر دکھائی دے رہے تھے۔ فسطینہ اب اُس لڑکی سے مختلف نظر آتی تھی جسے عاصم نے انتہائی بے بسی کی حالت میں دیکھا تھا۔ آلام و مصائب کے بادل چھٹ چکے تھے اور اُس کا سنجیدہ اور معصوم چہرہ، ایک کھلتے ہوئے پھول کی طرح شگفتہ تھا۔ لیکن یوسیبیا اب بھی مغموم اور پریشان دکھائی دیتی تھی۔ اب اُسے پیچھا کرنے والوں کی طرف سے کوئی خطرہ نہ تھا لیکن دمشق کے متعلق طرح طرح کے خیالات پریشان کررہے تھے اور وہ گردن جھکائے گھوڑے پر بیٹھی ہوئی تھی۔
فسطینہ نے اپنا گھوڑا اُس کے قریب کرتے ہوئے کہا۔ ’’امی جان! اب تو آپ کو پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ ہم تھوڑی دیر میں گھر پہنچ جائیں گے اور وہاں ایرانی لشکر کی موجودگی میں ہمیں کوئی خطرہ نہ ہوگا‘‘۔
یوسیبیا نے جواب دیا۔ ’’بیٹی! میں تمہارے نانا کے متعلق سوچ رہی ہوں۔ خدا معلوم، وہ کس حال میں ہوں گے۔ فاتح لشکر جب کسی شہر میں داخل ہوتا ہے تو کسی پر رحم نہیں کرتا‘‘۔
فسطینہ نے سنجیدہ ہو کر کہا۔ ’’امی جان! مجھے یقین ہے کہ ایران کے سپاہی ہمارے گھر کی حفاظت کررہے ہوں گے وہ میرے باپ سے ناواقف نہیں ہوسکتے‘‘۔
’’بیٹی! مجھے ڈر ہے کہ ان حالات میں تمہارے نانا کسی کو یہ بتانا بھی گوارا نہیں کریں گے کہ میں سین کا خسر ہوں اگر ایرانیوں نے دمشق کے باشندوں پر مظالم کیے تو انہیں اپنی جان بچانے کی فکر نہیں ہوگی۔ اور میں تمہارے باپ کے متعلق بھی پریشان ہوں۔ قسطنطنیہ کے لوگ شام میں ایرانیوں کے مظالم کی داستانیں سننے کے بعد انہیں کسی نیک سلوک کا مستحق نہیں سمجھیں گے۔ اگر انہوں نے اُن پر کوئی اور سختی نہ کی تو بھی جنگ کے دوران میں اُن کا قید سے رہا ہونا ممکن نہیں‘‘۔
فسطینہ کے چہرے پر اداسی کے بادل چھا گئے۔ کچھ دیر وہ خاموشی سے سر جھکائے اپنی ماں کے ساتھ چلتی رہی اور پھر گھوڑے کو ایڑ لگا کر عاصم سے جا ملی۔
(جاری ہے)